تعلیمی اداروں میں پروان چڑھتا ”شارٹ کٹ کلچر“....طلباءکیلئے زہرِ قاتل

ایک زمانہ تھا جب علم حاصل کرنے کیلئے آج کل کی طرح منظّم تعلیم گاہیں نہ تھیں۔ اساتذہ کسی ایک ادارے سے منسلک نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی طلباءکے داخلوں (Admissions) کا کوئی طے شدہ طریقہ کار تھا۔ کوئی مقرر نصاب (Syllabous)بھی نہیں تھا جس کے مطابق پڑھانا ضروری ہوتا۔ طالب علم اپنے ذوق اور ذہنی رجحان کے مطابق کسی فن یا علم کا انتخاب کرتا اور پھر اس فن یا علم کے ماہر اُستاذ کی جستجو میں میلوں مسافتیں طے کرتا تھا۔ مختلف علوم کئی منتشر جگہوں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ طالب علم علمی سفر میں پیش آنے والی صعوبتوں اور کلفتوں کو کشادہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں پختہ کار لوگ اور ماہرینِ علوم وفنون پیدا ہوتے تھے، جو دنیا پر اپنے علم وکردار کی دھاک بٹھادیتے تھے۔ یہ سلسلہ ماضی قریب تک جاری رہا۔

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ انسان نے اپنی سہولت کے پسند طبیعت کی تسکین کیلئے مشینری اور آلات کے انبار لگا دیئے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی نِت نئی راہیں متعارف کروائی جارہی ہیں۔ دنیا اپنی تمام تر وُسعتوں کے باوجود سمٹ کر ایک گاؤں (Global Villege)بن چکی ہے، لیکن سائنسی ترقی نے معاشرے میں مثبت تبدیلیوں (Positive Changes)کے ساتھ ساتھ منفی اثرات (Nagative effects)بھی چھوڑے ہیں۔ لوگوں کا محنت اور جفاکشی سے عاری ہونا اور سہولت کا دلدادہ ہونا انہی منفی اثرات کا شاخسانہ ہے۔

عصرِ حاضر کی برق رفتاری کے پیشِ نظر طلباءبھی سہولت پسندی میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ”شارٹ کٹ کلچر“ پروان چڑھ رہا ہے۔ مطالعے کے ذوق میں نمایاں کمی آئی ہے۔ غیر نصابی کتب کے مطالعے کی نوبت آنا تو درکنار درسی اور نصابی کتب بھی قاری کی عدم توجہی پر نوحہ کناں ہیں۔ انہیں کوئی پڑھنے والا (Reader)میسّر نہیں اور جو ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں حقیقی خواندہ افراد (Real educated persons)کم اور ڈگری بردار (Digree holders)بے شمار ہیں۔ ان حالات میں ملک کی ترقی کے محض خواب ہی دیکھے جاسکتے ہیں، ان کا شرمندہ تعبیر ہونا بظاہر مشکل ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)کا خاصہ ہے لوگوں کے جذبات اور ہر نوع کی خواہشات کی تسکین کا سامان مہیا کرکے زیادہ سے زیادہ منافع (Benifit)جمع کیا جائے چنانچہ طلباءکی سہولت کے پیشِ نظر بعض پبلشرز (Publishers)مختصر کتابچے چھاپتے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ ان کتابچوں میں سے بعض پانچ دس سالہ امتحانی پرچہ جات کے حل (5/10 years Solved papers)پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض نوٹس ہیں جن میں نصابی کتابوں سے چندہ اقتباسات (Extracts)(امتحانی مقامات) جمع کئے جاتے ہیں۔ طلباءان کتابچوں کو ہاتھوں ہاتھ خریدتے ہیں نتیجةً اصلی کتب سے تعلّق ختم ہوچکا ہے اور محض امتحان میں پاس ہوجانا طلباءکا مطمحِ نظر بن چکا ہے۔ حصولِ علم کے جذبات معاشرے سے عنقاءہوتے جارہے ہیں۔ نوجوان علوم کے حصول اور ان میں مہارت حاصل کرنے کے بجائے محض ڈگری حاصل کرنے کی دوڑ میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے مذکورہ حل شدہ پرچہ جات (فائیو ایئر یا ٹِن ایئر) (5/10 Year solved papers)اور ”چُنیدہ“ نوٹس دیکھنے کا موقع ملا۔ شروع میں ان کتابچوں میں جا بجا غلطیاں پائیں مگر نظر انداز کردیا لیکن ذہن میں ایک گونہ خلش باقی رہی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انٹر بورڈ اور یونیورسٹی کے نصاب سے متعلّق شائع شدہ کتابچے نظر سے گزرے تو معلوم ہوا کہ اختصار اور سہولت کی فراہمی کی آڑ میں علم کے ساتھ بدترین زیادتیاں کی گئی ہیں۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں تو تھیں ہیں مگر بہت سے مقامات پر فنی اغلاط بھی دیکھی گئیں۔ لال روشنائی والے قلم سے غلطیوں کو نشان زد کرتا رہا نتیجةً میرے پاس موجود امدادی کتابچوں کے اوراق (helping books)پانی پت کے میدان کا منظر پیش کرنے لگے۔

عہدِ حاضر کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ طلباءنصابی کتب کی طرف توجہ دینے سے گریزاں ہیں لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نصابی کتابوں کی جگہ لینے والے ”نوٹس“ بھی علم کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں۔ وہ کتابیں جن میں قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کا ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے، ان کی تیاری بہت احتیاط کی متقاضی ہوتی ہے۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر حکومت نے ہر بڑے شہر میں رجسٹرڈ مصححین مقرّر کیے ہیں۔ اشاعتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ مذکورہ کتب کے مسوّدوں پر نظرِ ثانی کروائیں اور متعلّقہ مصححین حضرات سے نسخہ جات کی صحت کی تصدیق کروائیں لیکن ”شارٹ کٹ“ علم کا سودا بیچنے والے ناعاقبت اندیش پبلشرز اس اہم ذمّہ داری (Responsibility)سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں اور بغیر نظرِ ثانی کے کتابچوں کی چھپائی کا عمل جاری ہے۔ آیات اور احادیث کے الفاظ میں جابجا غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ان کاروباری اداروں کی غیر ذمّہ داری کا نتیجہ ہے۔ نگران ادارے اس نازک مسئلے سے بے خبر اپنی خرمستیوں میں گُم ہیں اور ملک میں ”جہالت فروشی“ کے بازار سجے ہوئے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، جو چاہو، جس طرح چاہو، چھاپ دو اور بانٹنا شروع کردو۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال کے باوجود ہم درخشاں مستقبل (Bright future)کے خواب دیکھتے نہیں تھکتے۔

تعلیمی اداروں کے نصاب کی تیاری کے دوران ماہرین کو بہت مشقّت طلب مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ معاشرے اور ملک کی سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی ضروریات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ایک نصاب طے کرتے ہیں تاکہ اس مقرّرہ نصاب کو دیانتداری سے پڑھ کر نوجوان ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکیں اور ان میں آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو تاکہ ملک کی ترقی اور وقار میں اضافہ ہو، مگر افسوس یہ ہے کہ ہم علم کے گنجِ گراں مایہ کو نظر انداز کرکے اختصار پسندی کی لت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

مقرّرہ نصابی کتب سے بیگانگی نا صرف یہ کہ ہمارا ذاتی نقصان ہے بلکہ یہ پوری قوم سے خیانت کے مترادف ہے کیونکہ ”شارٹ کٹ کلچر“ کی پیروی سے ڈگری بردار (علم ودانش سے تہی دست) تو تھوک کے حساب سے پیدا ہوں گے مگر اہلِ علم اور ماہرین کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔ مستقبل میں یہی ڈگری بردار ملک کے اربابِ بست وکشاد قرار پائیں گے اور قوم کی ”خدمت“ کریں گے جیسا کہ گذشتہ تین دہائیوں سے ہماری قوم کی ”خدمت“ کی جارہی ہے۔

ان امدادی کتابچوں پر تکیہ کرنا طلباءمیں علمی صلاحیتوں کے نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ ان کی وجہ سے طلباءاور اساتذہ کے درمیان فاصلے بڑھے ہیں اور ان کتابچوں کے شائع ہونے کے بعد تعلیمی میدان میں کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوئی بلکہ زوال آیا ہے۔ اگر کچھ دیر کیلئے ان نوٹس کے وجود کو طلباءکے لئے ناگزیر مان بھی لیا جائے تو بھی ان کی تصحیح سے قطع نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اربابِ نظر اور نگران اداروں کو چاہیے ان شائع کنندگان (Publishers)کو مذکورہ امدادی کتب کے مسوّدوں کی قبل از اشاعت پروف ریڈنگ کروانے کا پابند بنائیں اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آئندہ کوئی اشاعتی ادارہ اس نوع کی علمی خیانت کا ارتکاب نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلباءمیں نصابی کتب کی اہمیت کا شعور بیدار کریں اور اُن امدادی کتابچوں پر بھروسہ کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔
Farhan Ahmed
About the Author: Farhan Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.