سکون کی حقیقت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
زندگی میں ہر انسان کی ایک ہی جستجو ہوتی ہے کہ کسی طرح زندگی میں سکون و قرار آجائے اس سکون و قرار حاصل کرنے کے لئے انسان دولت اکھٹی کرتا ہے پھر ایک اچھا سا گھر لیتا ہے۔۔۔ تاکہ زندگی میں سکون آجائے پھر سوچتا ہے کہ گھر تھوڑا بڑا ہو اور بڑے بڑے کمرے ہوں جہاں آرام سے زندگی بسر ہو
پھر یوں بھی کرلیتا ہے اس کے بعد ایک اور خواہش اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہے کہ گھر میں ائیر کنڈیشن بھی لگا لوں تاکہ رات آرام اور سکون سے بسر ہو ایک اور خواہش جو زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے کہ کاروبار بہتر سے بہتر ہو تاکہ ضروریات زندگی اور لائف اسٹائل بہتر سے بہتر انداز میں ہوسکے پھر وہ ایک بنگلا لے لیتا ہے جہا دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہوتیں ہیں پھر ہر ماہ دو ماہ میں بیرون ملک گھومنے پھرنے بھی جاتا رہتا ہے تاکہ سکون مل سکے اب اس شخص کے پاس دولت بھی ہے۔۔۔۔۔ عزت بھی ہے۔۔۔۔ شہرت بھی ہے۔۔۔۔ شاندار بنگلا بھی ہے۔۔۔۔ کمروں میں اسپلٹ بھی ہیں۔۔۔۔۔ بہترین سے بہترین ائیر کنڈیشن گاڑیاں بھی ہیں۔۔۔۔ بہت خوبصورت بیوی بھی ہے۔۔۔۔ اولادیں بھی ہیں۔۔۔۔ کاروبار دن بدن ترقیوں کی منازل طے کرتا جارہا ہے۔۔۔۔۔ اتنا پیسا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں جا کر دل کھول کر اپنی خواہشیں پوری کرنا معمولی بات ہے۔۔۔۔۔ دولت کے انبار اکھٹے ہوگئے جو نسلوں تک آرام سے زندگی گزار سکے۔۔۔۔

کیا خیال ہے دوستو! یہی سب کچھ ہی انسان کی تمنا ہوسکتی ہے نا؟اورایک انسان کی دنیاوی جستجو یہیں تک ہے نا؟ اور انسان کی تمام تر جستجو زندگی میں سکون حاصل کرنے کے لئے ہے نا ؟ اور کس لئے ہوسکتی ہے؟روٹی کھانے کے لئے؟

وہ کروڑوں یااربوں جمع کرنے کے بعد بھی چند روٹی سے زیادہ نہیں کھا سکتا۔ خواہشات کی تکمیل کے لئے؟
تو وہ بھی صرف اپنے نفس کو تسکین پہنچانے کے لئے ہی ہوتا ہے۔

اولاد کے لئے؟
تو اس کا تعلق بھی نفس کی تسکین کے سبب سے ہے کہ ہمارے بچے بھی کسی محرومی کا شکار نہ ہوں اور ہماری طرح بہترین سے بہترین زندگی گذاریں غرض یہ کہ آپ آپ کو ایک انسان کی ان تمام چیزوں کی جستجو کے لئے بھاگ دوڑ کی طرف نظر ڈالیں گےاور جب اُس کے مقصد کی طرف دیکھنا چاہیں گے تو آپ کو جواب "سکون کی تلاش "کے سوا کچھ نہ ملے گا

لیکن دوستو ! حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسان جتنا بھی ان چیزوں کی طرف دوڑلگاتا ہے اور جتنا زیادہ ان چیزوں کو حاصل کرتا جاتا ہے اتنا ہی سکون اس کی زندگی سے دور چلا جاتا ہے اس کی بے شمار مثالیں آپ اپنے آس پاس دیکھ سکتے ہیں کہ دولت کے انبار پر،نرم و نازک بستر پر ،ائیر کنڈیشن روم میں آٹھ گھنٹے کی نیند کے لئے دوائیاں لینی پڑتی ہیں کروڑ پتی یا ارب پتی۔۔۔۔ کھانے میں ابلا ہوا یا پرہیزی کھانا استعمال کرتا ہے بیرون ممالک سیر و تفریح کرکے سکون کی تلاش میں جانے والا راتوں کو جاگ کر اپنے کروڑوں اور اربوں کے کاروبار کی فکر میں گھلتا رہتا ہے اولاد کی خاطر اپنا تن من دھن لٹانے والا۔۔۔۔۔ دن رات ایک کردینے والا۔۔۔۔ کاروبار کی بھاگ دوڑ اپنی اولاد کے ہاتھ میں دینے ہی ایک بے کار سی چیز بن جاتا ہے۔۔۔۔ جس کے آخری ایام اولڈ ہاوس میں گذرتے ہیںاور اگر ایسا نہ بھی کرے تب بھی وہ بیوی بچے جن کے خاطر اس نے دن رات ایک کرکے اتنی دولت کے انبار لگائے۔۔۔۔ وہ ہر روز اس کے مرنے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں -

یہ چند مثالیں ہیں۔۔۔۔ اس کے بعد جو جو شخص اپنا یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے جس جس لیول پر ہے
وہ اپنے اپنے مسائل اور زندگی کی بے سکونی کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے تو پھر انسان کی فطرت کو جس چیز کی تلاش ہوتی ہے۔۔۔۔ اور جس چیز کے لئے انسان اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیتا ہے۔۔۔۔ جس چیز کے لئے انسان کتنا ہی جائز نا جائز کرتا ہے۔۔۔۔ اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنی پوری زندگی اس مقصد پر قربان کردیا ہے۔۔۔۔ اور سب کچھ حاصل کرکے بھی اس نعمت سے محروم رہتا ہے -

تو پھر آخر یہ زندگی کا سکون کہاں مل سکتا ہے اور کیسے ملتا ہے ؟

لوگ اس سکون کے لئے کروڑوں اربوں خرچ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نعمت سے محروم ہیں؟

کیوں کہ دوستو ! اگر سکون دولت ،عزت شہرت اور مال و متاع میں موجود ہوتا تو یقینا آپ کو امیر و امراء میں نظر آجاتا یا آپ سب اپنا اپنا محاسبہ کرلیں کہ کون کتنا دولت مند اور عزت و شہرت والا ہے اور اُس کی زندگی کتنا سکون ہے؟

دوستو! آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ عظیم نعمت کہاں موجود ہے ؟

الحمد للہ اس تحریر کو پڑھنے والے مسلمان ہیں
(نوٹ اگر کوئی غیر مسلم بھی اس سوال کا جواب جاننا چاہے تو ہمیں یہیں میسج کرے ان شاء اللہ اس کو بھی یہ حقیقت ثابت کردیں گے )

اور الحمد للہ ہم سب کا عقیدہ ہے کہ قرآن پاک رب کا سچا کلام ہے وہ رب کریم جس نے انسان کی تخلیق کی۔۔۔۔ یقینا خالق سے زیادہ مخلوق کی ضرورت سے کون واقف ہوسکتا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ رب العالمین انسان کی زندگی کا سکون کہاں بتاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد 28 پارہ 13)
ترجمہ :وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل تسکین پاتے ہیں

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جو اللہ کی طرف جھکے ،اس سے مدد چاہے ،اس کی طرف عاجزی کرے ،وہ راہ یافتہ ہوجاتا ہے ،جن کے دلوں میں ایمان جم گیا ہے ،جن کے دل اللہ کی طرف جھکتے ہیں ،اس کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ،راضی خوشی ہوجاتے ہیں اور فی الواقع ذکراللہ اطمینان دل کی چیز بھی ہے ،ایمانداروں کے لئے خوشی نیک فالی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ،ان کا انجام اچھا ہے ،یہ مستحق مبارکباد ہیں ،یہ بھلائی کو سمیٹنے والے ہیں ان کا لوٹنا بہتر ہے ان کا مال نیک ہے -

میرے بھائیو،دوستو اور بزرگو!
بے شک خالق کائنات نے دلوں کا سکون اپنی یاد میں رکھا ہے۔۔۔۔اب جو انسان رب کی جتنی تابعداری کرتا جائے گا۔۔۔۔ اُس کی زندگی سکون سے اتنی ہی لبریز ہوتی چلی جائے گی-

انسان اپنے جسم کو خوراک تو پہچانے کی جدوجہد کرتا ہے ۔۔۔۔اور جسم کو آرام دینے کے لئے طرح طرح کی آسائشیں تلاش کرتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اس جسم کے اندر ایک روح بھی ہے ۔۔۔۔جو اس کے جسم کی رگ رگ میں دوڑ رہی ہے ۔۔۔۔ اور اس روح کی بھی ایک غذا ہے ۔۔۔۔اور جب تک اس روح کو غذا نہیں ملے گی تب تک جسم کو آرام پہنچانے کی ہر کوشش بے کار ثابت ہوجائے گی۔

جس کا مشاہدہ ہر کوئی باآسانی کرسکتا ہے کہ انسان نفس کی تسکین کے لئے جتنی جدوجہد کیوں نہ کرلے لیکن وہ سکون و آرام سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتا ہے ۔

لیکن جب انسان رب کی تابعداری شروع کردیتا ہے۔۔۔۔تو اُس کی روح کو اتنا ہی چین و قرار آتا چلاجاتا ہے۔

پھر ایسے شخص کے سامنے بظاہر حالات کیسے بھی ہوں گے۔۔۔۔چاہے وہ تکلیف میں ہو یا راحت میں ۔۔۔۔ چاہے وہ روکھی سوکھی کھاتا ہویا مرغ مسلم ۔۔۔۔ چاہے اس کا بسترنرم ہو یا سخت پتھریلی چٹان ہو۔۔۔۔چاہے دولت مند ہو یا فقیر ہو ۔۔۔۔۔بیمار ی میں ہو یا صحت میں ۔۔۔رب کی تابعداری کرنے والے کی زندگی ایسے حقیقی سکون سے بھر جاتی ہے جودولت کے انبارانبار لٹا کر بھی نہ حاصل کی جاسکے۔

اُس کا مال و متاع اولاد بیوی بچے،عزیز رشتہ دار ،گھر بار،دوکان کاروبار ہر ہر چیز اُس کے لئے باعث تسکین ہوجائے گی دنیا میں لوگ اپنے جسمانی سکون کی تلاش میں جستجو کرتے ہیں۔

جبکہ انسان کے حقیقی سکون(جو انسان حاصل کرنا چاہتا ہے) کی اصل حقیقت روح کے سکون میں ہے
لہذا جب روح کو سکون مل جائے تو جسمانی جیسی بھی کیفیت ہو لیکن ایسا شخص ہر حال میں اطمینان محسوس کرتا ہے بصورت دیگر سکون حاصل کرنے کے لئے کتنی ہی جدوجہد کرلی جائے کتنی ہی خواہشات پوری کرلی جائیں کتنی ہی آسائشیں اکھٹی کرلی جائیں لیکن جب تک روح کو سکون میسر نہ ہوگا تب تک انسان کی ہر کوشش بے کار ثابت ہوگی اور ایسا شخص تمام تر آسائشیں اور خواہشات کی تکمیل کے باوجود بھی بے چین اور بے قرار رہے گا جو ہر شخص اپنے آس پاس بلکہ اپنی خود کی زندگی کو بھی اپنے سامنے رکھ کر غور کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین

(ضروری گذارش اگر کسی کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو ہمیں ضرور مطلع فرمائے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں نیز اگر کسی کو کوئی بات سمجھنے میں دشواری ہو تو بلا جھجک سوال پیش کریں ان شاء اللہ ہم جواب دینے کی کوشش کریں گے )
Nasir Noman
About the Author: Nasir Noman Read More Articles by Nasir Noman: 14 Articles with 13103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.