امریکی سفارت کارکی ہرزہ سرائی

امریکی کونسلر جنرل کراچی ولیم مارٹن نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں شرمین عبید چنائے کی پروفارمنس اور ایوارڈ حاصل کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی خواتین کو با صلاحیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے ان رکاوٹوں کو دیکھ کر قلبی دکھ ہوتا ہے جنہیں خواتین کی راہ میں حائل کر دیا گیا ہے اور میں تاسف سے سوچتا ہوں کہ اس ملک میں نہ جانے کتنی ”شرمینیں“ جہالت اور فرسودہ ترین عقائد کی بنیاد پر کئے گئے تشدد کے ہاتھوں دنیا کی نگاہوں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو ں گی۔امریکی نظریات اور امریکی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ امریکہ خواتین کی آزادی کے نام پر مسلم دنیا میں تبدیلی کا خواہاں ہے اور وہ شرمین عبید چنائے جیسی خواتین کو پاکستانی معاشرے کے لیے آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔وہ خواتین کو پردے اور گھر کی چار دیواری سے باہر نکال کر تماشہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ مغربی معاشرے کی طرح مسلم عورت کو ایسی آزادی دینا چاہتے ہیں کہ جہاں سے وہ واپس اپنے گھر کو لوٹ سکے۔مسلم معاشرے میں عورت کا جو مقام مرتبہ اور طرز زندگی متعین کیا گیا ہے وہ اسے عورت کی ترقی میں رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔ اسی لیے ولیم مارٹن نے اپنے حالیہ مضمون (روزنامہ جنگ 7 مارچ 2012 ) میں عورتوں کو شرمین چنائے جیسا بننے میں حائل رکاوٹوں کو جہالت اور فرسودہ عقائد سے تعبیر کیا ہے۔امریکیوں کو تو یہی کہنا ہے، اسی لیے وہ دنیا بھر میں اربوں روپے خرچ بھی کر رہے ہیں لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ہم اپنے ذرائع ابلاغ میں بڑی بے شرمی اور بے غیرتی سے ایسے الفاظ شائع کردیتے ہیں ، جو ہمارے مذہبی عقائد اور معاشرتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔

یقینا مسلم معاشرہ اپنی خواتین کو امریکی عزائم کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتا اور انہیں شرمین چنائے جیسی خواتین بنانے کی ترغیب نہیں دے سکتا۔ جس جہالت اور فرسودہ عقائد سے تعبیر کرکے ایک امریکی سفارت کار نے ہمارے مذہبی عقائد و نظریات کی توہین کی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ بات اس نے ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے ایک موقر روزنامے کی خصوصی اشاعت کے لیے لکھے گے مضمون میں کیا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ مسلمانوں میں دینی غیرت ختم ہو چکی ہے اور ان کے ذرائع ابلاغ ڈالروں کی چمک کے آگے کبھی اپنے مذہبی عقائد و نظریات کو ترجیح نہیں دیتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی ایک محدود تعداد مغربی پروپیگنڈے اور ڈالروں کی چمک سے متاثر ہورہی ہے لیکن ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اربوں روپے کی سرمایہ کاروی کے باوجود مغربی استعمار مسلم عورت کو اسلامی اقدار سے محروم نہیں کرسکا۔ اپنی اس ناکامی کو وہ جہالت اور فرسودہ عقائد سے تعبیر کر رہے ہیں۔

اسلام امن ، سلامتی، تحفظ اور خیر خواہی کا دین ہے۔ پوری دنیا میں کسی ایک بھی انسان پر یہ نظریہ اور عقیدہ جبر سے نافذ نہیں کیا گیا بلکہ تمام مسلم خواتین اور مردوں نے بہ رضا و رغبت سے اس دین کو اختیار کیا ہوا ہے۔ مسلم دنیا میں کہیں بھی اسلامی اقدار پر عمل کروانے کے لیے جبرو تشدد سے کام نہیں لیا جارہا، البتہ دینی ادارے اور اسلامی تحریکیں مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنے دین کے ساتھ پختہ وابستگی اختیارکرنے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی رضاکارانہ ترغیب دیتی ہیں۔ اس میں کہیں بھی جبر کی آمیزش نہیں۔

امریکی جس کو جہالت اور فرسودہ عقائد سے تعبیر کرتے ہیں وہ ان کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ جہالت تو یہ ہے کہ والدین کو گھروں سے نکال کر ان کی جگہ کتوں اور بلیوں کو دے دی جائے۔ جہالت تو یہ ہے کہ مرد ، مرد سے اور عورت ، عورت سے شادی کرے۔ جہالت تو یہ ہے کہ مرد اور عورت بغیر نکاح کے کئی کئی عورتوں اور مردوں سے اپنے جنسی تعلقات استوار کریں۔ جہالت تو یہ ہے کہ بوڑھے والدین کو روٹی تک دینے پر اولاد تیار نہ ہو اور یہ جہالت ہے کہ اپنی خود غرضی کے لیے اولاد کو ماں کے پیٹ میں ہی مانع حمل ادویات کے ذریعے قتل کیا جائے۔اس سے بڑی جہالت کیا ہوگی کہ مغربی معاشرے میں پیدا ہونے والے بچے کو اپنے باپ کے نام تک کا پتہ نہ ہو اور وہ اپنے والد کی شفقت سے محروم رہے ۔ ہاں اگر کوئی اپنی ماں کو اولڈ ہوم میں جمع کرواکر ایک کتی کو اپنے گھر میں رکھنے کو اعلیٰ انسانی اقدار سے تعبیر کرے تو اس معاشرے کو انسانی معاشرہ کون تسلیم کرے گا۔ عورت اگر مغربی معاشرے میں مطمئن ہوتی تو وہ کبھی بھی اسلام کے طرف راغب نہ ہوتی، آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ مغربی معاشرہ ناپسندیدگی کی آخری سطح کو پہنچ چکا ہے اور اہل مغرب باالخصوص خواتین سکون، اطمینان اور باعزت زندگی کے لیے اسلام کی آغوش میں پناہ لے رہی ہیں۔ میں حیران ہوں کہ جن بری خصلتوں کو اہل مغرب عورت کی آزادی اور خودمختاری سے تعبیر کر رہے ہیں، ان کے بچے بھی ان خصلتوں سے نفرت کر تے ہیں۔گزشتہ سال اسلام کی آغوش میں آنے والی نامور برطانوی خاتون صحافی اور سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سالی محترمہ لورین بوتھ نے بتا یا کہ جب اس نے اپنی معصوم بچیوں سے اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا تو سکول جانے والے ان معصوم بچیوں نے ماں سے پوچھا کہ کیا تم اسلام قبول کرنے کے بعد بھی شراب نوشی کرو گی، تنگ کپڑے پہنو گی، رات گئے تک گھر سے باہر رہو گی اور سیگریٹ نوشی جاری رکھوگی۔ جب ماں نے نفی میں جواب دیا تو ان بچیوں نے خوشی کا اظہار کیا۔

کیا ولیم مارٹن ہمیں ان سماجی اقدار کی طرف لے جانے چاہتے ہیں جن سے مغربی معاشرے کے معصوم بچے بھی نفرت کرتے ہیں۔ کیا وہ اسی کو آزادی، خودمختاری اور ترقی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہاں! عقل سے عاری ایک بیوقوف اور پاگل انسان تو کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ وہ لوگ جن کے گھر اجڑ چکے ہیں، جن کے پاس گھرانہ نام کی کوئی شے نہیں۔ جو چاردیواری کے اندر انسان کے متلاشی ہیں۔وہ معاشرہ جس کے شراب خانے، قہوہ خانے اور کلب آباد اور گھر غیر آباد ہو چکے ہوں۔ وہ گھر جو بچوں اور والدین سے خالی ہوں۔ وہ قید خانے بلکہ اذیت کدے تو کہلا سکتے ہیں گھر نہیں۔ ایسا معاشرہ بیابان جنگل کی صورت اختیار کرلیتا ہے ، جہاں انسانوں کے بجائے خونخوار درندے فروغ پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اور بچوں کے بعد اب مغربی گھروں سے بیوی بھی بیدخل ہو چکی ہے اور وہاں ہر روز ایک نئی گرل فرینڈ نے لے لی ہے۔ کتوں اور بلیوں کے ساتھ پلنے والوں کے اندر انسانی اوصاف کب تک قائم رہ سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مغرب میں بسنے والوں کو طلاق، خودکشی اور زندگی سے بیزاری (ہیپی ٹرینڈ) جیسے معاشرتی امراض نے مکمل طور پر گھیر رکھا ہے۔ان کی بے راہ روی کی زندگی کی پاداش میں ایڈ جیسی موذی مرض نے پورے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کیا ولیم مارٹن ہمیں بھی ان امراض میں مبتلا ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کیا وہ اسی معاشرے کو خواندگی اور نئی روشنی سے تعبیر کررہے ہیں اور اسلام کے آفاقی پیغام کو جہالت اور فرسودہ عقائد سے تعبیر کر رہے ہیں۔ میں تو اسے ان کے پاگل پن سے تعبیر کروں گا تاہم مجھے گلہ اپنے ذرائع ابلاغ سے ہے جو اس طرح کے جاہلانہ نظریات کو فروغ دینے میں مددگار بنے ہوئے ہیں۔ میں مسلم خواتین کی اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے رجحانات سے ایک نئی دنیا تشکیل پاتی دیکھ رہا ہوں۔ دنیا میں اسلام کی حقانیت روز روشن کی طرح ثابت ہو رہی ہے اور اسلام دشمن میڈیا یلغار، این جی اوز کے ذریعے اربوں ڈالر خرچ کرنے اور اقوام متحدہ کے ذریعے اپنے عالمی ایجنڈے کے نفاذ کے باوجود ناکام ہو کر پاگل پن کا شکار ہو رہے ہیں۔

مغرب مسلم عورت کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے میڈیا اور این جی اوز کے ذریعے اربوں روپے خرچ کر چکا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ہو رہی۔اس نے مسلم ممالک پر اپنے ایجنٹ حکمران بنارکھے ہیں تاکہ وہ ان کے ایجنڈے کی تکمیل ہو سکے ۔ اس کے باوجود انہیں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں مل سکی۔ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لیے اب اہل مغرب اسلامی عقائد و نظریات کو جہالت اور فرسودہ ترین عقائد سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی جہالت منہ چڑھ کر بول رہی ہے۔ اس مسئلہ ان کی جہالت کا نہیں بلکہ مسلم ذرائع ابلاغ کا ہے جو ان کے باطل نظریات کو فروغ دینے کے لیے اپنا دامن پیش کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے اداروں پر توجہ دینی چاہیے کہ جو لوگ مسلمانوں کے روپ میں ہماری اقدار کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 106367 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More