اسلام زندہ باد کانفرنس اور اُٹھتے سوالات

جمعیت علماءاسلام کے لاکھوں کارکنان کو یقینا اس کی پرواہ میں نہیں مگر پھر بھی مبارک باد کے مستحق ٹھرتے ہیں۔ایک چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اورایک سازش کو ناکام بنانا کوئی زیرک سیاستدان مولانا فضل الرحمن سے سیکھے ۔ جے یو آئی نے ایک لمبی عرصہ بعد کراچی مزارِ قائد کے سامنے ”اسلام زندہ باد“کانفرنس کر کے جہاں بہت سارے سیاسی دماغوں کو سوچنے پر مجبور کیا وہیں پر اگر یہی اسلام زندہ بادمیں آنے والے کارکنان سمجھیں تو پر بہت سارے چہروں کی حقیقتیں بھی واضع کروادیں ہیں ۔اسلام زندہ باد کے شرکاءکی تعدادکی بابت جب ہم نے اپنے ایک خداترس صحافی دوست سے پوچھاجو عمران خان کی سونامی میں شریک تھا ، تو اس کا کہنا تھاکہ یہ تعدا د اُس جلسہ کے مقابلے میں ”ہر لحاظ“ سے دوگناہے ۔

عمران خان کے جلسہ میں لوگ کرسیوں پر تھے اور اسٹیج پربھی کرسیاں تھیں قیادت کے لئے اور جے یو آئی کے جلسے میں قیادت سٹیج پر اور کارکنان حسب ِ روایت دریوں پر مسلسل 7گھنٹے تک جلسے میں بیٹھے رہے ،عمران خان کے جلسے کے اخراجات بڑی بڑی شخصیات کے کندھوں پر تھے جب کہ جے یو آئی کے جلسے کے اخراجات کارکنان کی محنت تھی اور خود مولانا فضل الرحمن سے محبت کرنے والے پٹھانوں کے بینرز،سائن بورڈز اور اشتہارات اس کے گواہ تھے ۔25دسمبر کے جلسے میں آنے والے صرف عمران سے محبت کے نتیجے میں آئے تھے اور 27جنوری کے جلسے میں آنے والے خالص اسلام اور نظریات کی وجہ سے آئے تھے ۔خان کے جلسے کی تیاریوں میں میڈیا کا اہم کردار تھا جب کہ یہاں پر کوریج کا بھی بعض چینل اور اخبارات نے صحافتی کردار ادا نہیں کیا ۔عمران خان کے جلسے میں اسرائیل کے بڑے حمایتی مشرف کے بہت سارے اب بھی قریبی سمجھے جانے والے موجود تھے جب کہ مولانا فضل الرحمن کے جلسے میں اسرائیل کے مخالف اور اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے حامی لوگ تھے ۔کپتان کے جلسے میں بھی کرپشن کی لعنت کو روکنے کی بات کی گئی مگر کرپشن کرنے والے اُن کے پہلو میں موجود تھے جب کہ جمعیت علماءاسلام کے جلسے میں بھی کرپشن کےخلاف بات کی گئی مگر میڈیا کو یہاں کوئی کرپٹ ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکا۔عمران خان کے جلسے میں مخلوط شرکت کے باوجود بھی اتنی تعداد نہ تھی جے یو آئی کے جلسے میں جتنی صرف مرد کی تعداد تھی ۔خان کے جلسے میں ڈاکٹر عافیہ کی عافیت کی وہ بات نہیں کی گئی جو کی جانی چاہیے تھی یا بہت سارے لوگ جس کی توقع کر رہے تھے مگر جے یو آئی کے جلسے میں ڈاکٹر عافیہ کی بات بھی کی گئی اور اسی جماعت کے ایک رہنما سینیٹر طلحہ محمود نے پُر زور آواز اُٹھائی تھی ۔

گزشتہ کچھ عرصہ کی طرف اگر دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن پر بہت سارے سوالات اُٹھائے گئے مگر اس کانفرس کی کامیابی کے بعد وہ سوالات اٹھانے والے خودا پنے سوالات پر خاموش دِکھائی دے رہے ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں میں جمعیت علماءاسلام وہ واحد جماعت ہے کہ تمام ٹی وی چینلز اپنے ٹاک شوز میں جس کو لفٹ نہیں کرواتے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک پارٹی کے پاس صرف نوجوانوں کی ترجمانی کے خوبصورت نعرے ہیں او ر خیر خود سے بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہم نے ابھی تک پالیسی نہیں بنائی وقت آنے پر پالیسی کا اعلان کیا جائے گا ایسی پارٹی کے لوگوں کو میڈیا ٹاک شوز میں بلا کر کیا اور کون سی جمہوریت اورعوام کی ترجمانی کر رہا ہے ؟۔سب سے زیادہ اس جلسے کے ساتھ ناانصافی کرنے والے چینل پہ گزشتہ دنوں اعظم سواتی بیٹھے یہ اعلان کر رہے تھے کہ میں نے پارٹی میں رہ کر بھی کرپشن کے خلاف بات کی ہے اور اسی پر ہمیشہ بات کروں گا اوراس کرپشن کے خلاف نعرے کی وجہ سے میں نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے ۔اس ٹاک شو کے میزبان نے سوال کیا کہ آپ نے گزشتہ دنوں میں بھی تو کرپشن کا کیس نمایاں کیا ہے تو اعظم سواتی نے فخر سے اس وقت کہا کہ یہ چھ ارب کی کرپشن ہورہی تھی ،جس کو میں نے بے نقاب کیا مزید سوال بن رہا تھا کہ جناب آپ نے یہ کرپشن میں جس شخص کو بے نقاب کیا تھا وہ تو آپ سے پہلے آپ کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکا ہے ۔؟
کس سے پوچھوں میں بھلا منزل ِجاناں کا پتہ ؟
اس کو لگ جاتی ہے چپ جس کو خبر ہوتی ہے

حیرت کے طور پر ہماری صحافت منفی چیز کو اہمیت زیادہ دیتی ہے اور یہیںسے اصولی اور پیلی صحافت کا فرق واضح ہوتا ہے ۔این آر او (نیشنل ریکونسیلیشن آرڈینس)7اکتوبرکو جاری ہوا تھا ،اس سے 8041لوگوں نے فائدہ اُٹھا ،این آر او سے ایک ٹریلین 65بلین امریکی ڈالر زقریباًمعاف کروائے گئے ۔ایک کیس میں صرف ایک آدمی 1.5بلین ڈالر معاف کئے گئے ۔ایک سیاست دان کی بیوی کو 310ملین معاف کئے گئے ۔این آر اوکے ذریعے معاف کروائے گئے پیسے چھ کیری لوگر بلوں کے برابر ہیں۔اگر یہ میرامنہ زور میڈیا اتنا ہی سچ پسند ہے تو بتائے یہ بھی سب کھول کر کہ کس جماعت میں ایسے وہ لوگ موجود ہیں ؟نڈر اور غیر جانب داری کا دعویدار یہ زیر اور جانب دارمیرا میڈیا یہ بتانے کے لے لئے تیارنہیں ہے کہ جس کا اشارہ سینیٹر عبدالغفور حیدری نے اپنے بیان کیا کہ جمعیت علماءاسلام وہ واحدجماعت ہے جس نے این آر او سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔سپریم کورٹ اور اسپیشل انوسٹییگیشن کی روپورٹ کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کے کراچی میں عسکری ونگ بھی ہیں اوریہ بھتہ بھی لیتی ہیں جب کہ ان حالات میں بھی میڈیا نے بالکل بھی اپنی زبان پر یہ حرف نہیں لائے اور نہ ہی کسی کالم نگار کو کسی صحافتی اصول کی پاسداری کا احساس ہوا کہ اورنہیں تو قوم کے سامنے سچ ہی رکھ لیتا تا کہ مایوس قوم کو کہیں امید نظر آتی ورنہ متاعِ کارواں لُٹ جانے کے بعد احساسِ زیاں کچھ معنی نہیں رکھتا ۔

اب اس کامیاب اور تاریخی جلسے کے بعد خود جمعیت علماءاسلام کو بہت سارے کام بہت تیزی سے کرنے پڑیں گے ۔ میڈیا نے جو کرنا تھا وہ توکیا ہی مگر اب بجائے گلہ و شکوہ کناں ہونے کے دیگر جماعتوں کی طرح اپنا میڈیا کے ساتھ روابط کے لئے نیٹ ورک مضبوط بنانا ہوگا ۔اوراس کانفرنس کے سلسلے میں اگر اپنے حلقوں میں جایا جاسکتا ہے تو ایک مرتبہ اپنی مسلک کی نمائندہ جماعتوں کہ جن کے پا س بھی دریں چہ شک نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے ۔اور یہی وہ واحد حل ہے کہ جس سے اپنی طاقت کو بکھرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔اور ملک میں نفاذ ِاسلام کی جدوجہد میں ایسا عمل بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ۔ جس وقت یہ سطورتحریر کی جارہیں تھیں ایک جیالے کا میسج آیا جس میں وہ میڈیا پرکوریج نہ ملنے پر نالاں تھے اُن کے گلے پر ایک ہی درد بھرجواب تھا ”کہ جس کی بات آپ کر رہے ہیں اُس کے سب سے زیادہ خریدار بن کر آپ نے ہی اُس کے ہاتھ مضبوط کئے “ میرا اخبار تو وہی ہے جس پر آپ کو گلا نہیں ہے ۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 55495 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.