غربت بیروزگاری اور مائیکرو فنانسنگ

دنیا بھر میں چھوٹے قرضے معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے اور غربت کے خاتمہ کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش ایسا ملک ہے جہاں چھوٹے قرضوں سے غربت کے خاتمے کے لئے کام شروع کیا گیا۔ مائیکرو کریڈٹ کی عام تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ ایسی چھوٹی رقم جسے حاصل کرنا عام آدمی کے بس میں ہو اور اسے یہ رقم ایک خاص مدت کے لئے طے شدہ مارک اپ یا شرح سود پر دی جائے۔ قرض دینے والاکوئی شخص بھی ہوسکتا ہے ، سرکاری بنک بھی یا مالیاتی ادارہ۔ ماہرین معاشیات مائیکرو کریڈٹ کی درجہ بندی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً روایتی چھوٹا قرضہ جیسا کہ دوستوں سے یاجان پہچان کے لوگوں سے یا کسی ایسے شخص سے لینا جو قرضہ دینے کا کاروبار کرتا ہو۔ کسی خاص سرگرمی کی بنیاد پر مخصوص بنکوں سے قرضہ لینا جیسے زرعی قرضہ، لائیو سٹاک کریڈٹ وغیرہ۔ مخصوص بنکوں کے ذریعے دیہی قرضہ، صارفین کو دیا جانے والا قرضہ۔ گرامین طرز کا قرضہ یا پھر این جی او سے حاصل کیا جانے والا قرضہ۔

بنگلہ دیش میں گرامین بنک کا موجدپروفیسر محمدیونس چٹاگانگ یونیورسٹی کے رورل اکنامک پرگرام کا سربراہ تھاجسنے ایک ایکشن ریسرچ پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ جس کے ذریعے وہ دیہی غربت کو کم کرنے کے لئے چھوٹے قرضو ں کا اجراءکیا۔ 1983 میں گرامین بنک کا پروجیکٹ محض چھ برسوں میں ایک خود مختار بنک کی صورت اختیار کرگیا جسے قانونی تحفظ بھی حاصل تھا۔ اس وقت گرامین بنک امریکہ میں مائیکرو کریڈٹ پر کام کررہا ہے ۔

پاکستان میں معاشی نظام کی فرسودگی زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کررہی ہے ۔ لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری غربت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے ۔ معاشی نظام کے انحطاط کے عہد میں بینکنگ کی پالیسیاں اور پروگرام بھی بدل جاتے ہیں۔ چونکہ اس وقت عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کو زائد پیداوار کے بحران کا سامنا ہے اس لئے قرضے بھی پیداواری شعبے کی بجائے غیر پیداواری شعبے میں دیئے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ اور چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر غربت میں خاتمے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ایسے قرضوں سے غریبوں کی حالت بہتر ہو نہ ہو البتہ قرضہ دینے والے اداروں کی حالت یقیناً بہتر ہوجاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ورلڈ بنک سالانہ ترقی پذیر ممالک کو ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضے دیتا ہے جبکہ سالانہ سود سمیت ایک ارب 65کروڑ ڈالر وصول کرتا ہے اور وہ بھی غربت کے خاتمے کے نام پر۔بنگلہ دیش کے گرامین بنک کے قرضوں سے غریبوں کی حالت بہتر ہوئی ہو یا نہ اہبتہ گرامین بنک اور اس کے مالک محمد یونس کے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔اور گرامین بنک اس قابل ہوگیا ہے کہ امریکہ میں سرمایہ کاری شرع کردی ہے۔ چھوٹے قرضوں سے جہاں پیداواری عمل میں خاطر خواہ مدد نہیں ملتی وہاں شرح مارک اپ کی بلندی قرض دہندگان کی کمر توڑ کے رکھ دیتی ہے۔الٹا انہیں گھر کی چیزیں بیچ کر قرض خواہ اداروں سے جان چھراٹی پڑتی ہے ۔

اس وقت پاکستان میں 11 ڈونر ایجنسیاں اور سینکڑوں این جی اوز غریبوں کو قرضے فراہم کررہی ہیں۔ ان چھوٹے قرضوں کی سہولت ابھی تک ان لوگوں تک نہیں پہنچ پارہی جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرہے ہیں۔ غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 18کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے اور سالانہ دو فیصدکے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ جب کہ 85فیصد افراد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جہاں 35 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر کئی طرح کی مائیکرو فنانسنگ سکیموں کا آغاز کی گیا ۔ لیکن یہ سکیمیں ناکام رہیں اور غریبوں کی غربت ختم نہ ہوسکی۔

پاکستان میں جو قرضے این جی اوز کی طرف سے عورتوں کو دیئے جاتے ہیں وہ عموماً ہوم بیسڈ ورکرز ہوتی ہیں ۔ این جو اوز نے زیادہ تر قرضوں کا رخ خواتین کی طرف رکھا اور اس کے کچھ مثبت نتائج سامنے نہ آئے۔ کچھ این جی اوز تو مخصوص ہنر کے تحت دستکاری کی چیزیں بنانے کے قرضہ دیتی ہیں اور ان کی شرط ہوتی ہے کہ وہ اپنا تیار شدہ مال انہی کو فروخت کریں۔ ان کا مال اونے پونے اٹھا کر پاﺅنڈز اور ڈالرز میں فروخت کیا جاتا ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ کچھ این جی اوز نے چھوٹے قرضوں کی سکیمیں چلا کر اپنے اداروں کو مالیاتی طور پر مضبوط کیا ہے ۔ ان کی لانہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہوتا ہے کہ ان کے فراہم کئے جانے والے قرضوں نے عورتوں کی زندگی میں معاشی انقلاب برپا کردیا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ان این جی اوز کے کام سے پاکستان میں غربت کی شرح میں کمی واقع نہیں ہوئی ۔

اس وقت پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد غربت اور بے روز گاری میں شدید اضافہ ہوا ہے ۔ جبکہ پاکستان کے معاشی نظام میں اتنی سکت نہیں کہ سیلاب کی تباہ کاروں سے نمٹ سکے۔ چونکہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے زرعی شعبہ وسع پیمانے پر متاثر ہوا ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ زرعی قرضوں پر شرح مارک اپ کو کم کرے اور چھوٹے کاشتکاروں کے لئے قرضوں کے حصول کو آسان بنائے موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لئے وسیع پیمانے پر معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ غربت اور بے روزگاری میں کمی لائی جاسکے۔
Yasir Arafat
About the Author: Yasir Arafat Read More Articles by Yasir Arafat: 15 Articles with 11200 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.