بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر؛ ان زخموں کو کیوں چھیڑے جارہے ہو؟

وہ13ستمبر2008تھی جب دلی بم دھماکوں سے دہل گئی ۔ آدھ گھنٹے کے وقفے میں جملہ 5 بم دھماکے ہوئے جبکہ 19ستمبر2008کو مسلح دہلی پولیس نے جامعہ نگر کے ’بٹلہ ہاؤس‘ علاقے میں کاروائی کرتے ہوئے ، عاطف امین اور سجاد نامی دو طلباءکو دہشت گرد قرار دے کر انکاؤنٹر میں ہلاک کرڈالا۔ آج نوفیصد ریزر ویشن کی بات کرتے کرتے جب ساڑھے چار فیصد پر بھی الیکشن کمیشن کا نزلہ گرا تو اتر پردیش کے انتخابات کے پیش نظرمسلم رائے دہندگان کو بیوقوف بنانے کیلئے کانگریس نے ایک اور کارڈ اس وقت کھیلا جب اس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے ایک بار پھر یہ کہا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر فرضی تھا لیکن چونکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا اصرار ہے کہ انکاؤنٹر جائز تھا اس وجہ سے ہم نے اس بات کو آگے نہیں بڑھایا۔دگ وجے سنگھ نے یہ بیان اسی اعظم گڑھ میں دیا جسے اس تصادم کے بعد دہشت گردی کی نرسری سے تعبیر کیا جانے لگا تھا۔ واضح ہو کہ یہ بیان ایسے وقت دیا گیا ہے جب آج اعظم گڑھ میںراہل گاندھی کا پتلہ جلایا گیا جس کی وجہ سے ان کا دورہ اعظم گرھ منسوخ کر دیا گیاتھا۔غالباسبرانیم سوامی اینڈ کمپنی کے تابڑ توڑعدالتی حملوں سے پریشان پی چدمبرم نے آج اس بارے میں کہا کہ یہ انکاونٹر درست تھا اور ایک بار پھر اس کی تفتیش کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چدمبرم کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ کی جانب سے دئے گئے بیان پرنہ صرف رائے زنی کررہے تھے بلکہ ہندو ووٹ بینک کو بھی پانی دے رہے تھے۔مسلم مخالف عناصر چدمبرم کے اس بیان سے کتنے خوش ہوئے ہوں گے کہ بٹلہ انکاونٹر درست تھا اور اس معاملے کو دوبارہ کھولنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ دگ وجے سنگھ کا الزام ان کا ذاتی نظریہ ہے ۔ ان کا شروع سے ہی یہی خیال ہے لیکن ہماری رائے میں اختلاف ہے۔ دگ وجے نے بدھ کے روز اعظم گڑھ کے دورے پر کہ وہ حکومت کو اور وزارت داخلہ کو اس بات کےلئے’ آمادہ‘ کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس انکاونٹر کی دوبارہ تفتیش کروائی جائے لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔انتخابات میں کامیاب کروانے کی دھن میں دگ وجے نے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی شبیہ کوداؤ پرہی نہیں لگادیابلکہ انہوں نے گاندھی خاندان کے تئیں مسلمانوں کے غصے کو اپنے اعظم گڑھ دورے کے دوران وزیر اعظم اور وزیرد اخلہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرڈالی۔ اس میں حرج بھی کیا ہے جبکہ مستقبل میں نہ تو منموہن کو وزیر اعظم بننا ہے اور نہ ہی چدمبرم کی سلامتی منظو ر ہے جبکہ راہل کو جمانا کانگریس کا اولین مقصد ہے۔مسلم ووٹ حاصل کرنے کےلئے ان کی کوشش کتنی کامیاب ہوگی یہ تو انتخابی نتائج سامنے آنے پر ہی پتہ چل سکے گا لیکن فی الحال انہوں نے ایک نئے تنازع کو جنم دے دیا ہے۔ اسی دوران اترپردیش کے اعظم گڑھ میں واقع شبلی کالج کے طلباءنے راہل گاندھی کی اس بات کےلئے جم کر مخالفت کرتے ہوئے بھڑاس نکالی کہ انہوں نے بٹلہ ہاؤس جیسے ایک اہم معاملے پر ابھی تک اپنا سکوت نہےں توڑا ہے۔ طلبا نے کالج کے اندر اور باہر زبردست ہنگامہ کرتے ہوئے راہل کے پتلے بھی جلائے تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیا ہے؟کیا وہ طلباءدہشت گرد تھے ؟ کیا پولیس کی کاروائی انتقامی ، منصوبہ بند اور متعصبانہ تھی؟ اس پورے واقعے کا حقیقت پسند جائزہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے اساتذہ کی ایک مشترکہ انجمن نے 60صفحات کے ایک کتابچہ کی شکل میں ایک سال قبل شائع کیا تھا جو ٹو سرکلس ڈاٹ نیٹ twocircles.net پر پی ڈی ایف فائل کی صورت میں ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد مرحومین عاطف امین اور سجاد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کو سب سے پہلے آن لائن شائع کرنے کا اعزاز بھی ٹو سرکلس ڈاٹ نیٹ کوہی حاصل ہے۔ یہ رپورٹ جامعہ ملیہ کے نوجوان طالب علم افروز عالم ساحل کی مخلصانہ جدوجہد سے حاصل ہوئی ہے۔ٹو سرکلس ڈاٹ نیٹ کی اسی آن لائن رپورٹ کی بنیاد پر ہندوستان کے اہم اور معتبر انگریزی ، ہندی اور اردو اخبارات نے اس موضوع کا بھرپور جائزہ لیا۔مذکورہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وضاحت موجود ہے کہ بندوق کی گولیوں کے علاوہ جسم پر متعدد شدید زد و کوب کے نشانات پائے گئے ہیں ؟دہلی پولیس کے دعویٰ کے مطابق اگر وہ انکاؤنٹر حقیقی تھا تو پھر پولیس نے ملزمین کو اس قدر شدید زیادتیوں کا نشانہ کیوں بنایا ؟

بہر کیف‘ اس سیاسی ڈرامے میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ فروری2010کے دوران بھی اسی قسم کا کھیل پیش کیا گیا تھاجس کی ویڈیو کوریج یو ٹیوب کیhttps://www.youtube.com/watch?v=cdvvuB8WCUc سائٹ پرآج بھی موجود ہے جس کا سہرہ بھی ٹو سرکلس ڈاٹ نیٹ کے سر ہی جاتا ہے۔دو برس قبل اعظم گڑھ سے گورکھپور پہنچنے کے دوران دگی راجہ کا سر ہی بدل گیا۔ ان کی زبان پر نہ تو اعظم گڑھ جیسی تلخی تھی نہ ہی کسی کے خلاف’ دشمنی کے جذبات‘۔یوں محسوس ہورہا تھاجیسے وہ اعظم گڑھ میں محض’حالات کو قابو‘ میں کرنے کیلئے آئے تھے۔۔ وہ 25فروری کو گورکھ ناتھ پہنچے ضرورمگر اعظم گڑھ والی غلطی انہوں نے یہاں نہیں کی۔ بلکہ ان کی کوشش رہی کہ وہ اپنا سیکولرا زم والا چہرہ بچائے رکھیں اور ان پر دوبارہ مسلمانوں کو خوش کرنے کا الزام کہیں عائد نہ ہو۔ اس لئے دگی راجہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کی ہی رہنمائی کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں وہ مقررہ پروگراموں میں شرکت کرنے سے پہلے گورکھ ناتھ مندر پہنچے اور وہاں ماتھا ٹیکا۔اس کے بعد انہوں نے امام باڑہ جا کر چادر چڑھائی۔ وہاں انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کی بات کی اور کانگریس کو مسلمانوں کا سچا ہمدرد بتایا۔ اس درمیان دگی راجا اقلیتی سیمنار میں حصہ لینے آئے مہمانوں کی کھری کھوٹی بھی سنتے رہے لیکن اس سیمنار میں وہ سچر کمیٹی جیسے جھنجنے سے اقلیتی فرقہ کولبھانے سے خود کو نہ روک سکے۔ سیمنار میںمدعو علما ءکرام اور مسلم دانشوروں نے تو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ افضل گرو جیسے دہشت گردوں کو بیچ چوراہے پر گولی مار دی جائے تو ان لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن ہمارے جوان بچوں کو سکون سے جینے دیا جائے‘لیکن اس لفاظی کا فائدہ کیا ہوا جبکہ آج بھی بے قصورمسلم نوجوانوں کی دھرپکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف دگی راجہ مسلمانوں کو لبھانے میں مصروف ہوتے ہیں تو دوسری طرف کانگریس پلو جھاڑنے کا عمل قائم رکھتی ہے کہ یہ تو ان کا ذاتی خیال تھا‘ پارٹی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔

راہل گاندھی کے منھ چڑھے لیڈران میں سے ایک دگی راجہ اکثر ہی پارٹی کیلئے بظاہر مصیبت کھڑی کرتے رہتے ہیں مگر ان کا آج تک کوئی کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا۔ بعض مرتبہ تو نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ کانگریس ان کے بیانات سے اپنے آپ کو الگ ہی کر لیتی ہے لیکن ہم نہیں سدھریں گے کے مصداق دگ وجے بڑے بول بولنے میں کوئی تکلف نہیں کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اکثر اپنی بات کا بوجھ ہائی کمان پر بھی لاد دیتے ہیں۔ اب ارجن سنگھ تو زندگی کی 80بہاریں دیکھنے کے بعدسیاسی حلقوں میں قصہ ماضی بن چکے ہیں لیکن دگی راجہ نے ان کی جگہ لینے کی گویا قسم کھا لی ہے۔آخر دونوں ایک ہی ریاست اور ایک ہی برادری کے جو ہیں۔

دیگر پارٹیوں کی جانب مسلمانوں کے رجحان کم کرنے کے مقصد سے دگی راجہ ا دو برس قبل عظم گڑھ کے سنجر پور گاؤں کے بعد گورکھپور پہنچے تو ان کے ساتھ ریاستی کانگریس صدر ڈاکٹر ریتا بہوگنا، مرکزی ریاستی وزیر شری پرکاش جیسوال، کانگریس پرلیمانی بورڈ کے لیڈر پرمود تیواری وغیرہ بھی موجود تھے۔گورکھپور میں ان کی تقریر کا رح مسلمانوں کی غربت اور ناخواندگی پر مرکوز رہا۔ انھوں نے ایک طرف تو سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی کم نمائندگی کا معاملہ اٹھایا تودوسری جانب ریاست کی بی ایس پی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ آئینی نظام ایسا ہے کہ ہم یعنی مرکزی حکومت’ براہ راست‘ کچھ نہیں کر سکتے۔ مرکز کی اسکیموں کو ریاستی حکومتیں ٹھیک سے عملی شکل نہیں دے رہی ہیں جس سے مسلم طبقہ کو ’خاطر خواہ فائدہ‘ نہیں مل رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ دہلی میں ریاستی حکومت پر قابض ہونے کے باوجود کانگریس نے کون سے تیر مار لئے؟ایک ’بٹلہ ہاؤس تصادم‘ ہی کیا‘ آثار قدیمہ کے تحت جانے کتنی مساجد آج بھی سیاحوں کے جوتتے تلے روندی جارہی ہیں۔وقف بورڈ ‘ریزر ویشن‘ لازمی حق تعلیم جیسے متعدد مسائل کا تو ذکر ہی کیا۔ اس کے باوجود دگ وجے سنگھ وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے تھے کہ 2012میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مسلمان کانگریس کاساتھ دیں۔ ان کے ساتھ آئے مرکزی صوبائی وزیر شری پرکاش جیسوال نے حکومت کا حق مسلمانوں کے سامنے رکھتے ہوئے بتایاتھا کہ حکومت سچر کمیٹی کی سفارشوں کونافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے ہوشیار کیا کہ گورکھپور فرقہ وارانہ طاقتوں کے نشانہ پر ہے۔ کانگریس کے پرمود تیواری نے تو مسلمانوں سے معافی طلب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا پارٹی سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن مسلم طبقہ کیلئے کانگریس سبھی پارٹیوں میں بہتر ہے۔اگر مرکز کے 15نکاتی پروگرام نافذ ہو جائیں تواقلیتوں کی حالت بدل جائے گی۔ ایک طرف کانگریسی مسلمانوں کو لبھانے میں لگے تھے تو دوسری جانب مسلمانوں کی رہنمائی کا دم بھرنے والے کانگریس کے قومی سکریٹری اور ممبر پارلیمنٹ پرویز ہاشی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہاتھا کہ مسلمان چاہتے ہیں کہ مرکزی مدرسہ بورڈ بنے مگر یہ بتاتے ہوئے ہاشمی یہ بھول گئے کہ دہلی میں بیٹھ کر مسلمانوں کی سیاست کرنے والے دیگر مسلم لیڈران نے مدرسہ بورڈ بنانے کی زوردار مخالفت بھی درج کروائی ہے۔ انھوں نے آر ایس ایس اور بجرنگ دل پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی یہ لوگ پھیلاتے ہیں اور الزام ہمارے اوپر لگاتے ہیں۔ان کے دورہ کے بعد سماجوادی پارٹی کے مسلم ممبران اسمبلی نے لکھنو میں ایک میٹنگ کے بعد دگ وجے سنگھ پر نشانہ باندھتے ہوئے کہا کہ دہلی سے سنجر پور کی دوری طے کرنے میں عام آدمی کودو دن کا اور وی وی آئی پی کو 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ دگ وجے سنگھ کو دو سال لگ گئے۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ بٹلہ ہاؤس سانحہ کے وقت مرکز اور دہلی دونوں میں ہی کانگریس کی حکومت تھی۔ دگ وجے سنگھ کے دورہ پر تنقید کرتے ہوئے اترپردیش بی جے پی کے نائب صدر اور مشیر ہرد یہ نارائن دکشت نے جاننا چاہاتھا کہ بٹلہ انکاؤنٹر کے ملزم سیف کے والد کے گھر جانے کے بعد کیا ان کا ارادہ قصاب کے گھر بھی جانے کاہے؟انھوں نے کانگریس پر ووٹ بینک اور مسلمانوں کی منھ برائی کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھاکہ کانگریس نے مسلمانوں کو دہشت گرد حامی مان کر ہی افضل گرو کو ابھی تک پھانسی پر نہیں لٹکایا ہے جو حب الوطن مسلمانوں کیلئے گہرا صدمہ ہے لیکن انصاف‘ ایفائے عہد‘ صداقت اور امانت داری سے محروم سیاست دانوں کی اس مہم سے عوام غم زدہ ضرور ہیں۔ اپنے ایک چہرے سے مسلم ووٹ بینک مضبوط کرتے ہیں تو دوسرے چہرے سے ہندوووٹ کو سنبھالتے ہیں۔مذہب‘برادری‘ رنگ و نسل اوعلاقائی عصبیت کے عنوان پر ووٹروں کو فیصد اور ناسب میں ناپنے کا لامتناہی رخ پڑ چکاہے۔ آخرت کی فکر سے دور قائدین رائے دہندگان کو محض اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں‘انسانیت پرمسلط مسائل سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے جبکہ مخلصین کی جانب طبیعتوں کا رخ برائے نام ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116441 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More