ہندوستان میں ٹی بی کی ادویات غیر موثر کیوں؟

ایک اندازے کے مطابق ٹی بی سے ہر سال پوری دنیا میں لگ بھگ سترہ لاکھ افراد ہلا ک ہو جاتے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہندوستان میں ٹی بی سے متاثرہ افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہاں تقریباً ایک ہزار افراد روزانہ اس بیماری کے باعث ہلا ک ہو جاتے ہیں۔گذشتہ برس کے اختتام پر ٹی بی کی فوری تشخیص میں حیرت انگیز پیش رفت منظر عام پرآنے کے بعدآج ہندوستانی ڈاکٹروںنے مایوس کن انکشاف کیا ہے کہ ملک میں ٹی بی کے ایسے کیس سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جن کے خلاف تمام ادویات غیر موثر پائی جا رہی ہیں۔ پھیپھڑوں کی اس خطرناک بیماری کے حوالے سے یہ خدشات طویل عرصے سے ظاہر کئے جا رہے تھے۔یہ پہلا موقع نہیں کہ ادویات کے خلاف اس حد تک مدافعت رکھنے والے کیس سامنے آ رہے ہیں۔ 2003میں اٹلی اور ایران میں بھی تپ دق کے کچھ کیس رپورٹ ہوئے تھے جو ادویات کے خلاف شدید مدافعت کے حامل تھے۔ تپ دق کے زیادہ تر مریض ایسے علاقوں میں دیکھے گئے ہیں جہاں بھوک اور افلاس ہو۔ حالانکہ ماہرین کے مطابق اس مرض کے پھیلنے کے سلسلے کو روکا جا چکا ہے تاہم پولیو کی طرح تپ دق کے متعدد مریض آج بھی سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ٹی بی کی یہ نئی قسم ہندوستان سے دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلنے کے امکانات انتہائی معدوم ہیں کیوں کہ یہ بیماری مریض کے انتہائی قریب رہنے والے افراد ہی کو منتقل ہو سکتی ہے۔ٹی بی کی اس نئی قسم کے حوالے سے صحت عامہ کے شعبے سے منسلک افراد اب اس بحث میں مصروف ہیں کہ آیا اس مرض کو ادویات کے خلاف ’مکمل مدافعت کا حامل‘ قرار دے دیا جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے یہ رائے اب تک تسلیم نہیں کی ہے اور تپ دق کی اس قسم کو ادویات کے خلاف ’زیادہ مدافعت کا حامل‘ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم جینیوا میں ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر پال نون کا کہنا ہے کہ بہرحال ایسے کیس بھی موجود ہیں جن میں مرض کے خلاف کسی قسم کی کوئی دوا موثر نہیں ہوتی۔

واضح رہے کہ ہندوستان میں تپ دق کی اس قسم کے شکار متعدد مریضوں پر ہر طرح کی ادویات آزمائی گئیں، تاہم کوئی بھی دوا موثر ثابت نہ ہوئی۔ امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن CDC's کے ایک ماہر ڈاکٹر کینتھ کیسٹرو کے مطابق ان نئے کیسوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی بی کی بیماری اس وقت موجود تمام تر ادویات کے خلاف مکمل مدافعت کی حامل ہوتی جا رہی ہے۔ کیسٹرو کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے اس بیماری کے کسی وبائی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی اس پر قابو پایا جا سکے ورنہ اثرات اور نتائج ہولناک ہو سکتے ہیں۔تپ دق کا عام مرض اینٹی بائیوٹک کے چھ سے نو ماہ تک استعمال کے نیتجے میں مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر اس درمیان دوا کم کی جائے یا روک دی جائے تو یہ بیکٹریا جسم کے مدافعتی خلیات کو شکست دیتا ہوا ایک مرتبہ پھر پورا زور پکڑ لیتا ہے، پھر اس پر دوبارہ پرانی دوا کا اثر نہیں ہوتا۔ دوبارہ علاج کروایا جائے تو یہ زیادہ مہنگا اورطویل ثابت ہوتا ہے۔

ہندوستانی شہر ممبئی کے مختلف ہسپتالوں میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران تپ دق کے 12 ایسے مریض لائے جا چکے ہیں جن پر عام ادویات کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا ہے۔ یہ تمام افراد وہ تھے جنہوں نے اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد علاج کروایا مگر اسے ادھورا ہی چھوڑ دیا، جس کے بعد مرض نے مزید شدت اختیار کر لی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مرض کے پھیلنے میں معالجین کا غیر معیاری علاج بھی ایک وجہ ہے۔

اس سے قبل اطلاعات کے مطابق ٹی بی کی فوری تشخیص میں حیرت انگیز پیش رفت ہوئی جس کے مطابق ہندوستانی محقیقین کے مطابق وہ سانس کے ذریعے سونگھ کر ٹی بی کی تشخیص کرنے والے آلے الیکٹرک نوز کی تیاری کے بہت قریب ہیں۔ اس آلے کی تیاری کے بعد ٹی بی جیسے موذی مرض کی جلد تشخیص سے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو بچایا جا سکے گا۔الیکٹرک نوز نامی یہ آلہ بیٹری سے چلے گا۔ اس کی ساخت بالکل اس آلے کی طرح ہے جو پولیس جسم میں الکوحول کی مقدار جانچنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پولیس کو اگر شبہ ہو جائے کہ کوئی شخص شراب پی کر ڈرائیونگ کر رہا ہے تو وہ اس سے ایک سیٹی جیسے آلے میں پھونک مارنے کا کہتے ہیںجس سے فوری طور پر جسم میں الکوحول کی مقدار معلوم ہو جاتی ہے۔ تاہم الیکٹرک نوز میں پھونک مارنے کی بجائے مریض سے سانس لینے کا کہا جائے گا۔الیکٹرک نوز میں نصب سینسرز کسی بھی فرد کی سانس سے اس میں تپ دق کے مرض کی نشاندہی کر لیں گے جس کی بدولت فوری اور درست تشخیص ممکن ہو سکے گی۔ ای نوز انٹرنیشنل سینٹر فار جینیٹک انجینئرنگ اینڈ بائیو ٹیکنالوجی نیو دہلی اور نکسٹ ڈائمنشنز ٹیکنالوجیز کیلی فورنیا کی کاوشوں سے تیار کیا جا رہا ہے۔اس منصوبے کے سربراہ رانجن نندا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اکتوبر دو ہزار تیرہ تک وہ کلینکل ٹیسٹنگ کیلئے ایک پروٹو ٹائپ تیار کر لیں گے۔ایک اندازے کے مطابق ٹی بی سے ہر سال پوری دنیا میں لگ بھگ سترہ لاکھ افراد ہلا ک ہو جاتے ہیں۔ محققین کے جائزوں کے مطابق الیکٹرک نوز کی تیاری سے ترقی پذیر ممالک میں اس مرض کی جلد اور فوری تشخیص سے ہر سال لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔اس وقت ٹی بی کی تشخیص کیلئے تھوک یا بلغم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں اس مرض کی فوری تشخیص ممکن نہیں اور یہ طریقہ علاج طویل ہونےکے ساتھ کافی مہنگا بھی ہے۔ اس منصوبے کیلئے امریکی فلاحی تنظیم بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤ نڈیشن اور ایک غیر سرکاری تنطیم گرینڈ چیلنجز کینڈا نے پچانوے ہزار ڈالر فراہم کئے ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں ترقی پذیر ممالک میں صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ایک ای نوز کی قیمت بیس سے تیس ڈالر کے درمیان ہو گی اور اپنی ساخت اور بیٹری آپریشن کی بدولت یہ سہولت غریب ممالک کے ان دیہی علاقوں میں بھی دستیاب ہو گی، جہاں بجلی میسرنہیں ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Zainab Zunaira
About the Author: Zainab Zunaira Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.