یہ فحاشی وعریانی ہماری ثقافت کب سے ہوئی؟

ثقافت تہذیب کا بنیادی جز ہے جس گہرا تعلق کسی خطہ میں بسنے والے افراد کے مذہب اور اخلاقیات سے ہوتا ہے ۔اور کسی بھی مذہب اور اخلاقیات کاکسی بھی دور میں عریانی اور فحاشی سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں رہا۔بلکہ جس معاشرے اور تہذیب میں بھی فحاشیت اور عریانیت کا دور دورہ ہو جائے وہاں سے انسانیت اور اخلاقیت کوچ کر جاتی ہے اور وہ معاشرہ تہذیبی اعتبار سے زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مذہبی اور اخلاقی قدریں معاشرے سے کوچ کرتی جا رہی ہیں اور اس کی جگہ عریانی اور فحاشی شدو مد کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے ےا پھر جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہے۔پرنٹ میڈیا میں اخبارات کا ایک پیج عریاں لڑکیوں کی تصویروں کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے اور اس کا نام انٹرٹینمنٹ پیج رکھ دیا گیا ہے۔ٹی وی گھروں کے اندر بے حیائی کے درس دے رہے ہیں۔ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی ڈرامے دیکھنا ممکن نہیں رہا ہے۔ کیبل پہ انڈین چینلز کی بھر مار ہے۔بے لباس تھرکتے بدن نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں اور معاشرے کو غلط سمت میں دھکیلا جا رہا ہے۔ریاست اور پیمرا نامی بلائیں کہاں ہیں ؟ آئیں کی رو سے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ افراد ِ معاشرہ کو زندگی گذارنے کے لئے ایک پاکیزہ ماحول دے اور یہاں پہ تو فیملی کے ساتھ اے سی بسوں میں سفر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ بیشتر بسوں میں انتہائی فحش فلمیں لگائی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور یہ پیمرا کس قانون کے تحت عریانی اور فحاشی پہ مبنی پروگرامز کو ٹیلی کاسٹ کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔پچھلے دنوں پیمرا کا اجلاس ہوا جس میں بعض نجی ٹی وی چینلز پر اہم سیاسی افراد کی پیروڈی کرنے پر خاصی تشویش کا اظہار کیا گیا ۔اور بس۔ اس پیمرا کو نام نہاد اہم سیاسی افراد کی بہت فکر ہے مگر اس کے اپنے ہاتھوں قتل ہوتی ہوئی پاکستانی تہذیب کی کوئی فکر نہیں ۔

چند ہفتے قبل ایک نجی کالج کے میوزیکل پروگرام میں تین جوان لڑکیاں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ایک دوروز کے لیئے اس سانحے کا میڈیا میں چرچا رہا اور بات آئی گئی ہو گئی۔نام نہاد کلچر کے نام پر تعلیمی اداروں میں میوزیکل نائیٹس اور پروگرامز کا مطلب کیا ہے؟یہ تعلیمی ادارے ہیں یا کچھ اور ؟آئے دن یہ میوزیکل پروگرامز ہو رہے ہیں ۔ مینا بازار لگتے ہیں ۔ انڈین گانوں پہ رقص ہو رہے ہیں ۔ بعض تعلیمی اداروں میں سیکس کی باقاعدہ تعلیم دی جارہی ہے اور اب تو پرائمری سکولوں میں سالانہ تقریب انعامات کا انعقاد بھی انڈین گانوں پہ رقص کے بغیر نہیں ہوتا ۔اور اس کو آرٹ اور کلچر کا نام دیا جا رہا ہے ۔ ارے بھائی یہ عریانی اور فحاشی ہمارا کلچر اور ہماری ثقافت کب سے ہوئی؟جس دن میوزیکل پروگرام میں تین لڑکیوں کی اندوہ ناک اموات کا حادثہ ہوا۔ اسی دن یہ بات بھی رپورٹ ہوئی کہ کچھ بچیاں بد حواسی کے عالم میں جب الحمرا ہال سے باہر نکلیں تو چند اوباش لڑکوں نے ان کو کھیچ کر اپنی گاڑیوں میں بٹھانے کی کوشش کی اور اس کھینچا تانی میں کچھ بچیوں کے لباس بھی پھٹ گئے۔اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ کیا یہ ہے ہمارا کلچر کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو خود ہی لوٹتے پھرتے ہیں ۔یہ تعلیم کی وزارتیں کہاں ہیں اور کر کیا رہی ہیں ؟کیا کسی ادارے نے پوچھا کہ اس پروگرام کی اجازت کس نے دی تھی؟ محدود جگہ میں اتنے زیادہ افراد کو پروگرام کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ؟اور سب سے اہم یہ کہ لڑکیوں کے پروگرام میں لڑکے کیا کر رہے تھے؟

چند دن قبل پنجاب اسمبلی میں تعلیمی اداروں میں میوزیکل کنسڑٹس کرنے پر پابندی کے حق میں قرار داد پیش کی گئی تو ایک طوفان ساآ گیا جیسا اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہو! اسمبلی کے ارکان بہت جذبات میں تھے سب اس نام نہاد اور فحاشی پہ مبنی کلچر کے مامے اور چاچے بنے ہوئے تھے۔بگڑتی ہوئی نوجوان نسل کی کسی کو فکر تھی نہ ہی نظریہ پاکستان کی۔ کیا یہ ملک انہی کامو ں کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ اگر ان ارکان ِ اسمبلی کو یہ میوزیکل کنسڑٹ انتا ہی پسند ہے تو اسمبلی میں کیوں نہیں کرواتے؟ یہ عجیب اسلامی ملک ہے کہ جس میں بادشاہی مسجد کے ساتھ ہیرا منڈی بھی ہے ۔ اور اب تو پوش علاقوں میں باقاعدہ فحاشی کے اڈے کھل چکے ہیں ۔ قانون تو اندھاتھا ہی ریاست بھی اندھی ہو چکی۔

سٹیج ڈراموں میں عریانی اور فحاشی کا دور دورہ ہے ۔ سلجھے ہوئے اداکار اور فنکار تھیٹر اور سٹیج ڈرامہ چھوڑ چکے۔الحمرا ہال اپنی انفرادیت اور افادیت کھو بیٹھا۔پروفیسر اداکار سہیل احمد کا کہنا ہے کہ اگر الحمرا ہال میں فحاشی پہ مبنی پروگرام ہی ہونے ہیں تو بہتر ہے کہ اسے یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے۔ شائد سہیل بھائی بھول گئے کی یونیورسٹیوں میں بھی تو اب میوزیکل کنسڑٹس ہی رہ گئے ہیں ۔ اوراگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے گریجیویٹ طبلے بجاتے ہوئے ڈگریاں حاصل کیا کریں گے۔

آخر میں ریاست سے گزارش ہے کہ وہ افراد معاشرہ کو باوقار زندگی گزارنے کے لئے پاکیزہ انسانی ماحول مہیا کرنے کی آیئنی ذمہ داری پوری کرے اور وزارت تعلیم اور متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ تعلیمی اداروں میں صحت مند تعلیمی سگرمیوں کے لئے کوئی ٹھوس اور واضح لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور طلبا اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز رکھیں والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی خبر رکھیں اور انہیں اس طرح کے پروگراموں میں شرکت کرنے سے منع کریں ۔میڈیا اور فنکاروں سے بھی گزارش ہے وہ اپنی اصل ثقافت کے فروغ کے لئے کام کریں اور عریانی اور فحاشی کے آگے بند باندنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں کہ فحاشی اور عریانی ،شیطانی اور فرونی اعمال میں سے ہیں جو فقط نسلِ انسانی کو گمراہ ہی کر سکتے ہیں۔
اپنی تہذیب و ثقافت کو نہ عریاں کرنا
یہی گذارش ہے ملک کے فنکاروں سے
بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کو نہ سناﺅ نغمے
کہ پیٹ کی آگ تو بجتی نہیں جھنکاروں سے
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 28180 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More