حوا کی بیٹی

عورت عربی زباں کا لفظ ہے جس کے معنی ”پردے“کے ہیں جب کوئی لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے اور سن بلوغت کو پہنچتی ہے تو عورت کہلاتی ہے، موجودہ دور میں حقوق نسواں کی آزادی اور خودمختاری کے لئے کئی ادارے اور بہت ساری این ۔جی۔اوز کام کر رہی ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں عورت کی آزادی کا مطلب غلط لیا جاتا ہے موجودہ حالات میں عورت کو فیشن کے نام پر پردے اور لباس سے آزاد کیا جا رہا ہے اور حوا کی بیٹی کو بازاروں اور اشتہارات کی زینت بنا کر اس کی تذلیل کی جارہی ہے آج بھی خواتین کا عالمی دن بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں خواتین کے حقوق وخود مختاری اور آزادی پر جذباتی اور خوبصورت باتیں کی جاتی ہیں ،بنت حوا کی محرومیوں کا رونا بھی رویا جاتا ہے خواتین کے حقوق کے لئے قراردادیں اور بل بھی پاس کئے جاتے ہیں ڈھیر سارے وعدے اور ارادے بھی کئے جاتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کچھ بھی نہیں بدلتا،سب باتیں ،سب قراردادیں اور سارے وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اسی لئے تو آج بھی حوا کی بیٹی ظلم و ستم کا شکار ہے ،آج بھی جائیداد کے لالچ میں بنت حوا کی شادی قرآن کے ساتھ کی جارہی ہے،اس لئے آج بھی ایک معصوم سی کلی کو’ ونی‘ جیسی فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے،آج بھی دوشیزائیں عزت لٹنے پر ماتم کرتی دکھائی دیتی ہیں ،آج بھی عورت کو اغوا کرکے اس کی عزت و عصمت کو تار تار کیا جاتا ہے ،آج کے جدید دور میں بھی عورتوں کو زندہ درگور کیا جاتا ہے ،اس لئے آج بھی حوا کی بیٹی کے خوبصورت چہرے کو تیزاب کے ذریعے بدصورت کئے جانے کا عمل جاری ہے ،آج بھی بنت حوا کو جذبات کی تسکین کے لئے پاﺅں میں گھنگھرو ڈال کر سٹیج پر نچایا جاتا ہے اور ہم لوگ اسے انجوائے منٹ کہتے ہیں،
کیسے دور جہالت میں جی رہے ہیں ہم
آدم کا بیٹا خوش ہوتا ہے حوا کی بیٹی کو بے نقاب دیکھ کر

عورت پر ہوتے ظلم وستم پر زمیں بھی کانپ جاتی ہے اور حوا کی بیٹی کی درد میں ڈوبی ہوئی چیخ و پکار اور آہ و فغاں سے آسماں بھی رو دیتا ہے لیکن اللہ کی زمیں پر بسنے والے ظالم لوگ بنت حوا پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانا بند نہیں کرتے اس کے احساسات اور جذبات کی پرواہ کرنے کی بجائے اپنی حیوانی جبلت کی تسکین کے لئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں ۔

عورت جس میں محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے کبھی عورت ماں کے عظیم روپ میں نظر آتی ہے،تو کبھی بیوی جیسے خوبصورت رشتے میں محبت کی تصویر بنی نظر آتی ہے اور کبھی یہ بہن جیسے خوبصورت رشتے میں محبت کی مالا دکھائی دیتی ہے اللہ تعالیٰ نے اک عورت کے اندر اپنی محبت میں سے کچھ محبت ڈال دی ہے جس کی وجہ سے یہ محبت کا عظیم پیکر دکھائی دیتی ہے ،عورت جو خودداری اور حیا کا مجسمہ تھی آج کے دور جدید میں بس اک کھلونا بن کر رہ گئی ہے جسے اپنی مرضی اور تسکین کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ،عورت جوکہ اک گھنا سایہ دار درخت کی مانند ہوتی ہے آج خود کو بھوکی نگاہوں سے بچاتی نظر آتی ہے،عورت جو کہ ایک خوبصورت چمن کی طرح رشتوں میں خوشبو بکھیرتی ہے آج وہی عورت ہوس ناک نگاہوں کے طواف سے خود کو محفوظ رکھنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔

حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والے اداروں اور این ۔جی۔اوز کو عورت کے حقوق کے لئے خصوصی حکمت عملی ترتیب دے کر عملی اقدام کرنے ہوں گے تاکہ حوّا کی بیٹی کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس مل سکے اور وہ عزت سے جی سکے کیونکہ اسلام نے عورت کو ایک مقام دیا ہے اگر مسلم خواتین کو اپنا وقار و مرتبہ لینا ہے تو اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہوں تاکہ دنیا میں بھی عزت سے زندگی بسر کر سکیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہو سکیں۔

عورت عربی زباں کا لفظ ہے جس کے معنی” چھپانے کی چیز “کے ہیں اس لئے عورت کو پردے میں رہنا چاہئے لیکن آج بے پردگی کی وجہ سے عورت محرومی کا شکار ہے اسی وجہ سے وہ ظلم وستم کا شکار ہو کر اپنا وقار کھو رہی ہے اور اسلام نے جو عورت کو مقام دیا تھا بے پردگی کی وجہ سے وہ اس مرتبے سے تنزلی کا شکاری ہو رہی ہے اس موجودہ دور میں اگر کوئی پردے کی بات کرتا ہے تو اسے دقیانوسی اور پرانی سوچ کا حامل انتہا پسند”ملّا“گردانا جاتا ہے جو کہ صرف کتابی اور انتہا پسندی کی باتیں کرتا ہو۔اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھتے ہوئے ہدایت کاملہ دے۔آمین
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 188641 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.