کیسے ہوئی نئی دہلی اسٹیشن پر تعینات پولیس حوالدار کی موت

5سو حفاظتی اور54سی سی ٹی وی کیمروں کے درمیان موت کا خونی تماشہ

وہ 27جنوری کی سرد صبح آئی اور ریاض حسن کوموت کی نیند سلا گئی۔ پیچھے روتے بلکتے رہ گئے 3 کنبے اور 11بچے ۔نئی دہلی کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر تعینات حولدار ر یا ض حسن کی 1978سے 2012تک کی حکومت کو دی گئی خدمات بھی اسے انتظامیہ سے نہ بچا سکیں ۔اسے عصبیت پر مبنی نظام نہ سمجھیں تو پھر کیا سمجھیں کہ صبح کے 6بجے سے 6بجکر 25منٹ کے دوران دہلی کے مسلم باشندگان مسجدوں کی طرف فجر کی نماز پڑھنے جارہے تھے تو کیٹرنگ اور پولیس عملہ کے درمیان ریل کی پٹریوں پر خونی کھیل شروع ہوکر ختم بھی ہوگیا ۔یہ وہ ایام ہیں جب ملت کے چوٹی کے رہنما ملعون سلمان رشدی کی ہندوستان آمد کے خلاف اخبارات کا کالم سیاہ کر رہے تھے ۔بالکل اسی طرح جیسے امام حرم کی دہلی آمد پر بھوگل مسجد کا معاملہ امت کے ذہنوں سے گویا محو ہوگیا تھا۔ہندی کے ہندوستان کے علاوہ کسی اور اخبار کو اتنی بھی تو فیق نہ ہوئی کہ اس کی پوری تفصیل ہی شائع کردیتاجبکہ اوپر سے نیچے تک انتظامیہ میں نام نہار سیکولرازم کے دوران مذہبی منافرت کا ایک جیتا جاگتا سانحہ دہلی والوں کے سر پر سے گزر گیا ۔تفصیلات کے مطابق 24جنوری کو لدھیانہ شتابدی ایکسپریس میں اشیائے خود ونوش پر مشتمل سامان چڑھانے پر شروع ہوا تنازع اس قدر سنگین ثابت ہواکہ جس کی مثال نئی دہلی ریلوے اسٹیش پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ریلوے کے ایک کیٹرنگ انسپکٹرنے دہلی پولیس کے سپاہی کو اتنا پیٹا کہ اسکی موت واقع ہوگئی ۔حادثہ کسی ویران اور غیر آباد مقام کانہیں بلکہ نئی دہلی اسٹیشن کے پلیٹ فارم کا ہے جو 24گھنٹے مسافروں کی آمد ورفت سے بھرا رہتا ہے ۔پولیس نے ملزم کے خلاف معاملہ درج کرکے تفتیشی کمیٹی کو ایک اور مصروفیت فراہم کردی ہے ۔جھگڑ ے کے شکار اس پولیس اہلکار کا قصورمحض اتنا تھا کہ اس نے اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے پیر کے روز صبح تقریباً 6بجے اس وقت مداخلت کی جب حفاظتی ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیٹرنگ عملے کے ا ہلکار پلیٹ فارم نمبر ایک پر رکی ہوئی شتابدی ٹرین میں کھانے پینے کا سامان چڑھا رہے تھے۔ اس کیلئے مذکورہ کا رکنان لائن پربنے ہوئے پاتھ و ے کا استعمال کرنے کی بجائے بیڑی کے اوپر سے گذر رہے تھے جس پر سیاہی ریاض حسن نے اعتراض کیاتو کیٹرنگ انسپکٹر دھنپت اس سے الجھ گیا ۔ظاہر ہے پولیس والے کے سینے پر آویزا نام کی تختی ضرور پڑھ لی ہوگی۔ جن لوگوں کا سرکاری ملازمت سے سابقہ پڑ چکا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وطن عزیز کا کوئی محکمہ ایسے عناصر سے خالی نہیں جہاں عصبیت نہ پائی جاتی ہو ۔لہٰذا دھنپت نے سیاہی کی جم کر پٹائی کردی جس سے وہ بیہو ش ہوکر گر پڑے ۔اسی حالت میں انھیں لیڈی ہا رڈنگ اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکڑوں نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔ ریا ض حسن کے دن دہا ڑے قتل کئے جانے کی اطلاع جیسے ہی اس کے گاؤں باغپت میں واقع انگدپو ر جھوپڑلی میں پہنچی تو رشتہ داروں میں کہرام مچ گیا۔صدمہ سے روروکران براحال ہوگیا۔ غور طلب ہے کہ قریب 50سالہ رہا ریاض حسن 1978-98کے دوران انڈین آرمی میں قوم کی خدمات انجام دیتے رہے‘ میرٹھ میں بھرتی ہوئے تھے ۔فیاض الدین کا یہ ہونہار سپوت 1995میں ریٹائر منٹ لے کر پولیس میں بھرتی ہوا اور حال ہی میں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بطور حوالدار تعینا ت ہوئے تھے ۔ریاض حسن اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے کی جستجو میں تھے لیکن موت نے مہلت نہ دی ۔حادثہ کی اطلاع ملتے ہی گاؤں پر سکتہ طاری ہوگیا ۔کسی گھر میں چولہا نہیں جلا ۔شام کو تاخیر سے ریاض حسن کی لاش گاؤں پہنچی ۔چار بھائیوں کے درمیان ریاض حسین واحد ایسا بر سر روزگار یہی تھے جبکہ کنبہ میں کل گیارہ بچے ہیںجنکی ذمہ دار ی بھی ریاض پر تھی۔حالانکہ ان کا ایک چھوٹا بھائی شاہراہ میں ٹرانسپورٹ کا چھوٹا موٹا کا م کرتا ہے جس سے کنبہ کچھ اقتصادی سہارا مل جاتا ہے ۔ان کے دو دیگر بھائی کنبہ کے ساتھ باغپت میں واقع جوہری انگد پور گاؤں میں ہی رہتے ہیں ۔جو کھیتی باڑی کرتے ہیں تینوں بھائیوں کے 5 بچے ہیں جبکہ ریاض کے 6بچے ہیں ۔ان کا کنبہ بھی گاؤں میں ہی رہتا ہے ریا ض کو اپنی 3بیٹیوں کی شادی کرنی تھی لیکن ان کی موت کے بعد یہ ذمہ داری اب ان کے بھائیوں کے کندھوں پر آگئی ہے ۔ریا ض کے اور ان کے بھائیوں کے بچے ابھی زیرتعلیم ہیں لہٰذا بچوں کی ذمہ داری بھی ان بھائیوں کے ذمہ ہے جنکی مدد بھی ریاض ہی کرتے تھے یہا ں یہ بھی بتا تے چلیں کہ اس سانحہ کی خبر دیر شام تک انکی شریک حیات کو نہیں تھی ۔موت کی اطلاع سب سے پہلے شاہراہ میں ٹرانسپورٹ کا کام کرنے والے ان کے بھائی عابد حسین کو پولیس کے ذریعہ ملی ۔اس کے بعد عابد نے ہی دیگر رشتہ داروں کو بتایا عابد کے مطابق کنبہ کے اراکین جب گاؤں سے دہلی روانہ ہونے کیلئے نکلے تو ریا ض کی بیوی نے ان سے وجہ پو چھی تھی لیکن پریشانیوں سے بچانے کیلئے انہوں نے کچھ نہیں بتایا تاہم جب رشتہ دار میت لے کر گاؤں پہنچے تو شریک حیات کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔صدمہ سے روکر اس کا برا حال ہوگیا اور وہ بد حواس ہوگئی جبکہ رشتہ دار اسے دلاسہ دینے لگے ۔دوسری جانب ریلوے اسٹیشن پر یوں تو 54 کلوز سرکٹ ٹیلی ویثرن نصب ہیں لیکن حیرت انگیز طور پرپلیٹ فارم پر لگے ہوئے سی سی ٹی وی کے کسی کیمرے میں بھی کیٹرنگ انسپکٹراور سیاہی کے درمیان مارپیٹ کی ریکا رڈنگ میسر نہیں ہے پوچھے جانے پر ریلوے کے دہلی ڈویثرن کے سینئر تعلقات عامہ افسر وائی ایس راجپوت نے گول مول جواب دیتے ہوئے معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی ان کا کہنا ہے کہ ہمارے تین عہدیداروں پر مشتمل ٹیم تمام پہلوؤں کی جانچ کرے گی تفتیشی ٹیم سینئر ڈپٹی کمر شیل مینیجر (ڈی سی پی) سینئر ڈپٹی مکینکل انجینئر (ڈی سی ایم ) سینئر ڈپٹی مکینکل انجینئر (ڈی ایم ای ) اور سینئر ڈپٹی سیکورٹی کمشنر (ڈی ایم سی ) اور سینئر ڈپٹی سیکورٹی کمشنر (ڈی ایم سی ) پر مشتمل ہے۔ریا ض حسن کو علم نہیں تھا کہ یوم جمہوریہ الرٹ اور ہوشیار رہنے کے حکم کی تکمیل اسکے لئے جان لیوا ثابت ہوگی‘وہ بھی سرکاری کیٹرس کے ہاتھوں اس حادثے پر بھلے ہی ملی تنظیموں اورحقوق انسانی ادارے خاموشی اختیار کئے ہوتے ہوں لیکن جی آر پی اور کیٹرس کی کار کردگی پر لوگوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔واضح رہے کہ یوم جمہوریہ کے دوران خصوصی حفاظت کے پیش نظر نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر 54سی سی ٹی وی کیمرے تمام پلیٹ فارموں پر نصب ہیں جن میں سے 9کیمرے تو محض پلیٹ فارم نمبر ایک پر لگے ہوئے ہیں ۔جہا ں یہ سانحہ پیش آیا جبکہ 2کیمرے پلیٹ فارم نمبر 2پر نصب ہیں عام دنوں میں اسٹیشن پر80پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں جبکہ 26جنوری کے پیش نظر یہا ں 500اہلکاروں پر مشتمل محکمہ تعینات تھا ۔لیکن موقع پر جاری خونی تصادم میں عوام تو درکنار سرکاری عملہ بھی تماشائی بنارہا۔ زیادہ تر لوگ کیٹرس کی داداگیری ،من مانی اور ان کے بے رخ برتاؤ سے پریشان ہیں۔ اس سانحہ کے بعد اسٹیشن پر ہریانہ سے آئے ہوئے کرن سنگھ نے اپنی گفتگو میں بتایاکہ پینڑی کار میں ملنے والا کھانے پینے کا سامان نہایت گھٹیا ہوتا ہے جس کی کوئی فریاد رسائی تو درکنار شکایت کرنے پر جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے۔ ان کیلئے مسافر اور پولیس میں کوئی فر ق نہیں ہے۔ وہ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتے ہیں۔ جھار کھنڈ کیلئے اہل کا انتظار کرنے والے راجندر کمار کے مطابق کھانے کی کوالٹی کے علاوہ ریلوے کیڑس کا سلوک نہایت خراب ہوتا ہے۔ کمی بتانے پر وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں پولیس کا بھی کوئی خوف نہیں ہوتا ۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115855 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More