مدھیہ پردیش کے اسکولوں میں حکومت آخر کیوں کرواتی ہے سوریہ نمسکار؟

انتخابات کی تاریخیں نزدیک آنے کے ساتھ سلمان رشدی‘ مسلم ریزرویشن اور اب مدھیہ پردیش میں ایک نیا مسئلہ وجود میں آیا ہے جہاں ہندواعتقادات اورروایات کے مطابق جسمانی اور روحانی نظم و ضبط پر مبنی طریقہ ورزش یوگا یایوگ ایک مرتبہ پھر تنازعات میں گھر گئی ہے۔ریاستی حکومت ایک طرف جہاں کل ہزاروں اسکول طلباءکو ایک ساتھ ’سورج نمسکار‘کرواکے گنیز بک میں نام درج کروانے کی تیاری میںمصروف ہے ، وہیں مسلم رہنماؤں نے سورج کے سامنے جھکنے کو غیر اسلامی اور بت پرستش کی طرح اس کی مخالفت کی ہے ۔ریاست کے مفتیان کرام نے سورج کونمسکارکرنے کے خلاف فتوی بھی جاری کر دیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت بتدریج اور مہلک طریقے سے ریاست میں تعلیم کا بھگواکرن کر رہی ہے۔ انہوں نے حکومت کو آگاہ کیا کہ اگر حکومت اپنے اجتماعی سورج نمسکار کے پروگرام پر آگے بڑھے گی تو وہ اس کے خلاف عدالت میں دستک دیں گے۔ دوسری طرف اسکول کی تعلیم کے وزیر ارچنا چٹنس نے کہا کہ اجتماعی سورج نمسکارمیں حصہ لینا رضاکارانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سورج نہ تو بھگوان ہے اور نہ ہی ہرا ، اس کا مذہب یا مذہبی رسم یا رواج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔سورج نمسکار صحت کے حصول کیلئے ایک یوگا آسن ہے اور ہم اسے تھوپ نہیں رہے ہیں۔ تمام لوگ اس کیلئے مجبور نہیں ہیں ، جو لوگ اس میں حصہ نہیں لینا چاہتے ، وہ خوشی سے اسے چھوڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سورج نمسکار ایک صحتمندانہ ورزش ہے جسے دنیا بھر کے سائنسدانوں اور صحت کے ماہرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچے صحت مند طرز زندگی اپنائیں۔ اس سلسلے میں یہی ہمارا واحد مقصد ہے جبکہ مسلم قائدین کا کہنا ہے کہ اسلام ہمیں کسی تصویر یا چیز کے سامنے جھکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مختلف تنظیموں کے مسلم لیڈروں نے گذشتہ روز بھوپال میں کوارڈنےشن کمیٹی فار انڈین مسلم یونٹ کے زیر اہتمام مسلم طلباءسے اپیل کی کہ وہ اس غیر اسلامی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں۔بھوپال میں تین شہر مفتیوں محمد ابوالکلام قاسمی ، رئیس احمد خان قاسمی اور مفتی سید بابر حسین ندوی نے ایک فتوی جاری کیا جسے شہر قاضی سید مشتاق علی ندوی نے اپنی منظوری دے دی ہے۔جماعت اسلامی کے صوبائی صدر عبداللطیف ، ربطہ کمیٹی کے نائب صدر عبدالوحید نقوی وغیرہ مسلم لیڈروں اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے صدر ساجد صدیقی نے کہا ہے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے بھی اپنے 28 اگست 2009 کے حکم میں کہا ہے کہ حکومت طلباءکو سورج سلام یا پران نیم کرنے کیلئے مجبور نہیں کر سکتی اور کسی ادارے کی تسلیم شدہ اس لئے منسوخ نہیں کر سکتی کہ اس کے طلباءنے ان آسنوں کو کرنے سے انکار کر دیا۔

سورج نمسکاریوگاآسنوں میں ’بہترین‘ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ واحد مشق ہی ’سادھنا‘ کرنے والے کو پوری یوگا ورزش کا ’فائدہ‘ پہنچانے کے قابل ہے۔ اس مشق سے سادھنا کرنے والے کے جسم کو’ا مراض ‘ سے محفوظ اور’ صحت مند‘ہوکر’ تیجسوی‘ ہو جاتا ہے۔سورج نمسکار مردوں ، عورتوں، بچوں، نوجوانوں اورمعمروں کیلئے بھی مفید بتایا گیاہے۔ مغربی دنیا کو’یوگ‘ اور ’دھیان‘ سے متعارف کرانے والے ہند نژاد روحانی گرومہا رشی یوگی نے یوگ اور دھیان کے ذریعہ بہتر صحت اور روحانی تعلیم کے وعدے کے ساتھ یوگ کی دنیا میں قدم رکھا اور ان سے بڑی تعداد میں مشہور شخصیتیں منسلک ہوئیںلیکن فی زمانہ دیار غیر میں ہی نہیں بلکہ اپنے وطن میں بھی اسے شک کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ممبئی کے ماہر آرتھوپیڈک سرجنز کی مانیں تو یوگا گھٹنوں کیلئے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ذہنی و جسمانی صلا حیت پر مثبت اثرات مر تب کرنے اور انہیں پرسکون بنانے کیلئے اپنائی جانے والی یوگا مشقیں ہڈیوں کے جوڑ اور خصوصا بیٹھنے کے انداز کے باعث گھٹنوں کیلئے انتہائی مضر ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ اب تک کئی یوگا ماہرین کے گھٹنے بھی تبدیل کرچکے ہیں۔

دریں اثناءمدھیہ پردیش میں موجودہ تنازعہ نے دنیا بھر میںبسے ہوئے وہ ہزاروں افرادجو ذہنی و جسمانی سکون اور تھکاوٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے یوگا مشقیں اپناتے ہیں‘سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا کریں جبکہ مذہبی حلقوں میں بھی اس کے تعلق سے کوئی صحت مند نظریہ سامنے نہیں آیا ہے۔اس سے قبل لندن سے موصولہ ایک اہم کیتھولک پادری کادعویٰ بھی منظر عام پر آیا ہے جس کے مطابق یوگا شیطانی اور گمراہ کن عمل ہندو مت کی تعلیمات پر مبنی ہے۔یہ دعویٰ ویٹیکین کی شیطانوں سے نمٹنے کی ٹیم کے سربراہ پادری گیبرئیل امروتھ نے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یوگا کی مشقیں شیطانی عمل ہیں اس سے شیطان کو طاقت ملتی ہے۔ان کے بقول شیطان پوشیدہ رہ کر یہ کوشش کرتا ہے کہ ہم اس موجودگی کو تسلیم نہ کریں۔اعتراض محض بھوپال تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سرحد پار ملیشیا میںتو یوگا پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے۔نیشنل فتویٰ کونسل نے تویوگا کی مشق کوحرام قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اسلا م میںیوگا حرام ہے کیونکہ ہندوانہ عنصر مسلمانوں کو گمراہ کرسکتے ہیں ۔کوالالمپورکے اردوپوائنٹ اخبا رکے22نومبر2008 کی اشاعت کے مطابق ملیشیا میں یوگا میں جہاں جسمانی مشق کی جاتی ہے وہیں اس میں عبادت اور دیگر رسو م بھی شامل ہیں جسے مسلمانوں کیلئے حرام قرار دیدیاگیاہے۔یہ فتوی گذشتہ دنوں اسلام اسٹڈیز کے لیکچرار کی جانب سے یوگا کے خلاف آواز بلند کرنے کے بعد سامنے آیا جس میں ان کا کہناتھاکہ یوگا مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے دور لیجاسکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ملیشیاکی قومی فتویٰ کونسل نے یوگا کی ایسی مشقوںکو جن میںجسمانی ورزش کے ساتھ کے ساتھ پوجا پاٹھ اورجنتر منتریا اشلوک کا جاپ بھی شامل ہو‘ممنوع قرار دے دیا جبکہ کونسل کے چیئر مین داتو ڈاکٹر عبد الشکور حسین کا کہنا ہے کہ ہندو فرقہ ہزاروں سال سے یوگا پوجا پاٹھ اور جنتر منتر کے جاپ کی آمیزش کے ساتھ کررہا ہے۔ اور ان کی اس عبادت کا مقصد اپنے آپکو بھگوان کے روپ میں ڈھالنا ہے۔ڈاکٹر عبد الشکور کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے اس عقیدہ کے پیش نظر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے اس قسم کا یوگا کرنا قطعی نامناسب ہے۔ اسی لئے فتوی ٰ کونسل نے قرار دیا کہ پوجا پاٹھ اور جنتر منتر کی جاپ کے ساتھ کیا جانے والا یوگا مسلمانوں کیلئے حرام ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی قطعی حوصلہ ا فزائی نہیں کریں کہ وہ یوگا کو بطور ایک ورزش اپنائیں۔کیونکہ یوگا کے آسن لا محالہ طور پر اس قسم کی و رزش کرنے والو ں کو پوجا پاٹھ اور جنتر منتڑ کے جاپ کی جانب آماد ہ کرتے ہیںجبکہ یہ چیزیں یقیناًً خلاف اسلام ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام کسی شخص کواس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے عقیدہ کوخراب کرے، یا مذہب میں بگاڑ پیدا کرے۔ ڈاکٹر موصوف کی مانیں تو یوگاکومحض جسمانی ورزش کے طور پر ادا کرنے سے بھی کسی شخص کے،مذہب پر اس کے ایمان و اعتقاد میں خلل پڑسکتا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کو یوگا پر عمل کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلامی فتویٰ کونسل کے سامنے جب یہ مسئلہ اٹھایا گیا کہ مسلمانوں میںیوگا پر عمل کرنے کے بارے میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے کہ آیا یہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟ تو اس سلسلہ میں ملشیا کی اسلامی فتویٰ کونسل نے فتوی ٰ جاری کرکے مسلمانوں پریوگاکرنے کی ممانعت کردی جبکہ ملیشیا کی کیبن گسان یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز سینٹر کے پروفیسر زکریا اسٹاپا نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ یوگا پر عمل کرہے ہیں تو فوری طور پرترک کردیں کیونکہ خدشہ ہے کہ اس طرح وہ اسلامی تعلیمات سے برگشتہ ہوجائیں گے۔

ڈاکٹر عبدالشکورکے بقول یوگا کو حرام قرار د ینے کا فتویٰ کونسل کے ارکان نے گذشتہ ماہ تفصیلی غور وخوض کے بعد جاری کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ کونسل کے ارکان یوگا کے مقاصد اور خصوصاً تاریخی تناظر میں اس عمل کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یوگا کا اصل مقصدبھگوان جیسا ہوجانا ہے۔ چنانچہ کونسل نے یہ فیصلہ دیا کہ مسلمانوںکیلئے یوگا کو اختیار کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے مسلمانوں کے عقائد متاثرہوسکتے ہیں جبکہ غیر مسلموں کے یوگا کرنے پرکوئی قدغن نہیں۔ یوں بھی فتویٰ کا اطلاق ہمیشہ مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے۔اس لئے غیر مسلموں کوا س بارے میں کوئی سوال کرنے یا بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘وہ جو چاہیں کرنے کےلئے آزاد ہیں‘ البتہ مسلمان اس فتویٰ کے پابند ہیں۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہوگابھوپال کے مفتیان کرام نے سوریہ نمسکار معاملے پر واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے بلکہ یوگا کے خلاف سنگا پور اور مصر میں بھی ایسے ہی فتاویٰ جاری ہوچکے ہیں۔ یوں بھی اسلام سختی سے اس بات کی تلقین ہی نہیں کرتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے بلکہ صحت مندطرز زندگی اختیار کرنے پر زور دیتا ہے، نماز پنجگانہ کی روزینہ ادائیگی اس کی بہترین مثال ہے۔آسن کا نعم البدل نماز میں سجدہ ہے جس میں نقصان تو کوئی نہیں لیکن مذکورہ فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ سجدے کی حالت میں بھی خون کا بہاﺅ سر کی طرف ہوتا ہے مطلب نماز میں سرش آسن کے فوائد بغیر کسی نقصان کے حاصل کرلیتا ہے۔اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جسے جس ترازو میں تولا گیا تو پورا اترا‘ مسلمان اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ اس میں سائنسی تحقیق کے مطابق فوائد ہیں‘ روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ میڈیکل سائنس نے اس کے بے شمار فوائد بتائے ہیں بلکہ یہ تو ہر حکم کواپنے رب کا حکم سمجھ کر کرتا ہے جبکہ حق کا خاصہ ہے کہ جو اسے اپناتا ہے اسے دنیاو آخرت دونوں میں کامیاب کردیتا ہے۔ اسلام کی بنیادی رکن نماز کا ذکراہم ہوگا۔ماہرین کے مطابق ارتکاز توجہ کی کوئی بھی مشق کرنی ہو تو اس سے پہلے سانس کی مشق یا طویل سانس لینی چاہئے جس سے انسان یکسو ہوجاتا ہے۔ گویا یکسوئی کی مشق کرنے سے پہلے مشق کیلئے یکسو ہونا چاہئے۔ غور کیا جائے تو اسلام نماز سے پہلے وضو کا حکم دیتا ہے اور یہ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ وضو سے انسان یکسو ہوجاتا ہے۔ گویا ایک مسلمان یکسوئی کی ایک مشق کرنے سے پہلے یکسوئی حاصل کرنے کے قانون سے صدیوں پہلے آگاہ ہوچکا ہے اب دوسرا مرحلہ نماز کا آتا ہے۔ نماز یکسوئی کا مکمل نصاب ہے۔ارتکاز توجہ یایکسوئی کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کامیاب مشق وہی ہے جس میں انسان اپنی نگاہ کیساتھ ساتھ توجہ وخیال کو بھی ایک نقطہ پر مرکوز کرے۔ مثلاً مشق شمع بینی کی ہو آئینہ بینی کی ہو یا سورج بینی اس میں شمع سورج یا آئینہ پر ٹکٹکی باندھ کر آنکھیں جھپکنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ممانعت ہے کہ توجہ ادھر ادھر بھٹکی نہ ہو اب غور کیا جائے تو کامیابی کا یہ قانون نماز سے اخذ شدہ ہے۔ نماز میں قیام کی حالت میں نگاہ سجدے کی جگہ پر مرکوز کی جاتی ہے اور رکوع میں پاﺅں کی پشت کو دیکھا جاتا ہے جبکہ سجدے میں ناک کو اور اس کے ساتھ ساتھ تمام تر توجہ نمازی نماز پر مرکوز کردیتا ہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔یکسوئی کی مشقوں میں ایک شرط اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ عامل جس پوزیشن میں بیٹھ جائے تو کمر اورگردن ایک سیدھ میں ہونی چاہئے اور ہلنے جلنے کی ممانعت ہے اس سے توجہ میں خلل پڑ جاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھی نماز میں ادھر ادھر جھکنے لگی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھ لیا تو مجھے اس زور سے ڈانٹا کہ میں (ڈر کی وجہ سے) نماز توڑنے کے قریب ہوگئی پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہو تو اپنے بدن کو بالکل سکون سے رکھے۔ یہود کی طرح ہلے نہیں‘ بدن کے تمام اعضاءکا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونے کا جز ہے۔ گویا کامیابی کا یہ قانون نماز سے اخذ شدہ ہے۔اس کیساتھ ماہرین فن یکسوئی کے طالب علم کو مشقوں کے دوران مقوی دماغ اشیاءکھانے کی تلقین کرتا ہے کہ دماغ میں ضعف پیدا نہ ہو۔ اس کیلئے ماہرین یوگ نے ایک آسن بتایا ہے جس کا نام ہے سرش آسن۔ اس آسن میں انسان سر کے بل کھڑا ہوتا ہے اس آسن کے دو فوائد بتائے جاتے ہیں۔ایک تو اس میں انسانی دماغ میں واقع غدود پینل گلینڈ جسے چھٹی حس بھی کہا جاتا ہے پر دباﺅ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں یہ غدودبتدریج بیدار ہوجاتے ہیں کہ یکسوئی مشقوں کا مقصد یہی ہے۔دوسرا فائدہ یہ کہ اس آسن کے دوران خون کا بہاﺅ انسان کے سر کی طرف ہوجاتا ہے جس سے انسان کا دماغ طاقتور ہوجاتا ہے۔ اس آسن کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن یہ آسن جتنا فائدہ مند ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہے‘ کیونکہ اس میں ذرا سی بے احتیاطی سے انسان کی گردن کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اسلئے ماہرین یوگ یہ آسن چند سیکنڈ سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔غور کیا جائے تو اس آسن کا نعم البدل نماز میں سجدہ ہے جس میں نقصان تو کوئی نہیں لیکن مذکورہ فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ سجدے کی حالت میں بھی خون کا بہاﺅ سر کی طرف ہوتا ہے۔ مطلب نمازی نماز میں سرش آسن کے فوائد بغیر کسی نقصان کے حاصل کرلیتا ہے۔ اب نماز کے آخری ارکان دونوں طرف سلام پھیرنے پر غور کیا جائے تو یہ یکسوئی کیلئے حیرت انگیز فوائد رکھتی ہے مثلاً یکسوئی کی جتنی بھی مشقیں ماہرین نے ذکر کی ہیں ان تمام کا مقصد انسانی دماغ میں واقع دو غدودپینل گلینڈ جو ناک سے ایک انچ اوپر واقع ہیں اور پچوٹری گلینڈ جو کہ دماغ گمین بیچ میں واقع ہیں‘ بیدار کرنے کیلئے کی جاتی ہیں۔لہٰذا نماز میں محض سلام پھیرنے ہی کو دیکھا جائے تو یہ چیز واقع ہوجاتی ہے۔ نمازی جب دائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو پینل گلینڈ پر دباﺅ پڑجاتا ہے جبکہ بائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو پچوٹری گلینڈ پر دباﺅ پڑتا ہے۔ نماز سے یہ تمام فوائد حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ نماز کے حقوق کا خیال رکھاجائے۔نماز اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا حکم ہے باقی تمام احکام زمین پر اترے اور نماز کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بلایا گیا نماز کفر اور اسلام میں فرق واضح کرتی ہے۔ نماز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور روز قیامت سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائیگا۔ اتنے بڑے حکم سے صرف یکسوئی حاصل ہوجائے تو یہ بہت چھوٹی سی بات ہے۔ اس حکم کے تمام فوائد احاطہ تحریر میں لانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ایسے میں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومت آخرمدھیہ پردیش کے اسکولوں میں سوریہ نمسکار کیوں کرواتی ہے ؟
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115823 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More