کتابوں کا اتوار بازار۔ 29 جنوری 2012۔ کچھ احوال بازار کا

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

لیکن صاحب، اس کا ہر اتوار صدر کراچی کی ایک گلی میں برسنا ہی غنیمت ہے کہ طلبگاران کتب کی کچھ اشک شوئی تو اس طرح ہو ہی جاتی ہے۔

کتابوں کے اتوار بازار میں آج حسب معمول ملاقات ہوئی اپنے دوست امین ہاشم سے۔ یہ 1987 سے اس بازار میں آرہے ہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو، کیسے بھی حالات کیوں نہ رہے ہوں، امین کا آنا طے ہے:

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
 

image

ہم ایک جانب کھڑے ہوگئے، بات چل نکلی اتوار بازار کی تو کئی نئی باتیں سننے کو ملیں، معلومات میں اضافہ ہوا۔ کراچی صدر کے علاقے ریگل چوک سے متصل ایک گلی میں یہ بازار لگتا ہے لیکن کب سے؟ اس کا جواب امین ہاشم نے دیا:

"کوئی آٹھ دس برس ہوئے ہیں، اس سے قبل یہ مرکزی سڑک پر ہی لگا کرتا تھا اور غالبا" سن پچاس کی دہائی کے اواخر سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔"

‘مرکزی سڑک سے گلی میں اٹھ آنے کی کیا وجہ ہوئی، یوں اٹھے آج اس گلی سے ہم والی بات تو نہ ہوئی ہوگی کہ سڑک سے گلی میں آئے تھے‘ میرا سوال تھا

امین بتانے لگے:
" بازار سڑک پر سجا کرتا تھا اور وہ علاقہ پریڈی تھانے کی حدود میں آتا ہے، ایک روز بااثر دکانداروں نے تھانے دار کو ساتھ ملایا اور عذر پیش کیا کہ ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے"
 

image

‘ اتوار کے روز بھی‘ ؟
" جی زبردست کا ٹھینگا سر پر" امین بولے "
‘ پھر کیا ہوا‘ ؟
"پھر یہ ہوا کہ ایک سڑک سے اٹھ کر یہاں گلی میں آنے سے یہ ہوا کہ تھانے کی حدود بدل گئی، یہ گلی کنٹونمنٹ کی حدود میں آتی ہے اور پھر یہاں کے دکانداروں نے کوئی اعتراض نہ کیا تو یہ یہاں جم گئے"

‘میں (راقم) نے پولیس کو بھی آتے دیکھا ہے، یہ کیا معاملہ ہے‘؟ میرا سوال تھا
امین بتانے لگے: " اس کی بھی سن لیجیے، پولیس یہاں سے بھتہ لیتی ہے اور بعض اوقات تو دو علیحدہ علیحدہ پولیس موبائلز بھتہ لینے پہنچ جاتی ہیں۔ ایک بندہ ہے یہاں (انہوں نے ایک آشنا چہرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہ اس کا کام ہے، پیسے جمع کرتا ہے اور تھانے والوں کو پیش کرتا ہے۔ ایک مرتبہ تو یہ بھی پھنس گیا تھا۔ ہوا یہ کہ ایک تھانے کو پیسے دے کر ہٹا تو دوسرے تھانے کے ایس ایچ او نے اسے طلب کرلیا اور الزام لگایا کہ تم صدر کے دکانداروں سے بھتہ جمع کرتے ہو۔ اس غریب نے پریشان ہو کر کہا کہ حضور وہ جمع کرکے آپ لوگوں ہی کو تو پہنچاتا ہوں۔ یہ کہنا غضب ہوگیا، تھانے دار نے ایف آئی آر درج کرنے کی دھمکی دی، بڑی مشکل سے بیس ہزار دے کر جان چھڑائی۔"

سن 1987 سے یہاں باقاعدگی سے آنے والوں میں اب کو ئی چہرہ نظر آتا ہے ؟میں نے امین ہاشم سے سوال کیا
 

image

امین کہنے لگے "ایک تو جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ظفر اقبال ہیں، پھر پروفیسر سحر انصاری ہیں جو اب کبھی کبھی آتے ہیں، ایک صاحب تھے قمر سہارنپوری، وہ بلا ناغہ آتے تھے لیکن ان دنوں بہت بیمار رہنے لگے ہیں۔

کتب فروشوں میں ایک ایسی شخصیت ہے جس کے ذکر کے بغیر اس بازار کا تذکرہ نامکمل سمجھا جائے گا، ان کا نام ماسٹر اقبال تھا، وضع قطع باکل مرزا غالب جیسی، وہی کھڑی ٹوپی، پاجامہ اور کبھی کبھی شیروانی بھی زیب تن کرتے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب انہوں نے صدر کے کریم سینٹر میں کتابوں کی دکان بھی کھولی تھی جو چلی نہیں، اور گھاٹے میں بند کرنی پڑی، ماسڑ اقبال گاہک کے حساب (گاہک کی ظاہری وضع دیکھ کر) سے کتاب کی قیمت لگاتے تھے۔ ماسٹر اقبال زمانہ ہوا انتقال کرچکے ہیں"

سن اسی کی دہائی میں امین ہاشم کی تنخواہ 2000 روپے تھی، ایک روز انہیں خطبات عالیہ تین جلدوں میں نظر آئی، 600 روپے کی رقم 2000 کمانے والے کے لیے خطیر تھی، امین ان دنوں سائیکل پر آیا کرتے تھے، قیمت سن کر ان کے ہوش اڑ گئے، خاموشی سے واپس جانے لگے تو ماسٹر اقبال نے ان کی سائیکل کا پچھلا حصہ تھام کر روک لیا اور کہا کہ لے جائیے یہ کتابیں، آجائیں گے پیسے بھی۔

اور اب ؟
 

image

اب تو یہ حال ہے کہ پرانے کتب فروش چل بسے، ان کی اولاد میں کچھ باقی رہ گئے ہیں بقول امین ہاشم جن کی آنکھوں میں ابھی بھی کچھ شرم باقی ہے۔ باقی یہ حال ہے کہ بھاؤ تاؤ کرنے والے گاہکوں کی لاف گزاف سے بازار کے سب سے بااثر کتب فروش کو اکثر تاؤ آجایا کرتا ہے اور وہ کھڑے گھاٹ گاہک کی بے عزتی بھی کرتے دیکھا گیا ہے۔ اسی کتب فروش کے پاس راقم نے آج صبح ایک تھیلا دیکھا جس پر گاڑھی سیاہی والے قلم سے لفظ "ڈاکٹر" لکھا تھا۔ ایک صاحب نے کتب فروش سے اس تھیلے کو کھولنے کی درخواست کی جو اس نے نخوت سے رد کردی۔

یہ عقدہ بھی امین ہاشم نے کھولا، معلوم ہو ا کہ ایک ڈاکٹر صاحب ہیں جو تین ماہ سے کتابوں کے بازار میں آرہے ہیں:

وہ آیا، اس نے دیکھا اور دوسروں کا بیڑہ غرق کردیا

ڈاکٹر صاحب کتاب کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں، کتب فروش نے ان کو تاک لیا ہے، وہ سو روپے کی کتاب کے تین سو روپے طلب کرتا ہے اور ڈاکٹر صاحب قبلہ فراغ دلی سے ادائیگی کردیتے ہیں، ہوتے ہوتے یہ نوبت آن پہنچی ہے کہ کتابوں کا کم از کم ایک بورا تو ایسا ہوتا ہے کہ جو ڈاکٹر صاحب کی آمد پر ہی کھلتا ہے، وہ اپنی پسند کی کتابیں چھانٹتے ہیں، پھر باری کے انتظار میں کھڑے دوسرے مسکین عشاق، بتوں سے بچا کھچا فیض پاتے ہیں۔

‘اور اگر ڈاکٹر نہ آئیں تو ؟ ‘
" تو بورا نہیں کھلتا اور اسے کتب فروش واپس لے جاتا ہے، بھیا! وہ تو ایسے ہیں کہ ایک مرتبہ برملا کہتے سنے گئے کہ میرے پاس پیسہ ہے اور میں اس کی مدد سے کچھ بھی خرید سکتا ہوں" امین نے انکشاف کیا۔
 

image

شنید یہ بھی ہے کہ اب ڈاکٹر صاحب کے جوش جنوں میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ شاید ان کے مریض کچھ ہشیار ہوگئے ہوں گے، لیکن دوسرے گاہکوں کو جو نقصان پہنچنا تھا، وہ تو پہنچا۔

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

آج ہمارے محترم دوست عادل حسن بھی بازار میں جلوہ افروز تھے۔ 10 فروری کو ان کے نانا جناب قیسی رامپوری کی برسی آرہی ہے۔ احباب سے وہ پہلے ہی درخواست کرچکے ہیں کہ کسی کے پاس ان کے نانا سے متعلق اگر کوئی تحریر ہو تو اسے اس روز بزم قلم پر شامل کریں۔ ذیل میں درج فہرست کتب میں شامل ‘اردو کتابوں کی ڈائرکٹری‘ بھی بھائی عادل نے کمال محبت سے ہمیں خرید کر پیش کی۔

کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:
 

image

چہرے
خاکوں کا مجموعہ
شورش کاشمیری
ناشر: مکتبہ ماحول لاہور

سن اشاعت: 1965
صفحات: 272

کچھ یادیں
یاداشتیں
محمد مظہر بقا
ناشر: بقا پرنٹر اینڈ پبلشر کراچی
سن اشاعت: 1996
صفحات: 166

لاہور کا جو ذکر کیا
آپ بیتی
گوپال متل
ناشر: مکتہ اردو ادب، لاہور
سن اشاعت: 1985
صفحات: 128

راہی اور راہ نما
خاکوں نا مجموعہ
سید الطاف علی بریلوی
ناشر: اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، کراچی
سن اشاعت: 1964
صفحات: 265

تخلیقی ادب
مدیر مشفق خواجہ
شمارہ نمبر 2
سن اشاعت: 1980
صفحات: 568

اردو کتابوں کی ڈائرکٹری
سالنامہ کتاب لاہور
اکتوبر-نومبر 1968
نگران: ابن انشائ۔، مدیر: سید قاسم محمود۔ نائب مدیر: صفدر ادیب
صفحات: 1104
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 281137 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.