کشمیر کا مستقبل

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست جموں کشمیر 14 اگست1947 سے پہلے موجود تھی اور اس کا رقبہ دنیا کے کئی نامی گرامی ممالک سے زیادہ اور اس کی آبادی بھی قابل لحاظ تھی لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ 14 اگست1947والا کشمیرکرہ ارضی پر کہیں موجود نہیں۔ ایسے تو برطانیہ کی سلطنت بھی کبھی آدھی دنیا پر قائم تھی اور تاج برطانیہ کی سلطنت سے سورج کبھی غروب نہیں ہوا کرتا تھا۔کبھی ہندوستان بھی جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک تھا اور کبھی روس اور جرمن بھی عالمی طاقتیں تھیں، یہ سب قصہ ماضی ہے۔کبھی اکبر بادشاہ ہندوستان کا والی تھا اور کبھی پرتھوی راج چوہان اس خطے کا حکمران تھا، جس کی نسلوں نے صدیوں حکمرانی کی۔ کیا یہ سب کچھ آج ممکن ہے، کیا کوئی آج اٹھ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں اکبر بادشاہ کا جانشین ہوں تو سارا ہندوستان میرے لیے خالی کر دیا جائے۔ ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ماضی کیا تھا، یہ صرف تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمیں اس پر فخرہے کہ ہم ایک پہچان رکھتے ہیں اور ہمارا وطن کئی حوالوں سے دنیا میں منفرد رہا ہے۔

بدقسمتی سے آج ہم غلام در غلام ہیں۔اس کا الزام دوسروں پر دھرنے کے بجائے ہمیں اپنے دامن پر غور کرنا چاہیے۔1947 میں اہل کشمیر نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والی نوزائیدہ مملکت پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرکے اپنی پہچان کی قربانی دے دی تھی۔ وہ فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کشمیر کا تھا اور آج بھی کشمیر کے بوڑھے، بچے، جوان اور عزت ماب خواتین پاکستان کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھتے ہیں۔ آج بھی اہل کشمیر کے غالب اکثریت پاکستان کے ساتھ جینے اور مرنے کو اپنا مقصد حیات سمجھتا ہے۔ نصف صدی سے جاری جدوجہد آزادی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شیخ عبداللہ جیسا مداری بھی عوامی اجتماعات میں آنے سے پہلے اپنے ہاتھ میں نمک کی ڈلی اور جیب میں سبز رومال سجا کر پاکستان دوستی کا مظاہرہ کرتا تھا اور اہل کشمیر کو یقین دلاتا تھا کہ وہ اندر اور باہر سے مکمل پاکستانی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی تقریر سے پہلے طویل تلاوت قرآن پاک کرتا تھا، جسے اسلام سے محبت کی علامت کے طور پر پیش کرتا ۔ انہی دو بنیاد پر وہ الیکشن جیتتا رہا۔

ریاستی جموں وکشمیر کا ایک حصہ آزادی سے ہمکنا ر ہوا، جسے کشمیریوں کی خواہش پر پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ یہ طے پایا کہ ریاست کی مکمل آزادی تک الحاق کو موخر رکھا جائے۔ آزادکشمیر میں کشمیریوں کی ایک نمائندہ حکومت تشکیل دی گئی جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے بیس کیمپ فراہم کرنا تھا۔ ابتدائی چند سالوں میں ہی آزادکشمیر کی نام نہاد لیڈرشپ نے تحریک آزادی کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کی بنیادپر وزارت امور کشمیر سے ساز باز شروع کر دی اور سیکشن آفیسرز کے ذریعے اکھاڑ پچھاڑ کروانے لگے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ آزادکشمیر کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ایجنڈا کبھی بھی ”آزادی“ نہیں رہا۔یہ مفاد پرستوں کا ٹولا ہے، جس نے ریاست کو یرغمال بنا ئے رکھا ہے۔ یہی معاملہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہے۔ خونی لکیر کے دونوں اطراف میں سیاستدانوں نے صرف حق حکمرانی طلب کیا، جو پاکستان اور ہندوستان دونوں نے انہیں عطا کیا۔ اس قبیلے نے کبھی آزادی طلب نہیں کی اور نہ آئندہ ان میں سے کوئی سیاستدان آزادی کی خاطر اپنے مفادات سے ہاتھ کھینچنے پر تیار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قائد حریت سید علی گیلانی کے علاوہ کوئی نظر نہیں آرہا۔ اقتدار کی سیاست کرنے والے تو کھلے بھارت نواز ہیں لیکن کتنی بدقسمتی ہے کہ حریت کے نام پر اکھٹے ہونے والے بونے بھی بھارتی وظیفہ خوار ہیں اور کھلے عام بھارتی مراعات اور نوازشوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔

اہل کشمیر کی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے کبھی بھی حقیقی قیادت نصیب نہیں ہوسکی۔جو قوم کنبوں، برادریوں، علاقوں اور زبانوں میں بٹ چکی ہو، اس کی خمیر سے ایسے ہی مفاد پرست جنم لیں گے۔ اب یہ مفاد پرستی حرام خوری، لوٹ مار اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے تک پہنچ چکی ہے۔اس کے باوجود اپنی محرومیوں پر پاکستان اور بھارت کو دوش دینا مناسب نہیں لگتا۔

1989 میں کشمیر کے نوجوانوں نے اپنا حال اور مستقبل قربان کر کے اپنی آئندہ نسلوں کی بقائ، سلامتی اور آزادی کے لیے علم جہاد بلند کیا تو خونی لکیر کے دونوں اطراف کے سیاستدانوں نے انہیں گمراہ قرار دیا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے تحریک جہاد کو اپنایا اور ہر گاؤں، ہر قریے اور ہر گھر نے بے مثال قربانی پیش کی۔ پاکستان نے اس تحریک کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا اور جب یہ تحریک نکتہ عروج پر پہنچی تو کہیں نوازشریف کارگل کے چوٹیوں پر پیٹھ دکھا گئے اور کہیں آمر پرویز مشرف دباؤ میں آئے اور شہداءکے خون کا سودا کر دیا۔ اس میں پاکستان کا قصور نہیں بلکہ پاکستان کے نامرد، بزدل اور تاجرانہ ذہنیت کے مسلط شدہ حکمرانوں کی بزدلانہ اور تاجرانہ اور کشمیر دشمن پالیسیوں کا قصور ہے۔ اگر نوازشریف اور پرویز مشرف اہل کشمیر کے ساتھ ہاتھ نہ کرتے تو بھارت کو کشمیر سے نکلنے کے علاوہ کوئی راستہ میسر نہ تھا۔میدان جہاد میں موجود نوجوانوں اور عسکری قیادت نے بھارتی افواج اور چالوں کو بے بس کر دیا تھا۔ یہ موقعہ ضائع ہو گیا لیکن خونی لکیر کے دونوں اطراف سے کسی سیاستدان نے ان سازشوں کا راستہ نہیں روکا۔ آزادکشمیر کے سیاستدان انہی لوگوں کے آلہ کار بنے رہے اور حریت کے نام پر جمع ہونے والے بونے بھی ان حکمرانوں سے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرتے رہے۔ انہی مفادات کی بدولت ہر دو طرح کے مفاد پرستوں نے ان سازشوں کو اہل کشمیر کے لیے راہ نجات قرار دیا اور شیخ عبداللہ کی طرح اہل کشمیر کو ایک بار پھر غلامی کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔

آج اگر اسٹبلیشمینٹ اور حکمران ہمارے آر پار کے مفاد پرست سیاستدانوں کے منہ میں نوالہ دے کر انہیں خاموش کر رہے ہیں تو قصور کس کا ہے؟ نوالہ دینے والے کا یا چند نوالے کے عوض پوری قوم کا سودا کرنے والے کا؟ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری محرومیوں کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہمارے اپنے سیاستدان ہیں۔مجھے کوئی بتلائے کہ ہمارے سیاستدانوں میں سے کون ہے ، جس نے کبھی زندگی بھر کوئی کلمہ حق کہا؟ یہ جی حضوریاں کرنے والے، مکار، غدار اور شہداءکے خون کے سوداگر ہیں، جو ہر آمر اور ہر حکمران کے جوتے پالش کر کے اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

آزادکشمیر کے سیاستدانوں میں سردار خالد ابراہیم اور عبد الرشید ترابی اور مقبوضہ کشمیر سے علی گیلانی کے علاوہ کس نے حق بات کہی ہے۔علی گیلانی تو ہر کشمیری کے دل کی دھڑکن ہیں اور انہوں نے پورے مقبوضہ کشمیر کو گرما کے رکھا ہوا ہے۔ وہ جتنے دن جیل سے باہر رہتے ہیں کشمیر کا بچہ ، بچہ اپنے مقصد کی طرف پیشقدمی کرتا رہتا ہے۔ اگر یہی مقبولیت آزادکشمیر میں سردار خالد ابراہیم اور عبد الرشید ترابی کو حاصل ہو جائے تو مفاد پرست ٹولے کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں اگر سردار خالد ابراہیم اور عبد الرشید ترابی انتخابی سیاست کے کچھ عرصے کے لیے کنارہ کش ہو کر سید علی گیلانی کی طرح خود کو تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیں تو کوئی طابع آزماءاہل کشمیر کے مقدر سے نہیں کھیل سکے گا۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 106415 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More