ہمارا جمہوریہ اورانسانی حقوق

اس سال یوم جمہوریہ کے موقع پر دو ایسی رپورٹیں آئیں جن سے خوشی کا یہ موقع دل گرفتگی میں گزر گیا اور فخر سے اونچاہونے کے بجائے سر شرم سے جھک گیا۔پہلی رپورٹ عالمی ادارہ ”ہیومن رائٹس واچ“ کی ہے جس میں منکشف کیا گیا ہے کہ سال 2011 میں بھی کشمیر سے کنیا کماری تک جمہوریہ ہندستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا ۔رپورٹ میں حفاظتی دستوں کے ہاتھوں ہلاکتوں اور خطاکار عملے کے خلاف کاروائی میں تساہل کا خاص طور سے نوٹس لیا گیاہے۔ یہ رپورٹ جبر اور ظلم کی ان بڑی اور چھوٹی داستانوں کا لب لباب ہے جن میںبعض وقتاً فوقتاً میڈیا میں اور یہاں کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے توسط سے منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ 24 جنوری کو نیویارک میںجاری کردہ رپورٹ کا خلاصہ اخباروں میں دو، تین دن بعد شائع ہوا۔اس میں خاص طور سے کشمیر کے واقعات کا ذکر ہے اور مسلح افواج کو حاصل خصوصی اختیارات پر تنقید کی گئی ہے جن کا بے جا استعمال عالم آشکارا ہے۔AFSPA کی آڑ میںریاست میں آٹھ ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا گیا جن کی بے نام و نشان قبریں مختلف علاقوں میںموجود ہیں۔ مگر جمہوری حکومت انسانی حقوق کی ان سنگین پامالیوںپر سیاست کررہی ہے۔ تحقیق و تفتیش کی یقین دہانیوں کے باوجود کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اقلیتوں کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہری کا سا سلوک عام ہے۔ فرضی انکاﺅنٹروں کی رودادیں روز منظر عام پر آرہی ہیں جس پر عدالتیں تو سرگرم ہیں مگر حکام بدستور اپنی روشی پر قائم ہیں اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں جس کو رپورٹ میں ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔

دوسری رپورٹ دہلی کے ایک نوجوان محمد عامر خاں کی 14سال بعد جیل سے رہائی کی ہے جس پر پولیس نے 1997-98کے دوران دہلی اور اس کے نواح میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے غیر حل شدہ 19 معاملات تھوپ دئے تھے۔ایسا محسوس ہوتا ہے اصل خطاکاروں کی پردہ پوشی کی نیت سے یا ان کی نشاندہی میں ناکامی میں بدنامی سے بچنے کےلئے یکے بعد دیگرے ان تمام معاملات کو ’حل ‘ کرلینے کا دعوا کیا اور ہر مرتبہ ایک نئی کہانی بناکر عامر کو ملزم قراردیدیا۔

عامر کے والد کوئی معمولی کاروبار کرکے گھر کو چلا رہے تھے۔ کچھ مدد ان کو عامر کی بھی مل جاتی تھی۔گرفتاری کے وقت اس کی عمر 19سال تھی، وہ دسویں کلاس کا طالب علم تھا۔ 20فروری 1998کو وہ عشاءکی نماز پڑھنے گھر سے نکلا تھا۔ نماز کے بعد دوا خریدنے میڈیکل اسٹور جارہا تھا کہ سادہ لباس میںپولیس نے اس کو دبوچ لیا اور اپنی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ سات دن کے بعد اس کی گرفتاری ایک بم دھماکے کے کیس میں دکھائی گئی۔ اس وقت تک انڈین مجاہدین کی ایجاد نہیں ہوئی تھی، سیمی کا بھی نام نہیںتھا بس پاکستان سے کوئی رابطہ ہونا کافی تھا اور عامر ایک ہفتہ پہلے ہی اپنی سگی بڑی بہن چمن سے مل کر سمجھوتہ ایکسپریس سے واپس آیا تھا۔ ان سات دنوںمیں اس کے گھر والوں پر کیا بیتی ، یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ خود کمسن عامر کو خوفزدہ کرنے کے لئے شدید ٹارچر کیا گیا اور اس سے اقبال جرم کرانے کی کوشش کی گئی۔اس کے بعد ایک کے بعد ایک 19کیس اس کے خلاف بنائے گئے۔ یہی حربہ اقلیتی فرقہ کے دیگر نوجوانوں کے خلاف بھی اختیار کیا جاتا ہے جو بدقسمتی سے یا اپنی کسی لغزش سے گرفتار کرلئے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ جو گرفتارہوگیا اس کے اوپر درجنوں کیس تھوپ دئے جاتے ہیں تاکہ جرم ثبوت نہ ہونے کے باوجود وہ قید خانوں میں ایڑیاںرگڑتا رہے ، اس کا مستقبل تباہ ہوجائے، اہل خاندان اوردیگر متعلقین پولیس اورانتظامیہ کے خوف میں زندگی گزارپر مجبور ہوجائیں۔ ان کے سروں پر بھی ہمہ وقت گرفتاری کی تلوار لٹکتی رہے۔ آج بہت سے نوجوان حقوق انسانی کی اس سنگین پامالی کے آزار میں مبتلا ہیں، مگر ان کی صدائیں ایوان حکومت سے ٹکرا کر واپس لوٹ جاتی ہیں۔ سیاستداں وعدے کرکے بھول جاتے ہیں۔
نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی عامر کو بھی اس افتاد سے گزرنا پڑا۔ اس صدمہ کی تاب نہ لاکر اس کے والد اس دنیا سے چل بسے اور اسے ان کو کندھا دینا بھی نصیب نہیں ہوا۔ والدہ فالج زدہ ہوگئیں، روزگار ختم ہوگیا اور سماج میں خاندان کا رتبہ خاک میں مل گیا۔پولیس کے ڈر سے کوئی ہمدردی کا اظہار کرنے والا بھی نہیں رہا۔ یہ ایک طویل کربناک کہانی ہے ۔ایسی کہانیاں روز سامنے آتی ہیں، بس کردار اورمقام بدل جاتے ہیں۔عامر کے کیس کا المناک پہلو یہ ہے جب 9جنوری2012 کو روہتک کی عدالت نے فرنٹیر میل میں دھماکے کے الزام میں آخری کیس میں اس غریب کو بری کرکے آزادکردیا تو عدالت میں اس کے گھر خاندان کا ایک بھی فرد موجود نہیںتھا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کیسا مایوسی کا عالم ہے جو ان سب پر طاری ہے جن کو اس کی رہائی سے دلچسپی ہوسکتی تھی۔ عدالت میں اس کااپنا کوئی موجود نہیںتھا جس کے کاندھے پر سر رکھ کر وہ چند آنسو بہا لیتا۔اس سے بھی بڑھ کر افسوس اورحیرت کی بات یہ ہے کہ کسی اخبار یا ٹی وی چینل نے اس کی رہائی کی خبرتک نہیں دی۔کوئی دوہفتہ بعد firstpostindia.com پردانش رضا کی رپورٹ Delhi police’s shame: A terrorist short? Let’s catch Aamir عنوان سے شائع ہوئی .عابد رضا نے بجا طور پر لکھا ہے:ہندستان میں دہشت گردی کے کیسوں کی تفتیش کی صورتحال پر اگر کسی کو ریسرچ کرنی ہو تو عامر کا کیس اس کےلئے بہترین انتخاب ہوگا۔‘اس کے بعد ٹو سی این نے بھی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی اور پھر دہلی کے چند اردو اخباروں میں تبصرہ نما خبریںنظرآئیں، مگر نیشنل میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔

عامر جس زمانے میں غازی آباد میں ایک بم دھماکہ کے الزام میں ڈاسنہ جیل میںقید تھا ایک ہندی اخبار نے یہ جھوٹی خبر چھاپ دی کہ وہ پاکستانی دہشت گرد ہے۔ وکیلوں کی انجمنوں پر سنگھی ذہنیت کی گرفت اس قدر مضبوط کوئی وکیل اس طرح کے معاملے میں گرفتار مسلمان ملزم کی پیروی کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ عامر کو بھی اس تجربہ سے گزرنا پڑا۔مایوسی اور بے بسی کے اس عالم میں حقوق انسانی کےلئے سرگرم تنظیم ’پی یو سی ایل‘ کے ایک اساسی رکن ایڈوکیٹ این ڈی پنچولی آگے آئے۔ان کی توجہ اس کیس کی طرف نہ جاتی توعامر کی ابتلا کا سلسلہ نجانے کتنا اور دراز ہوتا ۔ ڈاسنہ جیل حکام کا رویہ یہ تھا کہ روہتک کی عدالت سے اس کی طلبی کے نوٹس آیا تو اس کو پتہ ہی نہیں چلا۔ چنانچہ عدالت نے اس کو ’بھگوڑا‘ ملزم قراردیدیا حالانکہ وہ جیل میںتھا۔دہلی میں اس کو یکے بعد دیگرے 17معاملات میں ملزم بنایا گیا ،مگرمقدموں کی ساری فائلیں دبی رہیں اور عامر جیل میں قید رہا۔اس کوغازی آباد میں 1996 کے ایک بم دھماکے میں شریک ملزم نامزد کیا گیا تھا، مگر دس سال تک فائل آگے نہیں بڑھی ۔ تہاڑ جیل سے عامر نے الہ آباد ہائی کورٹ عرضی بھجوائی توجسٹس برکت علی زیدی نے فروری2007 میں مقدمے کی کاروائی فوراً شروع کرنے اور ہر ماہ پیش رفت کی رپورٹ ہائی کورٹ بھیجنے کا حکم صادر کیاتب بمشکل سماعت شروع ہوسکی۔جسٹس زیدی نے سی جے ایم سے رپورٹ طلب کی کہ آخر کیوں 9-10 سال میں ملزم کو ایک بار بھی جیل سے عدالت میں طلب نہیں کیا گیا؟‘ کاروائی شروع ہوئی تو ظاہر ہوتا چلا گیا کہ سارا معاملہ فرضی ہے۔ پھر بھی ڈھائی سال کے بعد اس کو الزام سے بری قرار دیا گیا۔

دہلی میں اس کے مقدمات کی پیروی فیروز خان غازی ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے کی اور 17 میں 15کیسوںمیں اس کو الزام سے بری کرانے میں کامیابی بھی مل گئی۔ جن دو کیسوں میں اس کو مجرم قراردیاگیا اور سزا کا حکم ہوا ان میں بھی مسٹر غازی پر امید ہیں کہ ہائی کورٹ میں یہ داغ بھی دھل جائےگا۔ان دونوں کیسوں میں سزا کی مدت سے زیادہ کیونکہ وہ جیل میں پہلے ہی گزار چکا تھا، اس لئے آخری کیس میںبری ہوتے ہی اس کی رہائی مل گئی۔ یہ کیس فرنٹیر میل میں دھماکہ کاتھا جو روہتک میں چلا۔ کیس کیونکہ ان 17 کیسوں کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا جن میں وہ بری ہوچکا تھا، اس لئے یہ کیس ازخود کمزور پڑگیا اور مسٹر راجیش شرما ایڈوکیٹ کو اس کو بے قصور ثابت کرنے میں کامیابی مل گئی۔ مسٹر غازی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں ملزم کے قریبی عزیز تک پولیس کے ڈر سے سامنے آنے سے کتراتے ہیں۔یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے معاملات میں ریمانڈ دیتے وقت اور الزامات متعین کرتے وقت جوڈیشیل افسران مشینی انداز میں کام کرتے ہیں اور یہ تک دیکھنے کی زحمت نہیںکرتے کہ استغاثہ کی کہانی میں کچھ دم ہے یا نہیں؟ لیکن بہر حال انصاف بھی انہی عدالتوںسے ملتا ہے۔طویل تاخیر کے عامر کے مقدموں میں عدالتوں نے جو فیصلے مختلف اوقات میںسنائے ہیں ان سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس نے بغیر کسی ثبوت اس کے خلاف کیس بنائے، فرضی گواہ پیش کئے اور گولا بارود کی جو برآمدگی دکھائی وہ سب فریب تھا۔ مختلف گواہوں نے عدالتوں میں تسلیم کیا کہ انہوں نے عامر کو پہلے دیکھا ہی نہیں۔ اکثر معاملات میں اس کو ایک دوسرے ملزم شکیل کے ”بیان“ کی بنیاد پر ملزم ٹھہرایا گیا۔ شکیل ایک معمولی پھیری والا تھا جس کی ڈاسنہ ضلع غازی آباد کی جیل میں غیر فطری موت ہوگئی ۔ اس کی لاش ہائی سیکیورٹی جیل میں لٹکی ہوئی ملی ۔ حقوق انسانی کمیشن کی ہدایت پر جب مجسٹریٹی جانچ ہوئی تب یہ حقیقت کھلی کہ اس کی موت زہر خورانی سے ہوئی تھی اور جیلر کے خلاف مقدمہ قائم ہوا۔

عامرپر جو افتادپڑی اس کی داستان بڑی طویل ہے۔ جس کو بیان کرنے کےلئے ضخیم دفتر درکار ہے۔عامر کو 20فروری 1998 کو پولیس نے اس وقت اٹھایا تھا جب وہ اپنے محلہ کشن گنج کی مسجد میں عشاءکی نماز پڑھ کر دوائی لینے میڈیکل اسٹور جارہا تھا۔ اس کی رہائی 9 جنوری 2012کو عمل میں آئی۔ جیل میں اس کمسن نوجوان نے اپناوقت پڑھنے پڑھانے میں گزارا اور قانون سے اچھی خاصی واقفیت حاصل کرلی۔ چنانچہ اپریل 2010 میںجب روہتک کی عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو جج نے کہا اگر عامر جرم تسلیم کرلے تو اس کو فوراًرہا کردیا جائےگا، کیونکہ سزا سے زیادہ مدت وہ پہلے ہی جیل میں کاٹ چکا ہے۔ہم اس قانونی نکتہ کی فہمید سے قاصر ہیں جب ملزم اتنی طویل مدت جیل میں کاٹ چکا تھا اور اسی طرح کے 15معاملوں میں بری ہوچکا تھا تو اس کو فوری طور پر ضمانت پر کیوں نہیں چھوڑا جاسکتا تھا؟ عامر نے عدالت کی اس پیش کش کو قبول نہیں کیا اور کہا جو جرم میں نے کیا نہیں، اس کو تسلیم نہیں کرونگا، بھلے ہی مزید جیل میں رہنا پڑے۔ایسی کم عمری میں اعصاب کی یہ پختگی اس عظیم مصیبت کا ثمرہ ہے،کوئی اور ہوتا تو گھبرا کر جرم قبول کرلیتا۔ جیل سے باہر آنے کے بعد وہ اپنے بکھرے ہوئے آشیانے کے تنکے جمع کرنے کی جدوجہد میں لگ گیا ہے۔والدکا سایہ سر سے اٹھ چکا ہے۔ روزگار کا کوئی سلسلہ نہیں، والدہ فالج زدہ ہیں۔ پھر کسی ناکردہ جرم کے الزام میں دھر لئے جانے کے خوف کا سایہ اس کا پیچھا اس طرح کر رہا ہے کہ نماز کےلئے مسجد جانے کا حوصلہ بھی کرپاتا۔ تاہم مجموعی طور پر ملکی حالات بدل رہے ہیں۔ دس پندرہ سال پہلے جو ماحول تھا، وہ چھنٹ رہا ہے ۔گرفتاریوں پر لوگ بروقت بولنے لگے ہیں جیسا کہ ابھی گزشتہ ماہ دہلی اور ملک کے بعض دیگر مقامات سے متعدد نوجوانوں کی گرفتاری کے بعد نظرآیا۔ ایسا ہی پنجا ب سے چار طلباءکی گرفتاری کے بعد ہوا۔ اس آواز اٹھانے کاکچھ نہ کچھ اثر بھی نظر آرہا ہے۔

قید سے رہائی کے باوجود سوال یہ ہے کہ اس کے یہ 14 سال کون لوٹائے گا؟ ایک بے گناہ کو اتنی طویل مدت تک قید میں ڈال کر صرف الزام سے بری قرار دیا جانا تو انصاف نہیں۔انصاف تو یہ ہے کہ از اول تاآخر اس کی مصیبتوں کےلئے جو افرادجان بوجھ کر ذمہ دار ہیں ان کو سخت سزا ملے اور حکومت اس طرح بے قصورپھنسائے گئے افراد کی بازآبادکاری کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ اس طرح کے بے بنیاد مقدمات میں عدالتوں کو کتنا وقت ضائع کردیا جاتا ہے۔ آخر اس کے لئے بھی تو کسی سے جوابدہی ہونی چاہئے؟

چندروز قبل ہم نے اپنا 63واں یوم جمہوریہ منایا۔ اس موقع پر انسانی حقوق کی پامالیوں کی شرمناک صورتحال جو دنیا کے سامنے آئی ہے ، عامر کا کیس جس کی ایک زندہ مثال ہے، دل میں چبھن پیدا کرتا ہے۔ ہم نے خواب دیکھا تھا کہ آزادی کے بعد جبر اور ظلم سے نجات مل جائیگی، مگربدقسمتی سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ہمارے آئین نے، جس کے نفاذ کی سالگرہ یہ یوم جمہوریہ ہے، شہریوں کے حقوق کی مثالی گارنٹیاں دی ہیں۔ لیکن کیاان کا لحاظ رکھا جاتا ہے؟ راج پتھ پر شاندار پریڈ، رنگا رنگ پروگرام بڑے ہی دیدہ زیب ہیں، مگر کیا ان کی دھوم اس کرب کو چھپا سکتی ہے جو آئین کے نفاذ میں مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے؟ ہم ایک آزاد اور خود مختارملک کے شہری ہیں۔ہماری پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ سب ہمارے اپنے ہیں، لیکن کمزور اور معصوم شہری ان کی چیرہ دستیوں، ظلم و زیادتیوں اور لاپروائیوں سے کتنا محفوظ ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہی یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کی اصل مسرت مضمر ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164219 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.