نماز ظہر کی فضیلت و مسائل

 ’’نماز ظہر‘‘
نماز ظہر کی فضیلت :-

۱) امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’جس نے ظہر کے پہلے چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں ۔‘‘ (طبرانی)
۲)اصح یہ ہے کہ سنت فجر کے بعد ظہر کی پہلی (چار) سنتوں کامرتبہ ہے ۔ حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشادہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’ جو انہیں ترک کرے گا ، اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی ۔‘‘ ( درمختار)

نماز ظہر کی رکعتیں تعداد
سنت مؤکدہ 4
فرض 4
سنت مؤکدہ 2
نفل 2
میزان 12

ظہر کی نماز کا وقت آفتاب نصف النہار ( عرفی ، حقیقی ) سے ڈھلتے ہی شروع ہوتا ہے۔(فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۵۲)
ظہر کا وقت امام اعظم سیدناابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک ہر چیز کاسایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل ( ڈبل) نہ ہوجائے وہاں تک رہتاہے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۱۰)

’’ ضروری و اہم وضاحت ‘‘
بہت لوگ ناواقفی کی وجہ سے ’’ زوال‘‘ کو وقتِ مکروہ ِ تحریمی کہتے ہیں ۔ اکثر لوگوں کو یہ کہتے سناگیاکہ دوپہر کو زوال کا وقت ہی وقتِ ممنوع ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوپہر کو جو وقتِ منوع ہے وہ وقت نصف النہار ہے ۔ نصف النہار کے وقت کوئی نماز جائز نہیں ۔ نہ فرض ، نہ واجب ،نہ سنت ، نہ نفل ، نہ ادا ، نہ قصا بلکہ اس وقت سجدہ تلاوت و سجدہ سہو بھی ناجائز ہے ۔
زوال کا وقت ہرگز ممنوع اور مکروہ وقت نہیں بلکہ زوال کے وقت تو ممانعت کا وقت ختم ہوتا ہے اور جو از کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ بلکہ زوال کے وقت سے ہی ظہر کی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ فتاوٰی رضویہ ،جلد ۲ ، ص ۲۰۶ پر ہے کہ :-
’’ زوال تو سورج ڈھلنے کو کہتے ہیں ۔ یہ وہ وقت ہے کہ ممانعت کا وقت نکل گیا اور جواز کا آگیا ۔ تو وقت ممانعت کو زوال کہنا صریح مسامحت ہے ۔‘‘
حل لغت :- مسامحت = کاہلی ، سستی ، چشم پوشی ( فیروز اللغات ص ۱۲۴۱)
نصف النہار کیا ہے ؟ اور نصف النہار کب ہوتا ہے ؟ زوال کب ہوتا ہے ؟ وغیرہ کو تفصیل سے سمجھیں:-
نصف = آدھا
نہار = روز ، دن ، یوم ، صبح سے شام تک ( فیروز اللغات ، ص ۱۳۸۸)
نصف النہار = دن کانصف ( فیروز اللغات ص ۱۳۶۱)
¤ نہار یعنی دن دو طرح کا ہوتا ہے (۱) نہار شرعی (۲) نہار عرفی حقیقی
(۱) نہار شرعی :- طلوع فجر ( صبح صادق) سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک ہوتا ہے ۔
(۲) نہار عرفی حقیقی :- طلوع آفتاب سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک ہوتا ہے ۔
¤ نہار شرعی بمقابل نہار عرفی حقیقی طویل ( لمبا) ہوتاہے ۔ کیونکہ نہار شرعی کی ابتدا طلوع فجر یعنی صبح صادق سے ہوتی ہے اور نہا عرفی حقیقی کی ابتداء طلوع آفتاب سے ہوتی ہے اور دونوں کی انتہا کا وقت ایک ہی ہے یعنی غروب آفتاب ۔ لہٰذا طلوع فجر سے طلوع آفتاب کے درمیان کے وقت کی مقدار جتنا نہار شرعی بڑا ہوتا ہے یا یوں کہو کہ فجر کی نماز کے وقت کی مقدار جتنا نہار شرعی بڑا ہوتا ہے اور نہار عرفی حقیقی چھوٹا ہوتاہے ۔
¤ دونوں نہار کا نصف (Centre) جب نکالا جائے گا تو نہار شرعی کا نصف جلدی ہوگا یعنی نصف النہار شرعی جلدی آئے گا اور نہار عرفی حقیقی کا نصف یعنی نصف النہار عرفی بعد میں ہوگا ۔
¤ نہار شرعی اور نہار عرفی حقیقی میں فجر کی نماز کے وقت کی مقدار جتنا فرق ہوتا ہے لہٰذا نصف النہار شرعی اور نصف النہار عرفی میں فجر کی نماز کے وقت کی آدھی مقدار جتنا فرق ہوتا ہے ۔
¤ فجر کی نماز کا وقت پورے سال میں کم از کم ۱ گھنٹہ اور ۱۸ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ۱ گھنٹہ اور ۳۵ منٹ ہوتا ہے لہٰذا پورے سال بھر نصف نہار شرعی اور نصف نہار عرفی کے درمیان کم از کم ۳۹؍ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ۴۷ منٹ کافاصلہ ہوتا ہے ۔ ایک حوالہ پیش خدمت ہے :-
’’ ضحوہ کبرٰی سے لے کر نصف النہار تک نماز مکروہ ہے ۔ یہ وقت ہمارے بلاد میں کم سے کم ۳۹ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ۴۷ منٹ ہوتاہے۔‘‘
(فتاوٰی رضویہ جلد ۲،ص۳۴۵)
نوٹ:- مندرجہ بالا وقت بریلی اور مضافات بریلی کیلئے متعین کیا گیا ہے فتاوٰی رضویہ میں دو پہر کا مندرجہ بالا مکروہ وقت بریلی کے علاوہ ان شہروں کے لئے بھی ہے جو بریلی کے طول البلد اور عرض البلد میں واقع ہیں جو شہر بریلی کے طول البلد اور عرض البلد کے علاوہ میں واقع ہیں ان میں تھوڑا بہت فرق آئے گا ۔
¤ نصف النہار شرعی کو ضحوہ کبری کہتے ہیں ۔ اور نصف النہار عرفی کو استوائے حقیقی ۔ اور اس کے بعد فوراً زوال شرو ع ہوتا ہے اور وقت مکروہ ختم ہوتا ہے ۔
¤ نصف النہار شرعی ( ضحوہ کبرٰی) اور نصف النہار عرفی ( استوائے حقیقی ) کے درمیان کا جو وقت ہے وہی وقت مکروہ ہے اوراس وقت کی مقدار ۳۹ سے ۴۷ منٹ ہے ۔

اور جتنے گھنٹے اور منٹ کا میزان (Total) آئے وہ نصف النہار کا وقت ہوا ۔
مثال کے طور پر :-
……… فرض کرو کہ آپ کے شہر میں آج :-
طلوع فجر (صبح صادق ) کا وقت :- ۵ بجے ہے
طلوع آفتاب کا وقت :- ۶ بجکر ۲۰ منٹ ہے
غروب آفتاب کا وقت :- ۷ بجے ہے ۔
مندرجہ بالا اوقات کے حساب سے آج کا :-
نہار شرعی :- ۱۴ گھنٹے کا ہے ۔ جس کا نصف ۷ گھنٹے ہیں
نہار عرفی :- ۱۲ گھنٹے اور ۴۰ منٹ کا ہے ۔ جس کا نصف ۶ گھنٹہ ۲۰ منٹ ہے ۔
نہار شرعی کے وقت کا نصف اس کے ابتدائی وقت میں جوڑیں :-
۵ بجے نہار شرعی کا ابتدائی وقت یعنی طلوع فجر (صبح صادق) کا وقت
۷ گھنٹے نہار شرعی کے کل وقت کا نصف
۱۲ بجے دوپہر کو نصف النہار شرعی کا وقت ہوا ۔
¤ نہار عرفی کے وقت کا نصف اس کے ابتدائی وقت میں جوڑیں:-
۶ بجکر ۲۰ منٹ نہار عرفی کا ابتدائی وقت یعنی طلوع آفتاب کا وقت
۶گھنٹے ۲۰ منٹ نہار عرفی کے کل وقت کا نصف
۱۲ بجکر ۴۰ منٹ دوپہر کو نصف النہار عرفی کا وقت ہوا ۔
الحاصل !
دوپہر کو ۱۲ بجے نصف النہار شرعی ( ضحوۂ کبرٰی ) کا وقت ہوا۔
دوپہر کو ۱۲ بجکر ۴۰ منٹ پر نصف النہار عرفی ( استوائے حقیقی ) کا وقت ہوا ۔
یعنی دونوں وقت میں ۴۰ منٹ کا فرق آیا ۔ یعنی نصف النہار شرعی ( ضحوہ کبرٰی) ۴۰ منٹ پہلے ہوا ۔ اور نصف النہار عرفی کا وقت ۴۰ منٹ بعد میںہوا ۔ ان دونوں یعنی نصف النہار شرعی اور نصف النہار عرفی کے درمیان جو ۴۰ منٹ کا وقت ہے وہی ’’وقت مکروہ ‘‘ ہے ۔ چالیس منٹ پورے ہوتے ہی ’’ زوال ‘‘ شروع ہوجائے گا اور وقت مکروہ ختم ہوکر ظہر کی نماز کا وقت شروع ہوجائے گا ۔
اب ہم نصف النہار شرعی اور نصف النہار عرفی حقیقی کے درمیان ۴۰ منٹ کا جو فاصلہ ہے اس کو فجر کی نماز کے وقت سے مستند کریں ۔ آج طلوع فجر کا وقت ۵ بجے تھا اور طلوع آفتاب ۶ بجکر ۲۰ منٹ پر تھا ۔ اس حساب سے آج کی فجر کی نماز کا کل وقت ۱ گھنٹہ اور بیس منٹ یعنی کل ۸۰ منٹ وقت تھا ۔ جس کا نصف چالیس منٹ ہوا اور نصف النہار شرعی ( ضحوہ کبرٰی ) اور نصف النہار عرفی ( زوال) کے درمیان بھی چالیس منٹ کا فاصلہ ہے ۔
پورے سال میں فجر کا وقت کم از کم ۱ گھنٹہ اور ۱۸ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ۱ گھنٹہ اور ۳۵ منٹ رہتا ہے ۔ لہٰذا نصف النہار شرعی ( ضحوہ کبرٰی ) اور نصف النہار عرفی ( استوائے حقیقی) کے درمیان کامکروہ وقت سال بھر میں کم از کم ۳۹ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ۴۷ منٹ رہتاہے ۔
۔ اگر کسی صاحب کو مزید تفصیل درکار ہے تو وہ فتاوٰی رضویہ کی طرف رجوع فرمائیں :-
(۱) ’’ نہار شرعی طلوع فجر صادق سے غروب کل آفتاب تک ہے ۔‘‘
(فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۰۷ و ۳۵۷)
(۲) نہار عرفی طلوع کنارہ شمس سے غروب کل قرص شمس تک ہے ۔‘‘ (ایضاً)
(۳) ’’ہمیشہ نصف النہار شرعی نصف النہار عرفی حقیقی سے بقدر نصف مقدار فجر کے پیشتر ہوتا ہے ۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۰۷)
(۴) اصح و احسن یہی ہے کہ ضحوہ کبرٰی سے نصف النہار حقیقی تک سارا وقت وہ ہے جس میں نماز نہیں ۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ جلد ۲ ، ص ۳۵۸)
(۵) نصف النہار شرعی وقتِ استوائے حقیقی سے ۴۰ منٹ پیشتر ہوتا ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ جلد ۲ ، ص ۲۰۷)
(۶) ’’ عرفی کا گویا نصف حقیقی ہے ۔ اس کو استوائے حقیقی کہئے ۔ اس وقت آفتاب بیچ آسمان میں ہوتا ہے احکام شرعیہ میں اسی وقت کا اعتبار ہے ۔ نصف النہار شرعی سے اسی وقت تک نماز مکروہ ہے ۔ اس کے بعد پھر وقت ممانعت نہیں رہتا ۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۰۸)
(۷) ظہر کا وقت آفتاب نصف النہار ( عرفی ، حقیقی) سے ڈھلتے ہی شروع ہوتا ہے ۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۵۲)
یہاں تک کی وضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عام طور سے عوام میں جو یہ بات رائج ہے کہ دوپہر کے وقت جب سورج آسمان کے بیچ میں آتا ہے ، وہ ہی زوال کا وقت اور مکروہ وقت ہے ۔ یہ بالکل غلط ہے بلکہ اصح و احسن یہ ہے کہ دوپہر کے وقت جب آفتاب وسط آسمان میں ہوتا ہے وہ زوال کا وقت نہیںہے بلکہ وہ مکروہ وقت ہے اور اسکو نصف النہار شرعی کہتے ہیں اور وہی وقت مکروہ ہے ۔ زوال کا وقت مکروہ ہرگز نہیں بلکہ زوال کے وقت تو مکروہ وقت ختم ہوتا ہے اور نماز ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ زوال کے لغوی معنی ہی اسکے مکروہ وقت نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔
زوال :- تنزل ، عروج جاتا رہنا ، سورج کا نصف النہار سے نیچے اترنا ( فیروز اللغات ص ۷۵۳)
اور ظاہر ہے کہ جب سورج نصف النہار سے ڈھلتا ہے یعنی نیچے اترتا ہے ، تب وقتِ مکروہ ختم ہوتا ہے اور جواز کا وقت شروع ہوتا ہے ۔
’’نماز ظہر کا وقت کب تک رہتا ہے ؟‘‘
تمہید سابقہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نصف النہار سے جب آفتاب ڈھلتا ہے یعنی نیچے اترنا شروع ہوتا ہے یعنی جب زوال کی ابتدا ہوتی ہے تب ظہر کی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے اور وہ وقت کب تک رہتا ہے اس کو معلوم کریں ۔
فتاوٰی رضویہ شریف ، جلد ۲ ، ص ۲۲۶ پر ہے کہ :- وقت ظہر کا اس وقت تک رہتا ہے کہ سایہ سوا سایہ اصلی کے جو اس روز ٹھیک دوپہر کو پڑا ہو ، دو مثل ہوجائے ‘‘
اب یہ دیکھیں کہ (۱) سایہ اصلی کیا ہے ؟
اور (۲) سایہ دو مثل ہونے سے کیا مراد ہے ؟
q دوپہر کے وقت جو مکروہ وقت ہوتاہے اسکو نصف النہار شرعی یا ضحوہ کبرٰی کہتے ہیں ۔ جس کی تفصیلی بحث اوراقِ سابقہ میں کی گئی ہے ۔ اس بحث کو ذہن میں رکھ کر مندرجہ ذیل وضاحت کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں ۔
آفتاب ہمیشہ مشرق کی سمت سے طلوع ہوتا ہے اور دن بھر کی مسافت طے کرنے کے بعد مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ آفتاب کی اس مسافت کی تین منزل ہوتی ہیں ۔
(۱)سمت مشرق سے وسط آسمان تک کی پہلی منزل
(۲)وسط (Centre) آسمان میں استوا یعنی ہموار ہوکر پھر ڈھلنے کی دوسری منزل
(۳)وسط آسمان سے سمتِ مغرب تک کی تیسری منزل ۔
جب آفتاب مشرق سے وسط آسمان تک کی پہلی منزل میں ہوتا ہے تب جس چیز پر اس کی شعائیں یعنی کرنیں پڑتی ہیں اس چیز کاسایہ مغرب کی طرف پڑے گا ۔
جب آفتاب وسط آسمان یعنی نصف النہار کی دوسری منزل میں ہوتا ہے اس وقت اس کی کرنیں جس چیز پر پڑتی ہیں تب اس چیز کا جو سایہ ہوتا ہے اسی کو ’’ سایہ اصلی ‘‘ کہتے ہیں اور وہ سایہ یعنی سایہ اصلی کہاں گرتا ہے وہ دیکھے اور سایہ اصلی کی صحیح پہچان اور سایہ اصلی معلوم کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے وہ دیکھیں ۔
سایہ اصلی معلوم کرنے کا طریقہ :-
جب آفتاب مشرق سے وسط آسمان تک کی پہلی منزل کے آخری لمحات میں ہو اس وقت ہموار زمین میں ایک بالکل سیدھی لکڑی ستون کی شکل میں گاڑ دیں او رلکڑی کا سایہ بغور دیکھیں ۔ اس وقت لکڑی کاسایہ مغرب کی طرف پڑے گا اور آہستہ آہستہ وہ سایہ گھٹتا جائے گا ۔ جب تک سایہ گھٹ رہا ہے دوپہر یعنی نصف النہار نہیں ہوا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ سایہ گھٹنا بند ہوجائے گا ۔ جب سایہ گھٹنا بند ہوجائے تب وقت نصف النہار شرعی ( ضحوۂ کبرٰی) شروع ہوتا ہے ۔ اس وقت نصب کی ہوئی لکڑی کا سایہ مطلق مغرب کی جانب نہ ہوگا بلکہ لکڑی کی شمال کی جانب اور مشرق کی طرف مائل ہوگا اور یہی سایہ اصلی ہے ۔
 
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1298867 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.