عراق میں صدر بش کی جوتوں سے تواضع

عراق میں صدر بش کی جوتوں سے عزت افزائی ‘ عراق عوام کے جذبات کے ترجمانی ہے کسی قوم کی تہذیب کو مٹانے کی کوشش میں مہذب معاشرے کے تمام اصولوں کو پامالی ایسے ہی واقعات کو جنم دیتی ہے بغداد میں صدر بش کی سیکیورٹی اس قدر سخت نہ ہوتی تو یقینا منتظرالزیدی کی تقلید میں کئی اور افراد صدر بش پر جوتا ماری کے عمل میں شریک ہوجاتے

بغداد میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور عراقی وزیراعظم نوری المالکی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اچانک ایک صحافی کھڑا ہو گیا اور اس نے یکے بعد دیگرے اپنے دونوں جوتے صدر بش پر پھینکے۔

جوتے پھینکنے کے بعد اس صحافی نے چیخ کر کہا :”یہ ہے عراقی عوام کی طرف سے تمہارا الوداعی بوسہ“۔

بش نے فوراً سر جھکا لیا اور وہ بال بال بچ گئے۔ دونوں جوتے زور سے ان کے پیچھے دیوار پر لگے۔ سیکیورٹی اہلکار فوراً حرکت میں آ گئے اورمذکورہ صحافی کو گرفتار کرلیا گیا ۔

کسی شخص کو جوتا مارنا یا اسے جوتے کے تلوے دکھانا، پھر اسے کتے جیسے جانورسے تشبیہ دینا جسے مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں نجس جانور سمجھا جاتا ہے، عرب دنیا میں کسی شخص کی انتہائی بے عزتی کرنے کا غالباً یہ سب سے واضح طریقہ ہے۔

صدر بش کی پریس کانفرنس میں جوتا پھینکنے والے صحافی منتظرالزیدی کے ایک ساتھی محمد عبدالرحمان نے بتایا:” وہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا کیوں کہ بش عراق میں حاصل کی جانے والی”کامیابیوں“ کا ذکرکر رہے تھے، جو ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتیں بلکہ اس کے برعکس آج ملک میں بجلی نہیں، خدمات کے شعبے نہیں، تعمیر نو وغیرہ کچھ بھی نہیں۔ اس لئے وہ بش کی یہ کہہ کر بے عزتی کرنا چاہتا تھا۔
 
” کہ دیکھو! تم جھوٹے ہو ہم اس بات کو نہیں مانتے“۔

عبدالرحمان نے کہا کہ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے۔ 2003 ء میں جب بش نے صدام حسین کا تختہ الٹا تو لوگوں نے بغداد میں صدام کے گرے بت کو جوتوں سے مار کراپنی نفرت کا اظہار کیا۔ آج یہی جوتے بش کو پڑ رہے ہیں۔

کسی ملک کے سربراہ کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ ذاتی حیثیت میں کسی ملک کا دورہ نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ملک و عوام کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح صدر بش بدنام زمانہ ہی سہی مگر عراقی دورے کے موقع پر وہ امریکی نمائندے تھے اور ملک و قوم کے ایجنڈے کے مطابق دورہ کر رہے تھے اب یہ الگ بات ہے کہ وہ ایجنڈا درست ہو یا سہی ! اسلئے صدر بش کے ساتھ کیا جانے والا سلوک پوری امریکی قوم کے ساتھ زیادتی اور غیر اخلاقی سلوک متصور کیا جائے گا جس کے نتائج بہرحال کسی طور بھی مسلم دنیا یا عراق کےلئے اچھے ثابت نہیں ہوسکتے ۔ قطع اس کے صدر امریکہ کے ساتھ معاندانہ سلوک ‘امریکی قوم کے ساتھ معاندانہ سلوک ہے جو یقینا امریکی قوم کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ لاکھوں امریکی ایسے بھی ہیں جو صدر بش کے پالیسیوں کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ ان کے واضع اظہار کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں جو یقینا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھی صدر بش سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی افغانی یا عراقی

دوسری جانب صدر بش پر ”جوتا ماری “ کرنے یا دوسرے لفظوں میں قاتلانہ حملہ ٹائپ ”جوتیانہ حملہ “ یا خود کش حملہ ٹائپ ” جوتا کش حملہ “ کرنے والے عراقی صحافی کو بھی غلط کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے کہ ایک جانب تو اس نے صدر بش پر برسا کر اپنے دونوں جوتوں کی قربانی دے دی اور دوسری جانب اپنی زندگی کے لئے ایک ایسا عذاب حاصل کرلیا جس کا تصور ہی انتہائی خوفناک ہے کیونکہ اب امریکی ایجنسیاں اسے یقینا القاعدہ کا رکن قرار دے کر تفتیش کے بہانے تشدد کے ذریعے اس پر وہ قیامت توڑیں گی کہ الامان والحفیظ ‘ مگر وہ بھی کیا کرتا کہ اس نے اپنے ملک کے پر امن عوام کو امریکی استبداد کے سبب روتے بلکتے دیکھا ہے ‘ اس نے ماؤں کو بچوں سے اور بچوں کو ماؤں سے بچھڑتے دیکھا ہے ‘ اس نے ضعیفوں اور مفلسوں کو ہی نہیں ‘ خوشحالوں کو بھی بھوک سی بلکتے دیکھا ہے ‘ اس نے اپنے ملک و قوم کو لہولہان اور معصوم و شیر خوار بچوں کو اپنے ہی لہو میں تیرتے دیکھا ہے ۔اس کی آنکھوں میں عراق پر امریکی حملے کی اس رات کا منظر آج بھی تازہ ہے جب بغداد میں ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی ‘ ہر سو دھویں کے کثیف مرغولے تھے ‘ امریکی و اتحادی افواج اپنی طاقت و شیطانیت کا بھرپور مظاہرہ کررہی تھیں اور شہری علاقوں پر داغے جانے والے بموں کی آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹے جارہے تھے ‘ اس نے تباہی و بربادی کے وہ مناظر مسلسل و شب و روز دیکھے ہیں جنہیں محض ٹی وی کے آگے بیٹھ کر دیکھتے ہوئے ہماری آنکھوں میں لہو اور لہو میں جذبات کی گرمی آجاتی ہے مگر دل دہل جاتا ہے اور انسانیت کی اس تذلیل پر چیخ چیخ کر رونا چاہتا ہے تو سوچئے کہ عراق کی بستیوں اور اس کے شہریوں پر کیا بیتی ہوگی؟ اور جن لوگوں نے اپنے شہروں کی تباہی اور اپنے لوگوں کی ناحق موت کے یہ مناظر نہ صر دیکھے ہیں بلکہ انہیں بھگتا بھی ہے اور ان کے اثرات کو براہ راست اپنی جسم و جان اور روح پر برداشت کیا ہے 

کیا ان سے یہ اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے دشمن کو دیکھیں اور اُف تک نہ کریں؟
قطعاً نہیں ! یہ انسانی فطرت کے بر خلاف ہوگا۔

صدر بش کو جوتے مارنے والے عراقی شہری ‘ صحافی منتظر زیدی نے جو بھی کچھ کیا اسے مہذب دنیا کچھ بھی کہے یا کتنا ہی غلط کیوں نہ قراردے یہ ایک حقیقت ہے کہ جس قوم کی تہذیب کو مٹانے کی کوشش میں مہذب معاشرے کی تمام اصولوں کو پامال کیا جائے تو اس قوم کے بچے کچے افراد کے لئے انسانی تہذیب کے اصولوں کو تا دیر یاد رکھنا ممکن نہیں رہتا اوران کا ردِ عمل اس سے بھی زیادہ سخت ہوسکتا ہے ۔

منتظر زیدی کی بش پر جوتا حملے کو عراق میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور عراقی قوم نے اسے قوم کی دلی آرزو کی تکمیل قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ” ایسے دور میں جب منافقت کا بازار گرم ہے ‘ کسی بھی ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں ‘ہر شخص اپنی کھال بچانے کے لئے کچھ کہنے سے کترا رہا ہے اور صرف اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ میں لگا ہو اہے ایسے میں منتظر زیدی نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو ہمارے وہ عرب لیڈر بھی نہیں کرسکے جو خود کو قوم کا ترجمان٬ جہادی اور عسکریت پسند کہتے ہیں ۔

عراقی قوم کے اس بیان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عرب لیڈروں کو بھی صدر بش کو جوتے مارنے چاہئیں بلکہ ان کا مفہوم یہ ہے کہ اگر امریکہ نے عراق کے خلاف اپنے حلیفوں کو یکجا کرلیا تھا تو عرب سربراہان بھی اپنے حلیفوں کی جماعت تیار کر کے امریکہ کو عراق کی تباہی و بربادی اور عراقی شہریوں کے قتل عام سے کیوں نہیں روک سکے؟

اگر دو ممالک کے درمیان فروغ پانے والے تعلقات اور معاملات کی بنیاد سفارتی سطح ہوتی ہے تو عرب لیڈروں کا بھی فرض تھا کہ وہ سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے امریکہ پر بھرپور دباؤ ڈالتے اور اسے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے باز رکھتے ‘ امریکہ کو عراق پر حملے سے باز رکھنے کے لئے عرب ریاستوں کی اسے تیل کی سپلائی بند کردینے کی دھمکی ہی کافی ہوتی مگر ایسا نہیں کیا گیا کیوں ؟

اور جب ایسا نہیں اور ہمارے لیڈروں کی جانب سے امریکی فوج کو عراق میں خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ صدر بش کو بھی خوش آمدید کہا گیا تو پھر منتظر زیدی نے جو کچھ کیا وہ باکل درست اور عرب قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے کیونکہ یہ اصول فطرت ہے کہ مظلوم ظالم دبتا ضرور ہے مگر صرف اپنی قوت برداشت کے ختم ہونے تک اور جب اس کی قوت برداشت ختم ہوجاتی ہے تو اگر وہ کچھ اور کہیں کرسکتا تو اپنی جبلت کی تسلی کے لئے ظالم کو کم از کم جوتا تو ضرور مارہی دیتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ منتظر زیدی کے اس اقدام کو عراقی عوام کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہوچکی ہے اور ان کے حراست میں لئے جانے کے بعد لاکھوں افراد نے ان کی گرفتاری کے خلاف ریلی و مظاہرے میں شرکت کر کے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ منتظر زیدی نے صدر بش کو جوتا مار کر حقیقی معنوں میں عراقی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی جارحیت اور مظالم پر عراقی عوام میں کس قدر غصہ بھرا ہوا ہے ‘ منتظر کے جوتوں سے صدر بش کا یہ جھوٹ بھی کھل گیا کہ عراق میں سب ٹھیک ہے لیکن سب اگر ٹھیک ہوتا تو پھر جوتے چلتے اور نہ جوتے چلانے والے کی گرفتاری کے لئے عوام سڑکوں پر آکر ریلیاں نکالتے اور نہ مظاہرے کرتے جبکہ کچھ عرب دانشوروں کا یہ کہنا بھی ہے کہ ”چونکہ بغداد میں سیکیورٹی سخت تھی اسلئے صرف منتظر ہی صدر بش پر جوتے پھینک پائے اگر سیکیورٹی اس قدر سخت نہ ہوتی تو یقینا منتظر کی تقلید میں کئی اور افراد صدر بش پر جوتا ماری کے عمل میں شریک ہوجاتے “ ۔

لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بغداد میں منتظر الزیدی کے ہاتھوں جوتے کھانے کے باوجود بھی امریکی صدرجارج ڈبلیو بش نے ایک بار پھر عراق جنگ کا دفاع کیا اور اسے درست قرار دیا حالانکہ نہ صرف لاکھوں عراقی بلکہ 4200 سے زائد امریکی فوجی بھی اب تک اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ آدمی جب بے حس اور خون آشام ہوجاتا ہے تو ذلت اور رسوائی کو بھی عزت افزائی قرار دےکر تفاخر سے مسکراتا ہے اور اپنی ذلالت کی روش پر گامزن رہتا ہے ‘ جارج بش کا معاملہ بھی یہی ہے کہ وہ جوتے کھاکر بھی پشیماں نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مسکراتے ہوئے اس واقعہ پر انٹرویو دیا اور اسے جمہوریت و آزادی کا ثمر قرار دے دیا جبکہ یہ بجا حقیقت ہے کہ صدر بش پر ”جوتا ماری “ آزادی یا جمہوریت کا ثمر نہیں بلکہ ” مکافات عمل “ ہے کیونکہ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاکر اس پر تسلط و غلبہ حاصل کرنے والے بش نے فتح کے نشے میں چور ہوکر اپنے خوشامدی ٹولے کو صدام حسین کی املاک لوٹنے اور اس کے مجسمے کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنے اور صدام کے مجسمے کو جوتے لگانے کی کھلی چھوٹ دی تھی آج اسی عراق میں صدر بش کو بھی بدترین ذلت سے دوچار ہونا پڑا ہے ‘ صدر صدام کو ہلاک کرنا بش کی خواہش تھی تو صدر صدام تو مر کر بھی اَمر ‘ باعزت اور محترم ہے جبکہ بش کو زندگی میں ہی عراق میں جوتوں اور خود اپنے ملک امریکہ میں اپنی ہی عوام کے ہاتھوں ذلت ورسوائی کا سامنا ہے ۔ 
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 5 Articles with 4446 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.