خدایانِ حکومت ملک و ملت را فروختند

میمو گیٹ کیاہے ؟ کسی نے کہا کاغذ کا پرزہ ہے اسکی کیا وقعت ہے؟ بات منہ سے نکل گئی سو بات بن گئی، تحریر جو ہوگیا سو وہ حقیقت ہے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ وکیلوں کی رہنما رہی ہیں۔سپریم کورٹ میں حقانی کی طرف سے وکالت کا اعزاز انہیں حاصل ہوا۔ سپریم کورٹ کا عادلانہ ماحول انہیں پسند نہ آیا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر وہ شروع سے سپریم کورٹ سے مطمئن نہ تھیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ انکے اند ر کی وکیلنی انہیں بتا رہی تھی کہ تم ایسے آدمی کی وکالت کررہی ہو جوملک و ملت فروشی اور امریکہ پرستی میں سچا ہے۔جس نے پاکستان کے ارباب اقتدار کی تمناﺅں کو پروان چڑھانے کے لیئے منصورکا انتخاب کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو محترمہ نے چوہا کہا۔ شکر ہے کہ مراہوا نہیں کہا۔زندہ چوہا بڑا کام کرتا ہے۔ چوہا اب جال کاٹ کر میمو شیر کو آزاد کرائے گا۔ اسی شیر کے خطرے سے ارباب حکومت بدحواس ہوچکے ہیں۔نجانے کتنے اسکا شکار ہونگے۔ عام آدمیوں کی نسبت وکلاءکو یہ بات زیادہ سمجھنی چاہیئے کہ ہر تحریر کا کوئی مطلب ہوتا ہے۔ مجھے یادآیا کہ 1975 میں میں کینٹ بورڈ ہاسپیٹل کے سامنے ایک جوس والے کی دکان میں بغرض نوشیدن جوس داخل ہوا تو وہا ں پہلے سے موجود ایک خوبصورت جوان سوٹ میں ملبوس ہمراہ ایک لڑکے کے کھڑے تھے۔ میں نے داخل ہوتے ہی سلام تو کر ہی دیا تھا۔ اس نوجوان کے ساتھ موجود لڑکے نے دکان میں آویزاں تعویذات کی طرف اشارہ کرکے سوال کیا کہ ڈیڈی یہ کیا ہیں؟ نوجوان نے بتایا کہ یہ کوئی تعویذات معلوم ہوتے ہیں۔ پھر اچانک میری طرف متوجہ ہوکر کہا کہ آپ مولوی معلوم ہوتے ہیں(میری ریش دیکھ کر) بتائیں کہ ان تعویذات کا کوئی اثر ہوتا ہے؟ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کا شغل کیا ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وکالت۔ میں نے کہا بہت خوب پھر توآپ جانتے ہیں کہ ہر تحریر کا اثر ہوتا ہے۔اور اسکا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ کاغذ کے ٹکڑے پر جج لکھ دے کہ مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے یا اسے بری کیا جاتا ہے۔ کوئی آدمی کاغذ کے ٹکڑے پر کسی کو نازیبا کلمات لکھ دے تو نتیجہ بڑ ا خطرناک ہوگا۔ یہ تو کلام الہی ہے اس کا اثر اسکے خالق کی طرح فوقیت رکھتا ہے۔ وہ وکیل تھے میری بات کی تائید فرمائی۔ مجھے کارڈ دیا یہ تھے محترم راجہ ظفرالحق صاحب جو بعد میں مارشل لا دور میں وزیر بنے اور پھر بنے۔ اب تو عالم ضعیفی میںمسلم لیگ (ن) کے سینئیررہنما ہیں۔ محترمہ وکیلنی صاحبہ کی عجیب منطق ہے کاغذ کے ٹکڑے پر جو کچھ لکھا ہے اسکا مطالعہ فرمائیں۔ ملک کے سارے دانشور، وکیل، آرمی چیف، عدلیہ چیف، میڈیا چیف غرضیکہ ملک کا بچہ بچہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہم آزاد و خود مختار قوم ہیں ہمارے سودے کون لگا سکتا ہے۔ کہتے ہیں سچ کو آنچ نہیں۔ تو حسین حقانی نے وزیر اعظم ہاﺅس میں پناہ کیوں لے رکھی ہے؟ کیا وزیر اعظم ہاﺅس ملک وقوم کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی پناہ گاہ ہے؟اس خط(غیررسمی)کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ میں چاہوں گا کہ اس ضرورت کے بارے جو میری سمجھ میں آیا،تحریر کروں۔ حسین حقانی کا اصل نام کیا ہے ؟ ابھی تک معلوم نہیں۔ حسین تو نہیں البتہ غلام حسین ہوسکتا ہے۔حقانی ،حق اور سچ کا مظہر ہوتامگر افسوس کہ غلام حسین حقانی ان دونوں صفات جلیلہ سے محروم ہیں۔ غلام حسین صاحب سے میری پرانی شناسائی ہے جب یہ مسلم لیگ کی خبریں اخبارات میں دیاکرتے تھے۔ اسی طرح غیبی طاقتوں نے انکی مدد کی اور امریکہ میں سفارت مل گئی۔ سفارتوں میں سب سے بڑا درجہ امریکہ میں سفارتکاری کا ہے۔ امریکی سفارت ملتی ہی اسے ہے جسکے بارے امیرالنصاری والیہود(صلیبیوں ویہودیوںکے امیر) کا اشارہ ہو۔ امریکی اشیر باد کے حصول کے لیئے کئی عشاق ہاتھ پاﺅں مارتے اور قلابازیاں کھاتے ہیں۔ مگر امریکہ سرکار کے معیار پر کون اترتا ہے؟ یہ راز وہ خود ہی جانتا ہے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑے مکاراور شاطر بھی ایسی حرکتیں کربیٹھتے ہیں کہ خود ہی اپنے کرتوتوں کے پردے چاک کردیتے ہیں۔ جیسے کہ حقانی کے حمائیتی امریکی اور دیگر صلیبی حقانی کے تحفظ کے لیئے میدان عمل میں اتر آئے ہیں۔ جیسے کہ حقانی کے حمائیتی امریکی اور دیگر صلیبی حقانی کے تحفظ کے لیئے میدان عمل میں اتر آئے ہیں۔

حکومتی سطح پر جو شدیدبےچینی پیدا ہوئی اور برطانیہ و امریکہ کی جانب سے تحفظات میڈیا پر آرہے ہیں۔ انکی جانب سے اپنے لے پالک کی جان بچانے کی سرتوڑ کوشش ہو رہی ہے۔جبھی تو وزیراعظم پاکستان نے حقانی کے تحفظ کے لیئے پرآسائش وزیراعظم ہاﺅس میں ملک دشمن کوکیاکچھ نہیں دے رکھا۔ دراصل یہ سبھی ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ کہیں کرپٹ کمیشن مافیا کے صدر زرداری صاحب، کہیں عبدالرحمن ملک کہ اپنی آبائی قینچی سے لوگوں کی جیبیں کاٹنے اور استرے سے گلے کاٹنے میں مصروف عمل ہیں، کہیں ننگ گیلانیاں یوسف رضاصاحب فرنگیوں سے کچھ اور مربعے زمینوں کی امید سے ہیں ۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ خود مختار پاکستان میںبرطانیہ کو مداخلت کی دعوت دی جارہی ہے۔اس دعوت سے ثابرت ہوگیاکہ حقانی کا میموسو فیصد حقیقت ہے۔ کہیں اپنے ہی سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے والے آصف علی ہیں۔ عوام کو اب پتہ چلا جب میمو میمنہ کی آواز آئی۔ ہم اکثر لوگوں کی زبان سے سنتے ہیں کہ اس پاکستان کے لیئے نبی کریم ﷺ کے امتیوں نے خون کے دریا بہادیئے اب کوئی خبیث بدخواہ اس کو مٹا نہیں سکتا۔ اگرچہ ملک میں برسر طبقہ نے ہمیشہ امریکی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا۔ اپنی اور اپنے اقربا کی تجوریاں بھریں۔ 65 سالہ وطن عزیز آج بھی ضعیف العمر کہ جس کے جسم کا گوشت حکمران گدھیں نوچ چکیں اور اب اسکی ہڈیاں بھی چبانے کے درپے ہیں، یہ بزرگ مضبوط اعصاب کا مالک ہے کیونکہ اسکے وجود کی تشکیل میں خالص اجزا شامل ہیں۔ پس پردہ ہنگامہ خیزیوں کا شور ہے کہ اب اسکے فرزند اس شیخ کبیر کی طاقت بن کر ابھرنے والے ہیں۔اللہ تعالٰی خبیث صلیبیوں کے چاکروں کے کرتوت طشت از بام کردیتا ہے۔بلیک بیری، لیب ٹاپ یا نیٹ سروسز اللہ کی نشانیاں ہیں ۔ وہ بتاتا ہے کہ کسطرح لوگوں کے اعمال محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ یہ دنیا کا طریقہ ہے جوآخرت کی خبر دیتا ہے۔

غلام حسین حقانی کی پناہ گاہ بھی رشک فردوس ہے۔ جہاں موت کا نام و نشاں نہیں۔ دائمی زندگی ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانو! کبھی تمہیں اللہ بصیر ت دیتا اور تم دیکھتے کہ وزیر اعظم کے مضبوط قلعہ میں خود وزراءاعظم کے ساتھ کیاہوا؟ ایک معزول ہوا۔ ایک کو پھانسی دی گئی، ایک کو اٹک قلعہ اور پھر ملک بد ر کیا، ایک اورسے زبردستی کرسی خالی کرائی گئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ موت سے خوف زدہ غلام حسین صاحب! جو خود کو نہ بچا سکے وہ تمہیں کیسے بچائیںگے۔اللہ تعالی کی روشن نشانیوں سے بدمستوں کو سبق لینا چاہیئے۔ جھوٹ اتنا طاقتور نہیں ہوتا کہ وہ سچ پر غالب آجائے۔ غلام حسین حقانی نے غیر رسمی خط اعلٰی امریکی قیادت تک پہنچانے کے لیئے نہائت خلوص کے ساتھ ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا کہ جسکے بارے قادیانی ہونے کے ثبوت ہیں اور وہ امریکی شہری بھی ہے۔ حقانی صاحب کا انتخاب نہائت صائب تھا۔ قادیانی پاکستان اور مسلمانوں کے دشمن اور انگریز کے وفادار ہیں۔آخر اس حرکت کا راز کیا ہے؟ اس سے بھی پردہ سرکا دیا گیا ہے۔ سویز بینکوں میں پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کے لیئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا کیونکہ کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والا پاکستان کا صدر ہے اور اس ملک کا حکمران وہی بن سکتا ہے جو سب سے زیادہ قتل، ڈکیتی اور لوٹ مار میں سر فہرست ہو ۔ آئین پاکستان کی بات کی جائے تو تمام شہری برابر کے بنیادی حقوق رکھتے ہیں۔عام آدمی جرم کرے تو اسکے خلاف انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیئے قانون حرکت میں آتا ہے ۔متعدد افراد کے خلاف کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات ثابت ہوئے اور انہیں قرار واقع سزا ملی۔ اگر زرداری کواستثنا حاصل ہے تو اس ملک کے جن لوگوں کوسزائیں دی گئیں انہیں ظلم سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔وی آنا کی قرار داد میں سربراہ مملکت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی لیکن تاجدار مدینہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میری بیٹی خاتو ن جنت بھی چوری کرتیںتو میں انکے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ پھر یہ بھی فرمایاکہ تم سے پہلی امتوں پر اسی لیئے عذاب آیا کہ جب کوئی امیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیاجاتا اور اس سے مواخذہ نہ کیا جاتا۔ جب کوئی غریب جرم کاارتکاب کرتا تواسے سزا دی جاتی۔اسلامی نظام عدل کی اسی مساوات کے نتیجہ میں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔

زرداری صاحب ملک کے وزیراعظم بھی بن سکتے تھے لیکن وہاں بچاﺅ کی یہ سہولت کم تھی اسی لیئے انہوں نے اپنے لیئے صدارت کومحفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہوئے میاں نواز شریف اور چنددوسرے لوگوں کو میٹھی گولی کھلا کر صدری ۔صدارت(jacket )حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ زرداری صرف ملکی دولت سمیٹنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس مقصد رذیلہ کے لیئے تیل ،گیس اور بجلی جو عوامی بنیادی ضرورتیں ہیں اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، ان پر با لواسطہ یا بلا واسطہ قبضہ کر رکھا ہے۔ گیس صنعتی اداروں کو نہ ملنے کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ کارخانوں کی تباہی کابحران آیا۔ ایک طرف مال تیار نہ ہوا کہ برآمد ات نہ ہونے سے زرمبادلہ کانقصان ہوا، دوسری طرف کارخانوں کی بندش سے مزدوروں اور انکے زیر کفالت لوگوں کے پیٹ پر لات ماری گئی۔ ملک کوتباہ کرنے اور عوام کو خودکشی پر تیار کرنے کے لیئے بجلی، گیس اور تیل کی بندش کاگھناﺅناکھیل کھیلا جارہاہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریل گاڑیاں ڈیزل نہ ملنے کیوجہ سے بند ہوگئیں۔ عوام کے لیئے سستا ذریعہ سفر ختم ہوا۔سخت سردی میںبجلی اور گیس بند ہونے سے معصوم عوام اور بچوں کی زبانوں سے ہمہ وقت ان حکمرانوں کے حق میں بددعائیں ہی نہیں نکل رہیں بلکہ sms کیئے جارہے ہیں، حکمرانوں پر لعنت بھیجی جارہی ہے اور گالیاں دی جارہی ہیں۔ زرداری اور گیلانی ان مغلظات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اگر رتی بھر شرم یا غیرت ہوتی تو اقتدار چھوڑ دیتے مگر وہ جو مشن لے کرآئے ہیں اسی پرکاربند ہیں۔ زبان خلق کے انداز کیسے بھی ہوں ان غیرت و ایمان باختہ حکمرانوں نے اپنا ہدف پورا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک عدلیہ حکمرانوںکی آلہ کار رہی اور عدل و انصاف کا خون کرتی رہی جسکے نتیجہ میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ملک کئی قسم کی آفتوں کا شکار رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کو اللہ تعالٰی نے ہمت دی اور اس نے ایک آمر کے سامنے عدلیہ کی سربلندی اور آزادی کا پرچم بلندکردیا۔ عوام چونکہ ناانصافیو ں کا شکار تھے انہوں نے چیف جسٹس کا ساتھ دیا۔موجودہ حکمران قطعی طور پر چیف جسٹس کی بحالی کے حق میں نہ تھے۔انہیں اس بات کا یقین تھا کہ چوہدری افتخار احمد صاحب کٹھ پتلی کا کردار سرانجام نہ دیں گے۔ NRO کے سائے میں ڈاکوﺅں،قاتلوں، لٹیروں اور غاصبوں سبھی کو دھڑکا لگا ہوا تھا۔ اور وہی ہوا جسکا انہیںخدشہ تھا۔ گیلانی نے اپنے زرداری کو بچانے کے لیئے ہر طرح کے حربے استعمال کیئے، خفیہ طور پر امریکی سرکار سے مدد طلب کی ۔ چاہتے تو ہیں کہ عدلیہ اور فوجی قیادت کو ایسا سبق سکھائیں کہ آئیندہ کوئی عدلیہ کی بالا دستی کی بات سوچے بھی نہیں۔ سچ وہی ہو جو وزیر اعظم اور زردار ی چاہیں۔ اب ملک کے عوام ، عدلیہ اور فوج سے ٹکر لینے کا ارداہ ہے تو کس پردہ دار کے بل بوتے؟ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ ملک مسلمانوں کی قربانیوں اور لازوال ایمان کا ثمرہ ہے، جو اس کا برا سوچے گا وہ ذلیل و خوار ہوگا۔ موجودہ حکمرانوں کی سازشیں آئے روز طشت از بام ہورہی ہیں۔ مگر انہیں سمجھ نہیں آرہی۔ عدلیہ کے فیصلوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔اقتدار میں پی پی پی کا ساتھ دینے والے حکمرانوں کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ عدلیہ فوری طور پر موجودہ صدر، وزیر اعظم،اراکین کابینہ اور انکے چوراچکے ساتھیوں کے نام ECL میں شامل کردیں کیونکہ ان میں سے اکثر کا سبھی کچھ دوسرے ممالک میں ہے اور یہ بھاگ جائیں گے۔ نیز چیف جسٹس آف پاکستان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ آئین کے تحفظ اور عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیئے پاکستان آرمی کی ایک یونٹ طلب کرلیں۔قوم دیکھ رہی ہے کہ ملک اور قوم دشمن کب اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ ماہ ربیع النور کی آمد آمد ہے جس میں کائینات کو اللہ پاک نے جناب رحمة للعلمین ﷺ کی جلوہ گری سے نوازا۔ اس وقت پاکستا ن پر اللہ تعالٰی کی طرف سے رحمت کی ہوائیں چل پڑی ہیں۔ عقریب ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہوگا اور عوامِ پاکستان کو طویل تاریکی سے نجات ملے گی۔ آمین
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 129331 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More