ایشیا ءبھر میں ہندوستان کیسے ہے بدترین افسر شاہی میں مبتلا؟

ابھی اس بات کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ بدعنوانی کے مختلف معاملات سے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے تاہم معاشرے میں موجود ان بدعنوان عناصر کو بخشا نہیں جائےگا کہ اس سلسلے میں پنپ چکے ناسور سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔پاکستان کی جانب سے ہندوستان کی افسر شاہی کے خلاف تجارت میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا الزام لگا ہے کہ ہانگ کانگ کے ایک ادارے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میںپاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے علاوہ ہندوستان کی افسر شاہی کو براعظم ایشیا میں بدترین قراردے دیا جبکہ سنگاپور دنیا بھر میں کاروبار کیلئے موزوں ترین ممالک میں بھی سرِ فہرست سمجھا جاتاہے۔واضح رہے کہ کسی بڑی تنظیم یا حکومت کے نظام کو چلانے کیلئے مقرر ڈھانچے اور قوانین کو مجموعی طور پر افسرشاہی یا بیوروکریسیBureaucracyکہلاتی ہے۔ایڈھو کریسی adhocracy کے برعکس اس نظام میں تمام عمل کیلئے معیاری طریقے مقرر کئے گئے ہوتے ہیں جس کے مطابق کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ طاقت کی باضابطہ طور پر تقسیم اورعہدیداریhierarchy اس کی دیگر علامات ہیں۔ یہ سماجیات کااہم ترین شعبہ مانا جاتا ہے۔معروف مشاورتی اداریہ پولیٹکل اینڈ اکانومک رسک کنسل ٹنسی لمیٹڈPolitical and Economic Risk Consultancy کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں سنگاپور کی بیوروکریسی ایشیاءبھر میں بہترین قرار پائی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی مرتبہ کہا گیا ہو بلکہ اس سے قبل بی بی سی جنوب ایشاءخبروں کے ضمن میں3جون 2010کب بھی اسی انداز کی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔کسی کو یقین نہ ہو تو وہ https://www.bbc.co.uk/news/10227680ویب پیج پر چیک کر سکتا ہے۔ادارے کے مطابق اس نے ایشیا کے گیارہ بڑے معاشی ممالک کی افسر شاہی کی کارکردگی کا تعین مفصل جائزوں اور متنوع پیمانوں کی بنیاد پر کیا ہے جس میں ان کی کارکردگی کو 10 کے اسکیل پر ناپا گیا۔جائزے میں سنگاپور کی بیوروکریسی 25 2. کی ریٹنگ کی ساتھ ایشیاءبھر میں بہترین جبکہ ہندوستان کی 21ئ9 کے ساتھ بدترین قرار پائی۔رپورٹ کے مطابق سنگاپور کے بعد ایشیائی ممالک میں ہانگ کانگ (53ء3) کی افسر شاہی کارکردگی میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ تھائی لینڈ (25ئ5)، تائیوان (57ء5)، جاپان (77ء5)، جنوبی کوریا (87ء5) اور مئیشیا (89ء5) کی بیوروکریسی کی کارکردگی بھی تسلی بخش قرار دی گئی ہے۔اس فہرست میں چین 11ء7 کے ساتھ ساتویں، فلپائن 57ء7 کے ساتھ آٹھویں جبکہ انڈونیشیا 37ئ8 کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔ ویتنام کی افسر شاہی 10 کے اسکیل پر 54ء8 کی رینکنگ کےساتھ 10ویں نمبر پر رہی۔یاد رہے کہ سنگاپور دنیا بھر میں کاروبار کیلئے موزوں ترین ممالک میں بھی سرِ فہرست ہے۔مذکورہ رپورٹ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل نہیں ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کاروباری شخصیات کی ہندوستان کے حوالے سے بیشتر شکایات کی زیادہ تر ذمہ داری وہاں کی بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے جن میں غیرموزوں انفراسٹرکچر اور بدعنوانی کی شکایات بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں محصولات کا غیر مستقل نظام، ماحولیاتی اور دیگرقوانین کے باعث ہندوستان میں کاروبار کرنا ’پریشان کن اور مہنگا‘ ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہندوستانی افسر شاہی رشوت وصول کرنے پر آمادہ رہتی ہے اور کاروباری اداروں کو سرکاری رکاوٹوں سے بچنے اور سرکاری حمایت کے حصول کیلئے یہ راستہ اپنانا پڑتا ہے۔رپورٹ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کاروبار کرنے والے اداروں کیلئے عدالتوں سے رجوع کرنا بھی ایک غیر پرکشش راستہ رہا ہے جس سے کمپنیاں بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں افسران کے غلط فیصلوں پر ان کے احتساب کی روایت موجود نہیں اور کسی معاملے پر اختلاف رائے کی صورت میں عام افراد کیلئے انہیں چیلنج کرنا بھی انتہائی دشوار ہے جس کے باعث انہیں بے انتہا اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔

غورطلب ہے کہ انڈوپاک چیمبر آف کامرس کے صدر ایس ایم منیر نے ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو کاٹن کی برآمدی شپمنٹس میں تاخیر کئے جانے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستانی کاٹن کی خریداری کے سودے ڈائریکٹر جنرل آف فارن ٹریڈ میں رجسٹرڈ ہیں اور اصول کے مطابق ہندوستانی کاٹن کو پاکستان برآمد کرنا ضروری ہے مگر افسر شاہی اپنے ہتھکنڈوں سے رکاوٹیں پیداکرکے ہند-پاک تجارتی تعلقات میں اضافے کی بجائے رکاوٹیں پیدا کرنے پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہند-پاک حکومتیں باہمی تجارت میں اضافے کیلئے کوشاں ہیں اور اس تناظر میں خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں لیکن پاکستانی درآمدکنندگان کی جانب سے کاٹن کی خریداری کیلئے کئے گئے سودوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کاٹن کی برآمد نہ کرنا قابل افسوس عمل ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین تجارتی لین دین متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایس ایم منیر نے کہا کہ ہندوستان کی جانب سے نان ٹیرف بیریئر لگاکر تجارتی لین دین میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی بجائے دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کو استوار کئے جانے کی پالیسی اپنائی جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی جانب سے کاٹن کی خریداری کئے کئے گئے سودوں پر ہندوستانی حکومت نوٹس لیتے ہوئے کاٹن کی برآمد پر متنازع نوٹیفیکیشن کو فوراً واپس لیتے ہوئے کاٹن کی برآمد ات کو یقینی بنائے۔

آئینی طور پر سیکولر ہندوستان میں سیاست دان اور افسر شاہی جہاںموقع ملتا ہے ہندو مت کی تعلیمات کو مسلط کرکے دیگر مذہبی اقلیتوں کی حق تلفی کرتی ہے۔ معروف اخبار ’سیاست ‘حیدرآباد دکن کے مطابق ایسا ہی رجسٹریشن بھون حیدرآباد دکن کی افتتاحی تقریب میں ہوا جب خالصتاً ہندو عقائد کے تحت اشلوکوں کی گونج میں وزیراعلیٰ این کرن کمار ریڈی نے دفتر کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر سلطنت آصفیہ کے دارالحکومت میں تقریب میں دیگر مذاہب اور اردو زبان کو نظر انداز کیا گیا اور مذہبی عصبیت نمایاں نظر آئی۔ اخبار کے مطابق یوں لگ رہا تھا کہ یہ سرکاری عمارت کے افتتاح کی نہیں کسی خالص ہندو گھرانے کی گھر ’بھراؤنی‘ تقریب ہے۔ حکومت ہمیشہ سے ہی چاہتی ہے کہ ان کی کرتوت عوام کے سامنے نہ آ سکیں۔ اس لئے حکومت میں بیٹھے افسران طرح طرح کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور انتظامی سطح پر اڑچنیں کھڑی کر تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکومت اور افسرشاہی پہلے سے ہی حق اطلاعات قانون آر ٹی آئی کو کچلنا چاہتی ہے ۔اس کی نیت میں شروع سے ہی کھوٹ تھا۔متعدد دباؤ کے بعد، یہ قانون نافذ ہوا تھا۔ خاص طور پر کمیونسٹوں نے اس میں مثبت کردار ادکیااور حق اطلاعات کو نافذ کیا جا سکا تھاجبکہ بہار کی نتیش کمار کی حکومت نے بھی آر ٹی آئی کے عمل کو مشکل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک جس طرح سے اس کا استعمال ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہو رہا ہے لہذا عام آدمی سے لے کر تجارتی اور کاروباری طبقہ تک زہر کے گھونٹ پینے پر مجبور ہے جبکہ نفس کی اندھی تقلید افسر شاہوں کو دن رات بدعنوانی میں مبتلا کررہی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116456 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More