سچی محبت کا تقاضہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
ماہ ربیع الاول آچکا ہے ۔۔۔اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے ۔

گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی جیسے جیسے 12 ربیع الاول کا دن قریب آتا جائے گا لوگوں کے جوش خروش میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔

اور لوگ مختلف طور طریقوں سے کہیں محافل کا انعقاد کرکے تو کہیں جلسے جلوس کرکے تو کہیں اپنے گھروں ،مسجدوں اور علاقوں میں جھنڈے لگا کے اوررنگ برنگی لائیٹیں لگا کرچراغاں کرکے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے ۔

یوں تو دنیا میں خوشیاں منانے کے بہت سے طریقے ہیں۔کہیں خوشی منانے کے لئے ہلہ گلہ کیا جاتا ہے۔کہیں خوشی منانے کا اظہار پٹاخے چلا کر،ایک دوسرے پر رنگ پھینک کرکیا جاتا ہے۔ اور کہیں خوشی منانے کا اظہار کے لئے مختلف طریقوں سے موسیقی وغیرہ کی پارٹیوں کے انعقاد سے کرتے ہیں۔

مسلمانوں کے دوخوشیوں کے تہوار (عید الفطر اور عید الضحیٰ) میں ایک بات مشترک ہے ۔ایک تو دن کا آغاز ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت سے کرتے ہیں (یعنی نماز عید ادا کرتے ہیں)اور دوسری خاص بات یہ ہے کہ اسلام ہمیں اپنی خوشیوں میں اپنے غریب بھائیوں کو بھی شامل کرنے کا درس دیتا ہے۔یعنی عید الفطر پر ہم زکوة اور فطرہ ادا کرتے ہیں تو عید الضحیٰ پر ہم قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

مگر ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم اپنے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کس طرح مناتے ہیں؟

حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پرلوگ رنگ برنگی لائٹیں،جگہ جگہ جھنڈے،جھنڈیاں اور لنگر ،سبیلیں وغیرہ وغیرہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

لیکن کیا واقعی یہ طریقے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کے اظہار ہیں؟

یہاں کئی پہلو سامنے آتے ہیں ۔جن کو ہم پیش کرنا چاہیں گے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ )اٰ ل عمران31-32 پارہ 3
(ترجمہ :کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ،خود اللہ تم سے محبت کرے گا،اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا ،اللہ بڑا بخشنے ولامہربان ہے ،کہدے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)

ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ نے فیصلہ کردیا جو شخص اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے ،اس کے اعمال ،افعال،عقائد فرمان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہوں ،طریقہ محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم پر کار بند نہ ہوتو وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے۔

یعنی اگر دنیا کا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوے دار ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔

(مطلب یہ کہ محبت کے دعوے دار کے لئے اطاعت محبوب ضروری ہے۔اس کے بغیر محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے)

آپ نے اکثر وضو خانے پر ایک حدیث پاک پڑھی ہوگی ۔جس کا مفہوم ہے ”وضو کے لئے پانی کا ضیاع اسراف ہے ،چاہے بہتی نہر ہی کیوں نہ ہو“

ہمارے بہت سے مسلمان بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی دولت سے نوازا ہے ۔ہم غریبوں کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں اوراگر ہم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی پر تھوڑا بہت مال خرچ کرلیں گے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟

لیکن اس بات کو سمجھیں ”وضو“ فرض ہے۔

”پانی“ معمولی چیز ہے۔

”بہتی نہر“یعنی اتنی بہتات جس کی کوئی حد نہیں۔

تو فرض کی ادائیگی میں بھی پانی جیسی معمولی چیز اور وہ بھی اتنی بہتات سے کہ جس کی کوئی حد نہ ہو پھربھی ہمارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق ”اسراف“ ہے(یعنی فضول خرچی ہے)

تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی پر یہ رنگ برنگی لائیٹیں لگانا،جھنڈے ،جھنڈیاں لگانا،لنگر اور سبیلیں لگانے پر جو لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں کیا یہ اسراف نہیں؟

کیا یہ سب طریقے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہیں؟

کیا ہم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ناواقف ہیں؟

کیا ہم نہیں جانتے کہ ہمارے پیارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کن اعمال پر خوشی فرماتے تھے ؟

کیا ہم لوگ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے دو خوشی کے تہوار(عید الفطر اور عید الضحیٰ) پر ہمارے لئے کیا احکامات ہیں کہ ہم کس طرح خوشی منائیں؟

ہمیں ہمارا دین اسلام دونوں خوشی کے تہوار پر خصوصی طور پر اپنے غریب بھائیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک رکھنے کا درس دیتا ہے۔لیکن ہم نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کس طرح مناتے ہیں کہ جس میں ظاہری نمود اور نمائش کی جاتی ہے ؟

حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر یہ تمام اہتمام کرنے والے مسلمان بھائیوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ پورے سال ہم نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی انکھوں کی ٹھنڈک نماز کا کتنا اہتمام کرتے ہیں؟

پورے سال حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر کتنے عامل ر ہے ہیں؟

یہ اہتمام کرنے والے مسلمان بھائی پورے سال ٹی وی کیبل سے کتنا اجتناب کرتے ہیں؟

پورے سال کتنے حقوق العباد پورے کرتے ہیں؟

یقینا بہت کم مسلمان بھائیوں کے پاس ان سوالات کے جوابات موجود ہوں گے۔

یہ کیسی محبت کا دعویٰ ہے ،کہ ہم سارا سال نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں ٹھنڈک (نماز)کا اہتمام نہ کریں لیکن 12 ربیع الاول پرصرف جھنڈے، جھنڈیاں ،رنگ برنگی لائیٹیں لگا کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عاشق بن جانے کا دعویٰ کریں؟

سارے سال حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو نظر انداز کر کے حقوق العباد اداد نہ کریں،ٹی وی کیبل دیکھیں اور سال میں ایک دفعہ لنگر اور سبیلیں لگا کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے دار بن جائیں؟

یہ کیسی محبت ہے ؟

ایک بیٹا اپنے باپ سے کہتا ہے کہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں ۔

باپ کہتا ہے بیٹا مجھے بھوک اور پیاس لگ رہی ہے مجھے کچھ کھانے پینے کے لئے لادو ۔

بیٹا باپ کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر ، مگر پورے محلے میں اپنے باپ کے نام سے لنگر کرواتا ہے ،پانی اور شربت کی سبیلیں لگواتا ہے۔تاکہ سارے محلے کو پتہ چل جائے کہ یہ بیٹااپنے باپ سے کتنی محبت کرتا ہے ؟

باپ کہتا ہے کہ بیٹا میرے کپڑے پھٹ گئے ہیں ،میرے لئے کپڑے لادو ۔

لیکن بیٹاباپ کو پھٹے پرانے کپڑوں میں چھوڑ کراپنے باپ کی سالگرہ پر پورا گھر سجاتا ہے ،اور پورا محلہ جھنڈیوں سے بھردیتا ہے،اپنے باپ کے نام کے جھنڈے پورے محلے میں لگوادیتا ہے تاکہ پورا محلہ دیکھے کہ یہ بیٹا اپنے باپ سے کتنی محبت کرتا ہے؟

باپ یہ کہے بیٹا میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے ،میرے پیر دبا دو یا میرے لئے دوائی لا دو ۔

لیکن باپ کے بار بار یاد دہانی کے باوجود،باپ کو درد تڑپتا دیکھنے کے باوجود ،بجائے باپ کے لئے دوائی کا انتظام کرتا،باپ کے ہاتھ پیر دباتا۔لیکن اپنے باپ کی سالگرہ پراسٹیج پرپورے محلہ کے سامنے اپنے باپ کی محبت میں ایسی تقریر کرتا ہے کہ سارے محلے کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا ہو تو ایسا؟

ہمیں اپنا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارا حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ایسا ہی تو نہیں ؟

ایک طرف ہم ”زبانی “ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے دار ہیں۔

تودوسری طرف ہماری زندگیاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی فرما برداری سے خالی ہیں؟

یقیناحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے موقعہ پر لوگوں کے یہ اہتمام کرنااللہ تعالیٰ کی رضا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خوشی کے لئے ہوتے ہیں۔

ایک طرف ہم اپنے گھر میں کسی کی بھی خوشی مناتے وقت اس کی خوشی کا خیال رکھتے ہیں ۔۔۔اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے جس کی خوشی منائی جارہی ہے ۔

لیکن دوسری طرف ہم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہی تعلیمات کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے مطابق خوشیاں مناتے ہیں۔

آخرہم یہ سب کر کے کس کو دکھاتے ہیں ؟ کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں؟

اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کردیا ؟

میرے مسلمان بھائیوں دوستو اور بزرگو!

دنیا میں کسی سے محبت کے زبانی دعوے کرنے کا اعلان آسان ہوتا ہے

لیکن دنیا کی نظروں سے اوجھل اپنے محبوب کی اطاعت مشکل ہوتی ہے۔

اپنا مال ظاہری نمود و نمائش کے لئے خرچ کرنا آسان ہوتا ہے

لیکن اس مال کو سب سے چھپا کراپنے محبوب کی رضا کے لئے خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے

اگر آپ لوگ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی پر یہ تمام اہتمام
اسلام کے اصولوں کے مطابق ہیں تو آپ نیچے بیان کئے ہوئے طریقے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں کہ آپ کا یہ عمل درست ہے یا نہیں ۔آپ کو جو جواب ملے آپ اس کو اپنالیجیے۔

ہمیں ہر ایک اسلامی حکم کو پورا کرنے میں ہمارے نفس کوایک مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے۔

جیسے فجر کی نماز کے وقت نیند سے اٹھنے میں.......یا نماز کے دوران اپنی تمام توجہ نماز پر مرکوز کرنے میں....یا دعا مانگتے وقت اپنی توجہ رب کریم کی طرف رکھنے میں ........یا سجدے میں سر رکھ کر سچی توبہ کرنے میں......یا روزے کی حالت میں سارے دن اپنے غصے کو قابو کرنے میں اور سارے دن جھوٹ ،دھوکہ اور غلط کاموں سے بچنے میں...... یا کبھی کسی کمزور کو اپنے سامنے بے بس پاتے ہوئے صرف اس لئے کہ ہمارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کمزور پر ظلم اور زیاتی کو منع فرمایا ہے صرف یہ سوچ کر اپنے سے کمزور یا اپنے ماتحت سے غصے پر قابو کرکے اچھا سلوک کرنے میں نفس کی جو کیفیات ہوتی ہیں ،ہم جن مشکلات سے گذرتے ہیں اگر آپ سب کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ولادت کی خوشی پر یہ سب اہتمام کرنے میں ایسی ہی کیفیات ہوتی ہیں یا آپ کا نفس ایسی ہی مشکلات سے گزرتا ہے توآپ سب کو مبارک ہو کہ آپ لوگ شیطان کو اپنا سر پیٹنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اور آپ کے ان اہتمام سے اللہ تعالیٰ اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں۔

کیوں کہ یہ بہت آسان سی بات ہے کہ جتنے بڑے اجر و ثواب کا خالص شرعی حکم ہوتا ہے ،شیطان کی اتنی ہی بھر پور محنت ہوتی ہے امت کو اس حکم کو پورا کرنے سے روکنے کے لئے جس کا احساس ہر مسلمان کر سکتا ہے اور جب مسلمان اس شرعی حکم کو پورا کرتا ہے تو پھر شیطان نہ صرف اپنا سر پیٹتا ہے بلکہ غمگین اور اداس ہوجاتا ہے ۔

لیکن اگر آپ لوگوں کو ان تمام اہتمام کے لئے ایسی کوئی کیفیات نہیں ہوتیں ،آپ کے نفس کو ایسی کوئی مشکلات نہیں پیش آتیں تو پھر یہ بڑی فکر کی بات ہے ۔

ہمارا حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی اس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم اپنے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عامل نہیں بن جاتے۔

عشق اور محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اپنی ذاتی پسند نا پسندکو بالائے طاق رکھ کر ،اپنی ذات کو بھلا کرجی جان سے اپنے محبوب کی اطاعت کی جائے، محبوب کو راضی اور خوش کیا جائے۔

پھر محبوب کے ہر حکم کی اطاعت میں سچے عشق کی جھلک ہوگی جویقینا کسی دعوے کی محتاج نہیں ہوگی ۔

یاد رکھیے! گلاب کو کبھی بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ میں گلاب ہوں بلکہ گلاب اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کی توفیق عطاءفرمائے۔آمین ثمہ آمین
Nasir Noman
About the Author: Nasir Noman Read More Articles by Nasir Noman: 14 Articles with 13104 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.