تعلیم اور ملک کی ترقی

دنیا میں جتنی بھی قوموں نے عروج حاصل کیا ہے ۔ اس کا ذریعہ تعلیم ہی تھا۔ تعلیم چاہے دنیوی ہو یا اُخروی، دونوں کا اثر دنیا پر ہوتا ہے۔ اس بات کی مثال اس دور میں ہمارے سامنے جاپان کی صورت میں موجود ہے۔ جب امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تو اس وقت سارے جاپان مکمل طورپر تباہ ہوچکا تھا۔ اور اس تابکاری کے اثرات اب تک ان کی نوجوان نسل میں پائی جاتے ہیں۔ جاپان کے مکمل تباہ ہونے کے بعد انہوں نے ایک اجلاس منعقد کیا اور اس میں ملک کے بڑے لوگوں کو دعوت دی گئی اور یہ پریشانی سامنے رکھ دی کہ اب اس ملک کا کیا ہوگا یہ دوبارہ کیسے ترقی کی راہ میں گامزن ہوگا۔ تو سب نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ملک میں تعلیم کو اپنی زبان میں عام کردیا جائے۔ اپنی زبان میں تعلیم عام کرنے کا مطلب یہ تھا کہ قوم کو سمجھنے میں آسانی ہو اور 20سے 30سال بعد یہ ملک دوبارہ ترقی کی راہ پر گامز ن ہوگا۔ آج دیکھاجائے جاپان کا شمار دنیا کے بڑے تعلیمی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے سائنس و ٹیکنالوجی میں اس کا مقابلہ کرنے والا ہی کوئی نہیں ۔ ہر روز نت نئی ایجادات کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔

ہماری تعلیم اور باقی ممالک کی تعلیم میں دوفرق ہیں۔ ان کی تعلیم ان کی اپنی ہی زبان میں رائج ہے ان کو صرف وہ کام سیکھنا پڑھتا ہے یعنی محنت صرف اس کام کے لئے کرتے ہیں۔ اور ہمیں دو چیزوں کے لئے محنت کرنی ہوتی ہے ۔ ایک یہ کہ ہمیں انگریزی زبان سیکھنا پڑھتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ کام جسے ہم سیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی اس کے بارے میں جو معلومات وغیرہ ہوتی ہے۔ تو ہمیں ان کی نسبت دوگنی محنت کرنی پڑھتی ہے ۔بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ دوگنی مشقت(خواری)کرنی پڑھتی ہے ۔دوسرا یہ کہ تعلیم میں دوچیزیں ہوتی ہیں ایک تھیوری اور دوسرا پریکٹیکل ،باقی ممالک میں دونوں چیزیں سکھائی جاتی ہیں۔اور زیادہ زور عملی مشق پر دیا جاتا ہے، کیونکہ تعلیم کے بعد ان کو عملی زندگی میں آنا ہو تا ہے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ ہمارے ہاںزور صرف تھیوری پر دیا جاتا ہے ،عملی مشق تو برائے نام سکھایا جاتاہے ۔ ہمارے نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیںتو بمشکل ہی کامیاب ہوپاتے ہیں۔

سب سے اہم کہ آج کل کے دور میں ہمارے ہاں ڈگری حاصل کر نا بہت ہی آسان ہو گیا ہے۔ پیسوں کے زور پر آپ کیا سے کیا نہیں کرسکتے ، آج کل آپ ہر گلی بلکہ ہر مکان میں اسکول کی زیارت کرنا چاہیں تو مشاہداتی حس آپکاساتھ بھی دے توحیرت انگیز ہی نہیں بلکہ فکر انگیز حقیقت سامنے آئی گی۔ اگر نویں اور دسویں جماعت کا داخلہ ہی کو لے لیں ۔تو وہاں موجود صاحب جو یقینا خود کو پرنسپل بتائیں گے، جب آپ ان سے داخلہ کے بابت بات کریں تو آپ کے سامنے مروجہ پیکچ بتائیں گے۔ شرماتے اور فکر کی لو کو بیدار کرتے ہوئے اپنے آپ کوملامت کرتے جائیں کیونکہ ہم ہی اصل اس کردار کے مرکزی رول ادا کرنے والے ہیں ۔ کیونکہ جب تک لوہے کو لکڑ ی کا سہار ا نہ ملے وہ لکڑی کو کبھی نہیں کاٹتا ۔ وہ پیکچز آپ بھی دیکھتے جائیں اگر آپ کا بندہ سکول بھی نہ آئیں اور امتحان بھی نہ دیں گھر بیٹھے Aون گریڈ حاصل کریں ہمارا وظیفہ صرف19000اور امتحان کی ٹینشن سے بھی بچیں توجتنا گڑاتنا میٹھاوالی بات ہوگیاور اگر یہ بھی آپ نہیں کرسکتے تو ایک آسانی اور بھی ہے امتحان آ پ کا بندہ دیگا اور ہمار ا ہاتھ امتحان کے دن اس کے سر پر ہوگایعنی مواد ہم فراہم کریں گے ،یہاں گریڈ کے بارے میں بات نہیں کیاور قیمت بھی الگ ہوگی یہ حال تقریبا سبھی سکولوں بلکہ اب تو کالجوں اور یونیورسٹیوںکی سطح تک پہنچ گیا ہے اور ہمارا ذہن ایسا بنادیاگیا ہے،اگر ایسا نہیں کروگے تو گریڈ حاصل کرنا مشکل ہو جائیگا ۔

اس نظام ِتعلیم پر ہمارے ملک کے نوجوان کیسے ملک کو ترقی کی راہ پے گامزن کرسکیں گے۔ ملک کی ترقی تودرکنار خود بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔1947میں قائداعظم نے ایک ایجوکیشن کانفرنس منعقد کی نظام تعلیم کی واضع تشکیل کے لئے ہدایت جاری کیں۔بد قسمتی سے ہم نے آج تک بنیادی خدوخال بھی واضع نہیں کئے کہ ہم نے کس میڈیم میں تعلیمی نظام کو ڈھالناہے۔ اگر آج ہم نے تعلیم جیسے اہم ترین ایشو پر مکمل اتفاق رائے کیساتھ ایک انقلابی تعلیمی نصاب متعین کرنے میں مزید لیت و لعل سے کام لیا تو آ نے والی نسلیں اس سے بھی بدترین دور کا سامنا کریں گی جو ہمارے لیے ابھی سے باعث عبرت ہونا چاہیے اگر ارباب اقتدار اور ہمارے قانون دان اور وہ عناصر جو خود کو اس قابل سمجھتے ہیں انہیں اپنے آپ کو اس کار خیر کے لیے پیش کرنا ہوگا۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان میں ایسے غیر معمولی صلاحیت سے مالامال رجالِ کار موجود ہیں اور ہماری بدقسمتی کہ ہم اپنی انا اور تعلیمی بے رغبتی کی وجہ سے ان کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں ۔اگر آج بھی ہماری گورنمٹ دینی مدارس سمیت دیگر تمام تعلیمی اداروں کی مشاورت سے اپنا مستقل تعلیمی نظام کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے اپنے کل کا آغاز آج سے کرے تو کوےی وجہ نہیں کہ ہم بہت جلداپنا آپ منوالیں ۔
Haseen ur Rehman
About the Author: Haseen ur Rehman Read More Articles by Haseen ur Rehman: 31 Articles with 56393 views My name is Haseen ur Rehman. I am lecturer at College. Doing Mphil in English literature... View More