غیر ملکی طاقتیں کب تک ہند-پاک میں اپنی روٹیاں سیکیں گی؟

بر صغیر ہند-پاک کی تاریخ گواہ ہے کہ درہ خیبر ہر دور میں برصغیر پر حملہ آور ہونے والی اقوام اور افواج کیلئے دروازے کا کام ہی نہیںدیتا رہا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز بھی رہا ہے۔پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر پشاور سے چند میل دور ، 33 میل طویل یہ درہ اونچے اونچے خشک اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک جگہ تو چوڑائی محض دس فٹ ہے۔ تاریخ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے برصغیر میں شمال مغرب کی طرف سے جتنے فاتح آئے۔ اسی راستے سے آئے۔ درہ خیبر جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم تک چلا گیا ہے جو پاک افغان سرحد کی آخری چوکی ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں ہندوستان کے مغلوں اور ایران کے صفویوں کے مابین اس علاقے پر اپنا تسلط جمانے کی سرد جنگ جاری رہی۔ ہندوستان میں انگریزوں نے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کرکے برطانوی اقتدار قائم کردیا تو اس عرصہ میں زارِ روس بھی گرم پانیوں کی تلاش میں مشرق اور جنوب کی مسلم ریاستوں پر قبضہ کرتے کرتے دریائے آمو تک پہنچ گئے۔ انگریز ہندو کش سے ادھر اور روس آمو دریا کے پار کھڑا تھا۔دونوں نے اس ملک پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی۔ برطانیہ نے تو تین جنگیں بھی لڑیں جن میں سے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بالآخر اسے افغانستان کی آزادی کو تسلیم کرنا پڑا اور یوں اس برصغیر ہندو پاک میں اپنی ’حیات مستعار‘ کے باقی ایام قدرے سکون سے گزارے۔یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے اس کے کس بل نکال دئیے۔نو آبادیات سے اس کا شکنجہ ڈھیلا پڑ گیا اور اسے بالآخر ہندوستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ انگریزوں نے 1879میں اس پر قبضہ کیالیکن جاتے جاتے اس خطہ میں ’پھوٹ‘ کی ایسی فصل بوگئے جو آج تک غیروں کیلئے روٹی سیکنے کا ذریعہ بنی ہوئی۔ سرحدوں کے دونوں جانب غیرملکی شری عناصر کا یہ اثر ہے کہ فوجی جنرلو ںنے پاکستان کو اقتصادی ترقی کی راہ پر لے جانے کے نام پر ایوب خان نے1958کے دوران ،یحیی خان نے1969کے دوران ، ضیاءالحق نے1977کے دوران اور پرویز مشرف نے1999میں اقتدار حاصل کرکے پاکستان کی نصف تاریخ پر حکومت کی ہے ۔پرویز مشرف نے جنرل کیانی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ 28 نومبر 2008کو صدر مشرف کے وردی اتارنے کے ساتھ ہی راولپنڈی میں ایک رنگا رنگ تقریب میں جنرل کیانی چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز ہو گئے جہاں مشرف نے چیف کی چھڑی کیانی کو تھما دی۔مارچ 2009میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے معاملے پر آصف علی زرداری کی قلابازیوں کے باعث وکلاءاور اپوزیشن جماعتوں نے لانگ مارچ کیا اس دوران آپ کے پاس اپنے پیشروؤں کی طرح’ میرے عزیز ہم وطنوں ‘ کہنے کا بہترین موقع تھا لیکن سیاسی حلقوں کے بقول انھوں نے اس سے اجتناب کیا۔ تازہ واقعات میں جنرل کیانی اقتدارپر قابض کرنے کی ہمت اس خوف سے نہیں کر پا رہے ہیں کہ ان کے عوام فوجی حکمرانی کو منظور نہیں کریں گے جبکہ پاکستان کے آئین میں ہمیشہ فوجی اقتدار کو اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے جنرل اکثر وہاں کی سیاست پر حاوی ہوتے رہے ہیں لیکن ان جنرلوں نے بالآخر اپنا اقتدار بچانے کیلئے پاکستان کوتباہی کی طرف ہی دھکیلا ہے جس کا خمیازہ بھگتا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں جب بھی جمہوری حکومت قائم ہوئی ہے ، سیاستدانوں نے پاکستانی عوام کو جمہوری آزادی کے جھانسے میں رکھا اور غیر ملکی بینکوں میں اپنے وارے نیارے کئے ہیں۔ بے نظیر کے مارے جانے کے بعد 2008 کے اگست میں جمہوری انتخابات تو ہوئے لیکن اس کے نتائج کو نظرانداز کرکے پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب واشنگٹن میں ہوا۔ جنرل مشرف کے دور اقتدار میں جیل کی سزا جھیل چکے آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ہمدردی حاصل کی اور پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تو ’مسٹر ٹین پرسینٹ‘ کے نام سے بدنام زمانہ زرداری کو معاہدے کے تحت صدر بنایا گیا اور نیشنل ری کانسی لیشن آرڈنینس عرف این آر او جاری کروا کے خود پرعائد تمام الزاموں کی کوئی تحقیقات نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا۔

لیکن 2009 میں پاکستان سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو منسوخ کر دیا اور وزیر اعظم گیلانی کو نوٹس دیا کہ زرداری سمیت تمام آٹھ ہزار افراد کے خلاف تحقیقات کی رپورٹ پیش کرے۔ زرداری کے سوئس بینک کے اکاؤنٹس کی جانچ کا مطالبہ شروع کرنا فطری تھا کہ آصف علی زرداری اور گیلانی تلملا گئے۔ اس سے پہلے گزشتہ سال مئی کے دوران ہی اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد جنرل کیانی کی تختہ پلٹ کی کوششوں کی بھنک زرداری کو لگی تو انہوں نے امریکی صدر کو ایک میمو بھیج کر خفیہ تجویز پیش کی کہ وہ پاکستان کی قومی سلامتی کونسل میں ایسی ردوبدل کر دیں گے جس سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی ’مزیدگہری‘ ہوجائے۔در اصل زرداری اور گیلانی نے یہ تجویز پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنا اقتدار مضبوط کرنے کیلئے پیش کی تھی۔

پاکستان میں سیاستدانوں اور جنرلوں کے درمیان ایسے ہی رشتوں کی تاریخ کا کم و بیش گزشتہ چھ دہائیوں سے رہی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کو تین مراکز یعنی اللہ والے ، امریکہ اور آمر چلاتے رہے ہیں۔ آج بھی پاکستان کے اقتدار میں ان تینوں مراکزکا اہم رول اجاگر ہو رہا ہے۔ ان تینوں مراکز کے علاوہ چوتھا مرکز یعنی عوام یا اسمبلی کا نام کہیں نہیں آتا ہے۔ پاکستان میں تازہ جھگڑے کی جڑ میں ایک اور مرکز یعنی ’القاعدہ‘ کا ہوا کھڑا کیا گیاہے جس کے لیڈر’ اسامہ بن لادن‘ کی پراسرار’موت‘ کے بعد جنرل کیانی نے اقتدارپر قابض ہونے کے بارے میں سوچا اور اسے روکنے کیلئے صدر زرداری نے امریکہ سے فریاد کی تھی۔

پاکستانی پارلیمنٹ صرف گھریلو لا اینڈ آرڈر اور اقتصادی مسائل پر گفتگو کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتی۔ ہندوستان کو جب ایم ایف این کا درجہ دینے کی بات آئی تو رپورٹوں کے مطابق جنرل کیانی اور جنگجوتنظیموں نے اس کا سخت احتجاج کیا اور پاکستانی کابینہ کی طرف سے جاری تجویز کو واپس لے لیا گیا۔ عام پاکستانی عوام ہمیشہ ہی ہندوستان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں۔ وہاں ہندوستانی ادادکاروں ، گلوکاروں ، صارفین کی مصنوعات وغیرہ کی مقبولیت دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ پاکستانی عوام ہندوستان کے دیوانے ہیں لیکن جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے پاکستانی حکمرانوں کو ہمیشہ ہی اپنی کرسی بچانے کیلئے فوج اوربیرونی آقاؤں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔

کہتے ہیں کہ پاکستان کے انتخابات میں سخت گیر جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کا فی صد کچھ بھی ہو لیکن سرکاری لیڈر ہمیشہ انکل سام کے غلام بنے رہتے ہیں جبکہ انکل سام ہندوستان کی مخالفت کی آگ جلائے رکھ کر وہ اپنا تسلط مضبوط کرنے کا بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں آج فوج کے اقتدارپر قابض ہونے کی تشویش اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ بدعنوانی میں ڈوبے وہاں کے سیاستدان حکومت نہیں چلا پا رہے ہیں۔ صدر زرداری پر بھلے ہی کئی طرح کے الزامات لگے ہوں لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے ہندوستان کے ساتھ دوستی کے جو اقدامات کئے وہ انکل کو پسند نہیں آئے۔ زرداری کو وزیر اور وزیر دفاع کی پالیسی پر بولنے سے روک دیا گیا حالانکہ پاکستان کی قومی سلامتی کونسل کی صدارت صدر ہی کرتے ہیںلیکن اس کونسل میں فوج کے سربراہ کی ہی چلتی ہے اس لئے پاکستان کا صدر یا وزیر اعظم فوج کو نظر انداز کرکے کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتا۔

انکل کی طاقت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل کیانی نے ریٹائر ہونے کے بعد تین سال کیلئے اپنی مدت کارآسانی سے بڑھوا لی۔آرمی چیف کو انفینٹری بٹالین سے کور کمانڈنگ تک کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔2001 اور2002 میں جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیاں سخت کشیدگی تھی تو اس وقت وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تعینات رہے۔سابق نان کمیشنڈ فوجی افسر کے بیٹے اشفاق پرویز کیانی کو فوج میں ایک پیشہ ور جنرل کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنماؤں سے ان کا قریبی رابطہ رہا۔پاکستان کے آرمی چیف امریکہ میں بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں تعینات رہے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ امریکی فوج میں ان کی خاصی جان پہچان ہے۔ پاکستان کی جمہوری حکومت پر سے اگر فوج کا سایہ ہٹانا ہے تو اسے قومی سلامتی کونسل سے باہر رکھنا ہوگا۔ جیسا کہ ایک جمہوری ملک ہندوستان میں ہوتا ہے ، سکیورٹی معاملات پر کوئی بھی فیصلہ اس سے متعلق کابینہ کی کمیٹی ہی لیتی ہے جس میں وزیر خزانہ ، وزیر ، داخلہ اور دفاع محکموں کے وزیر شامل ہوتے ہیں۔ تازہ واقعات میں ایک اہم بات یہ اجاگر ہوئی ہے کہ پاکستانی میڈیا کو عوام کی خواہش منوانے میں کامیابی ملی ہے کہ ملک ایک اور فوجی حکومت برداشت نہیں کرے گا۔ اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ مستقبل کا پاکستان عوام کے کہنے پر چلے گا اور عوام کی خواہش کے مطابق ہندوستان کے ساتھ دوستی کی راہ پر آگے بڑھے گا۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116432 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More