دہلی پر طاری بندروں کی دہشت ؛کب تک ہوتی رہے گی لنگوروں کی چاندی؟

دہلی میں آوارہ بندروں کی بڑی آبادی شہریوں کیلئے ایک پرانا مسئلہ ہے۔ ان کا انسانوں پر حملے کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بہت سی شہری آبادیوں میں وہ پریشانیوں کا باعث بنتے ہیں جہاں وہ انجان لوگوں خصوصاً بچوں سے خوراک چھین لیتے ہیں۔ہزاروں بندر جو دارالحکومت خصوصاً سرکاری دفاتر کے اردگرد مٹر گشتی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، عوام کیلئے باعث زحمت تصور کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے سرکاری ملازموں کو بھی دہشت زدہ کر رکھا ہے اور ایک مرتبہ تو بندروں نے حساس خفیہ کاغذات بھی نوچ ڈالے لیکن چونکہ شردھالو ان بندروں کو مقدس جان کر انہیں کھلاتے پلاتے ہیں جن سے انکی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اس لئے حکومت کیلئے بندروں سے چھٹکارہ پانااور بھی مشکل ہے۔ہندوستان کی سپریم کورٹ نے 12اکتوبر 2006کودہلی کی سڑکوں سے پکڑے گئے تین سو بندروں کو مرکزی ریاست مدھیہ پردیش کے جنگلات میں بھیجنے کا حکم دیا تھا تاکہ انہیں مرکزی ہندوستان کے جنگلات میں پھر سے آباد کیا جائے لیکن شروع سے ہی کچھ لوگ اس بات کی مخالفت کر تے رہے جنکا موقف یہ ہے کہ جو بندر شہری فضا میں پلے بڑھے ہیں وہ شاید جنگلی ماحول میں زندہ نہ رہ سکیں۔یہی وجہ ہے کہ دارالحکومت میں آوارہ پھرنے والے ایسے بندر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔نئی دہلی میں ہر سال بندروں کے انسانوں پر حملوں کے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن میں ان جانوروں کے کاٹنے سے بھی ہر سال بہت سے شہری زخمی ہو جاتے ہیں۔سن 2007 میں تو نئی دہلی کے ایک ڈپٹی میئر بندروں کے ایسے ہی ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ وہ صبح کے وقت اپنے گھر کی بالکونی میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ مشتعل بندروں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کر دیا تھا۔

تازہ ترین پیش رفت کے تحت دہلی ریاستی الیکشن کمیشن آج کل خاصے دباؤ میں ہے۔ ایک طرف ایم سی ڈی انتخابات کے اس ریزرویشن فارمولے کو چیلنج کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب اس کے صدر دفاتر پر بندروں کے حملے مسلسل جاری ہیں۔ پریشانی اتنی زیادہ بڑھ رہی ہے کہ ووٹنگ کیلئے وہاں رکھی اے وی ایم کو بندروں سے بچانے کیلئے خاصی مشقت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ دقتیں ابھی اور بھی بڑھ سکتی ہیں کیونکہ ان مشینوں اور دیگر دستاویزات کو ملازمین میں تقسیم بھی کرنا ہے۔ انہیں بندروں سے بچانے کیلئے کئی راستے تلاشے جا رہے ہیں جن میں لنگوروں کو تعینات کرنے سے لے کر دیگر اقدامات بھی شامل ہیں۔ دہلی میں کارپوریشن انتخابات اپریل کے پہلے ہفتے میں ہوں گے۔

کشمیری گیٹ میں واقع الیکشن کمیشن کا ہےڈکورٹر آج کل بندروں کی گرفت میں ہے۔ وہاں کے ملازمین ان سے خاصے محتاط رہتے ہیں۔بندر کبھی ان کے لنچ کا ڈبا اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں تو پانی کی بوتلیں گرا دیتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں یہ بندر اتنے شریر ہیں کہ ٹووہیلروں کی سیٹ پھاڑ دیتے ہیں تو کار کے وائپر اکھاڑکر لے جاتے ہیں۔ گیٹ پر تعینات چوکیداروں اور دیگرا سٹاف کو ان بندروں سے بچنے کیلئے لاٹھی کا انتظام کرکے رکھنا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں وہ کب حملہ کر دیں۔ ان بندروں نے کمشنر راکیش مہتا کے دفتر کا ائیرکنڈشنر کا ایک حصہ اکھاڑ پھینکا۔ اس کے علاوہ کیبل چبا ڈالے جس سے کئی دن تک انٹرنیٹ اور دیگر خدمات بند رہیں۔ایم سی ڈی انتخابات کی وجہ سے وہاں عملے کی نقل و حرکت بڑھنے لگی ہے۔ آج کل اے وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تفتیش چل رہی ہے۔ یہ جانچ بند کمروں میں کی جا رہی ہے تاکہ بندر وہاں کہرام نہ مچا دیں۔ اصل مسئلہ تو ابھی سامنے آنے والا ہے۔ کچھ دن بعد ہزاروں ملازمین کواے وی ایم اور انتخابات پر مبنی مواد یہیں سے تقسیم کئے جانے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات کے دوران خیمے لگا کر یہ مواد تقسیم کئے جا رہے تھے تو بندر ان مشینیوں کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ جب مشینیں ان سے چھینی گئیں تو ان کا حلیہ ہی بگڑ گیا تھا۔

کمیشن کے ذرائع کے مطابق ان بندروں کو دہشت گردی سے بچنے کیلئے وہاںلنگوروں کی تعیناتی کی جائے گی تاکہ بندر ان کو دیکھ کر وہاں پھٹک نہ سکیں۔ اس مرتبہ انتخابات پر مبنی مواد اور مشینوں کو اندر کے ہال میں تقسیم کیا جائے گا تاکہ بندروں کے حملے سے بچا جا سکے۔ کچھ گارڈ کو بھی وہاں تعینات کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ کمیشن اس کی جستجو میں بھی ہے کہ اس الیکشن مواد کو بہت پہلے ہی سیکٹر آفس میں پہنچا دیا جائے تاکہ آخری دنوں میں یہاں ملازمین کی بھیڑ زیادہ نہ ہو۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس 2011کے دوران یکم ستمبرجمعرات کو راجہ گارڈن کے مکان نمبر883میں رہنے والے ایک خاندان کے گھر میں صبح سے ہی بندر نے دہشت مچائی تھی۔گھروالوں نے بندر کو گھر سے باہر نکالنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اس کے بعد شام کو جب اس کی اطلاع کارپوریشن ہیلتھ آفیسر کو دی گئی تو کارپوریشن کی جانب سے فوری طور پرایک ٹیم بندر کو پکڑنے کیلئے روانہ ہو گئی۔ جیسے ہی ٹیم نے بندر کو پکڑنے کیلئے جال بچھایا تو بندر وہاں سے بھاگ کھڑا ہواتھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق بندر روزانہ پریشان کرتے ہیں لہذا ان کا پکڑا جانا بہت ضروری ہے۔

اس سے قبل دہلی- این سی آر کے فرید آبادمیں واقع سورج کنڈ کی وادیوں میں دہشت مچانے والی بندروں کی فوج سے نمٹنے کیلئے ہریانہ ٹورزم نے تین ’شیروں‘ کی مدد لی ہے۔ ایک طرف انسانی حملوں کو روکنے کیلئے پولیس کا بھاری بھرکم بندوبست رہاتو دوسری جانب بندروں کے حملوں سے بچانے کیلئے’شیروں‘کا آسر ا ڈھونڈا گیا۔ یہ’شیر‘در اصل تین لنگور ہیں۔ جن کے ناموں کے ساتھ’ سنگھ‘ لفظ وابستہ ہے۔سورج کنڈ علاقے میں بھی بندروں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ بندروں کے یہ جھنڈ عام طور پر کسی پر حملہ نہیں کرتے ہیں لیکن حملہ کرنے پر ان سے بچنانہایت مشکل ہوتا ہے۔محکمہ سیاحت کے حکام نے سورج کنڈ علاقے میں گھومنے والے بندروں کو بھگانے کیلئے لنگوروں کے پروفیشنل ٹرینر شاہد کو اس کی ذمہ داری سونپی تھی کیونکہ شاہد کی ٹولی میں تین لنگور (سنگھ) شامل ہیں۔شاہد نے ان کے نام کندن سنگھ، منگل سنگھ اور لکشمن سنگھ رکھے ہیں جس سے وہ انہیں سنگھ ہی کہتا ہے۔ وہ انہیں لنگورکہنے پر برا مانتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے لنگوروں کے نام ہیں جن کو وہ خوب سمجھتے ہیں جس لنگور کا نام پکارا جاتا ہے‘ صرف وہی لنگور اس کی بات کو غور سے سنتا ہے۔ تینوں سنگھ ساحبان نے سورج کنڈ علاقے سے بندروں کو بھگانے کی ذمہ داری لی تھی۔ ان لنگوروں کو دیکھتے ہی بندر دور بھاگ جاتے ہیں۔ وہ ان لنگوروں کو ایسی جگہوں بٹھادیتا تھا جہاں پر سیاحوں کے آنے کا امکان ہوتا۔

یہی نہیں بلکہ نئی دہلی کے آئی ٹی سی موریہ ہوٹل میں ٹھہرنے کے پیش نظرامریکہ کے صدر باراک اوباما کوبندروںسے بچانے کیلئے بھی انتظامات کئے گئے تھے کیونکہ ہوٹل کے آس پاس کے علاقے میں بندروں کی بڑی تعداد آج بھی ہے۔ ان بندروں پر قابو پانے کیلئے خاص طور پر بندر پکڑنے والے بلائے گئے تھے۔ اوباما کی حفاظتی انتظامات کے تحت کمانڈوز، شارپ شوٹرو کو تعینات کیا گیاتھا۔ اوباما کو ہمایوں کے مقبرے پر بھی جانا ہے۔ وہاں بھی بندروں کی دہشت ہے۔2010کے دوران دولت مشترکہ کھیلوں کے موقع پر ’محافظوں‘ کے طور پر ایسے تربیت یافتہ لنگوروں کو گارڈز کے فرائض سونپے گئے تھے تاکہ بندروں کو کھیلوں کی جگہ سے دور رکھاجا سکے۔دارالحکومت کی بلدیاتی انتظامیہ نے دولت مشترکہ کھیلوں کے دوران خاص طور پر ہاکی اسٹیڈیم اور باکسنگ کے مقابلوں کی جگہ کے نواح میں درجنوں ایسے لنگوروں کو ڈیوٹی پر تعینات کیاتھا۔نئی دہلی میونسپل کونسل نے ان کھیلوں کے مقابلوں کی انعقاد کی جگہ کو شہر کے وی آئی پی علاقے قرار دے رکھا تھا جہاں 28 تربیت یافتہ لنگورمتعین تھے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115835 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More