بلوچستان ،مسئلہ اور خطرہ

چند ہفتے پہلے تک اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جاتا تھا کہ ملک میں بلوچستان کی سنگین صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی،حتٰی کہ عوام کی طرف سے بھی بلوچستان کی ابتر صورتحال پر غیر دلچسپی کا اظہار نمایاں رہا۔امریکہ میں بلوچستان کے معاملے میں قرارداد کیا آئی کہ پاکستان کے ہر صوبے کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی اس معاملے پر چھوٹی بڑی شخصیات کی طرف سے سیاسی بیانات آنے شروع ہو گئے۔امریکی قرارداد آنے سے پہلے تک پاکستان میں بلوچستان کے حالات و واقعات کو نظر اندازکرنے کی صورتحال پر یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اہل پاکستان کو بلوچستان کا اس وقت خیال آئے گا جب بلوچستان سے گیس کی سپلائی رک جائے گی،تب ملک بھر میں کہا جائے گا کہ بلوچستان تو پاکستان کا حصہ ہے۔بلوچستان کے حوالے سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس صوبے کو سیاست کے بجائے عسکری طور پر ڈیل کیا جا رہا ہے۔سابق مشرف حکومت نے بلوچیوں کے خلاف فوجی آپریشن کی پالیسی اپنائی اور سابق وزیر اعلٰی و گورنر اکبر بگٹی کو ایک ایکشن میں ہلاک کر دیا ۔مشرف دور میں ہی بلوچستان کے بارے میں قائم پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سیاسی اقدامات تجویز کئے لیکن اس پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر کوئی عمل نہ ہو سکا۔مشرف حکومت ختم ہو گئی لیکن مشرف حکومت کے تسلسل میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت بھی بلوچستان کے معاملے میں سابق آمر حکومت کی ظلم اور ناانصافی پر مبنی پالیسی اپنائے نظر آتی ہے اور اس حقیقت کو فراموش کیا جا رہا ہے کہ روائیتی طریقوں سے بلوچستان کے سنگین مسئلے اور خطرے سے نبرد آزما نہیں ہوا جا سکتا۔

یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں فیصلہ کن کردار انڈیا نے ادا کیا لیکن اس علیحدگی میں بنیادی کردار مشرقی پاکستان سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا ہی رہا۔آج بھی کئی قلم کار اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری نااہلی اور زیادتی سے نہیں بلکہ دشمن کی کارستانیوں کی وجہ سے ہوئی۔افسوس کہ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے باوجود تاریخ کے اس اندوہناک واقعہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا بلکہ جس سوچ اور اپروچ کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا وہی سوچ و اپروچ پاکستان میں بھی نمایاں طور پر دیکھی گئی ہے۔آج بلوچستان کے حوالے سے ہماری سیاست اس لئے بے عمل ہے کیونکہ اس طرح کے معاملات پر سیاست دانوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ملک کی پالیسیاں اب بھی عسکری شعبے کی ذمہ داری بنی ہوئی ہے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان میں ریپبلکن جماعت کے نمائندے ڈینا روباکر ، جو خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں ،نے ایک قرارداد جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ بلوچ عوام کو اپنے لیے آزاد ملک کا حق حاصل ہے۔اس قرارداد کے مطابق بلوچی عوام کو تاریخی طور پر حقِ خود ارادیت حاصل ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان اس وقت پاکستان، ایران اور افغانستان میں بٹا ہوا ہے اس بلوچ عوام کو حقوق حاصل نہیں ہیں۔انہوں نے حال ہی میں امورِ خارجہ کی کمیٹی میں بلوچستان کے معاملے پر عوامی سماعت بھی کروائی تھی اور اس پر بھی پاکستان نے شدید تنقید کی تھی۔اوباما انتظامیہ نے اس سماعت میں امریکی موقف پیش کرنے کے لیے کسی کو نہیں بھیجا تھا اور کہا تھا کہ بلوچستان پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بلوچ عوام پر تشدد کیا جا رہا ہے اور وہاں ماورائے عدالت ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔’بلوچی عوام کو حقِ خود ارادیت اور آزاد ملک کا حق حاصل ہے اور ان کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنا فیصلہ کرسکیں۔ سیاسی اور لسانی طور پر بلوچ عوام کو کچلا جا رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ اور یہ اور بھی افسوسناک ہے کیونکہ امریکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو اسلام آباد میں اسلحہ بیچ رہا ہے۔‘

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس قرارداد پر تنقید کی ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’یہ قرارداد اپنے مخصوص مقاصد کے لیے پیش کی گئی ہے جو کہ جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے‘۔پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر امریکی ایوانِ نمائندگان میں قرارداد پیش کیا جانا پاکستان کی سالمیت پر حملے کے مترادف ہے۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے جاری کیے گئے ایک مذمتی بیان میں قرار داد کو ”صریحاً ناقابل قبول“ قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا گیا کہ اس قسم کے ”اشتعال انگیز“ فعل پاک امریکہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔پاکستان کے اس ردعمل پرامریکہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی علاقائی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور کانگریس میں صوبہ بلوچستان کی آزادی سے متعلق قرار داد امریکی انتظامیہ کی پالیسی کی نمائندہ نہیں ہے۔اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کانگریس کے اراکین متعدد بین الاقوامی امور پر آئینی مسودے متعارف کرتے ہیں، لیکن یہ کسی مخصوص معاملے پر امریکی حکومت کی تائید کو ظاہر نہیں کرتے ہیں۔”محکمہ خارجہ زیرِ غور قوانین پر عموماً تبصرہ نہیں کرتا، لیکن بلوچستان کی آزادی کی حمایت (امریکی) انتظامیہ کی پالیسی نہیں ہے۔“

اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر ایسے انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں جن سے صوبے کے عوام کو ملک مخالفت کے روئیے سے روکا جا سکے۔لیکن جس طرح کے سیاسی بیانات سامنے آ رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے رویئے کو جاری رکھنے پر مصر ہیں اور خطرہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی طرح کی زیادتیاں اور حماقتیں دشمن ملکوں کی پاکستان کے خلاف دیرینہ سازشوں میں پیش رفت کے حوالے سے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 618330 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More