حکومت کے نواز لیگ سے رابطے

پیپلزپارٹی نے قبل از وقت انتخابات سے متعلق اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات رواں سال مارچ کی بجائے فروری اور عام انتخابات اکتوبر میں کرانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کے نواز لیگ سے رابطے جاری ہیں۔ جبکہ فریقین مزید بات چیت کے بعد مشترکہ طور پر لائحہ عمل وضع کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پل پل بدلنے والی سیاسی صورتحال میں اتنی تیزی آگئی ہے کہ صبح کی افواہ شام تک خبر کا روپ دھارلیتی ہے اور صبح کی خبر شام تک باسی ہو چکی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے سینیٹ اور عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ تحریک انصاف نے کافی عرصہ قبل ہی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے جبکہ جے یو آئی بھی جگہ جگہ جلسے منعقد کررہی ہے۔ نواز شریف مختلف شہروں کے دوروں پر نکل پڑے ہیں تاکہ ن لیگ کی ملک بھر بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں تنظیم نوکا عمل مکمل کرسکیں۔ پی پی بحرانوں میں گھرنے کے باوجود نئے صوبوں کے قیام کا شوشا چھوڑ کر عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی تگ و دو کررہی ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم حکومت میں اتحادی ہیں لیکن آپس میں لڑرہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمن بھی متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے مایوس ہوکر نواز شریف کی طرف ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہوگئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی بھی اپنے طور پر ن لیگ سے اتحاد کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے کمزور ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ آپس میں متفق نہیں ہورہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک نواز شریف طاقتور ہیں تب تک پاکستان کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کو مرکزی رول اور اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ نواز لیگ کی کمزوری میں ہی مذہبی جماعتوں کی بقا مضمر ہے۔

2012ءکو انتخابات کا سال قرار دیا جارہا ہے۔ آیندہ عام انتخابات کے حوالے سے مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ ستمبر، اکتوبر سے قبل ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ابھی ووٹر لسٹیں مکمل نہیں ہیں اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹیں مکمل کرنے کے لیے 23 مارچ تک کی مہلت دے رکھی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاست میں آیندہ چند دن نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ حکمران جماعت صدر زرداری کو بچانے کے لیے ہاتھ پاﺅں ماررہی ہے۔

این آر او فیصلے پر عدالت نے عمل درآمد کے لیے 10 جنوری تک مہلت دے رکھی ہے، لیکن پی پی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں صدر کے خلاف سوئس عدالتوں کو خط نہ لکھنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اکثریت سمجھتی ہے کہ سوئس کورٹ کو خط نہ لکھا جائے کیونکہ اس کا مطلب بے نظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل ہے۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ آئین نے صدر کو استثناءدیا ہے۔حالانکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری واضح کرچکے ہیں کہ اگر کسی کو استثناءحاصل ہے تو وہ بھی عدالت سے مانگنا پڑتا ہے۔ اگر پارٹی نے ہی یہ فیصلہ کرنا ہے تو پھر بتایا جائے کہ اعلیٰ عدلیہ آئین کی تشریح کا حق رکھتی ہے یا سیاسی پارٹیاں؟

اصل بات یہ ہے کہ حکومت عدلیہ کو انتہائی اقدام پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ حکومتی شخصیات یہ تاثر دے رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے ”احکام“ کی وقعت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ صرف ”حکم“ ہے۔ سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کے نائب صدر بابر اعوان سمیت فردوس عاشق اعوان، خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ اور فاروق اعوان کو توہین عدالت کیس میں نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔ اس حوالے سے 13 جنوری کو کارروائی ہوگی۔ اس توہین آمیز پریس کانفرنس کے بعد بابر اعوان نے ایک بار پھر عدالت کے نوٹس کا مذاق اڑایا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد خورشید شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ”توہینِ عدالت کی کوئی پرواہ نہیں ہے“۔ حالات سنگین ہیں حکومت سپریم کورٹ سے لڑائی کی بات کررہی ہے حکومتی شخصیات فوج اور اسٹیبلشمنٹ پرپھبتیاں کستی نظر آتی ہیں۔

پی پی کے بعض لوگوں کو پہلے بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے لیکن سپریم کورٹ نے ابھی تک کسی کو مجرم قرار نہیں دیا۔ وزیراعظم گیلانی کی جانب سے این آر او سمیت سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرکے اعلیٰ عدلیہ کی توہین کی گئی حالانکہ این آر او کے حوالے سے فیصلہ نومبر 2009ءمیں دیا گیا تھا لیکن حکومت اب تک اس پر عملدرآمد سے انکاری ہے۔

وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، قمر زمان کائرہ یا تاج حیدر اور شرجیل میمن کی توہین آمیز پریس کانفرس پر سپریم کورٹ نے نوٹس تو لیا لیکن کبھی بھی ان مقدمات کی کارروائی مکمل نہیں کی۔ سابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کو جب عدالت نے اس عہدے سے ہٹایا تھا تو اس پر پی پی سندھ نے سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف ہڑتال کا اعلان کردیا۔ ان کی دیدہ دلیری اور حوصلہ افزائی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی پی رہنماﺅں کو یقین ہے کہ اگر انہیں کسی بھی عدالت نے توہین عدالت کے زمرے میں کوئی سزا سنائی تو صدر مملکت معافی دینے کااختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ میں کیے جانے والے توہین آمیز تبصروں اور ریمارکس کو استثناءحاصل ہے ،لہٰذا اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔

مبصرین کے مطابق آنے والے دنوں میںعدلیہ وحکومت کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے اور حکومت خود ایسے فیصلے کررہی ہے جس سے عدالت سے محاذ آرائی بڑھ سکتی ہے یہ حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہوگا۔ اس وقت حکومت کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جبکہ سپریم کورٹ میں حکومتی شخصیات کے خلاف کئی مقدمات چل رہے ہیں۔ جن میں بڑے فیصلے متوقع ہیں کیونکہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ اب آرڈر نہیں ایکشن ہوگا۔ جس کے سبب حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ شدید دباﺅ کا شکار ہے۔ اس دباﺅ سے نکلنے کے لیے حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات پر آمادگی ظاہر کردی ہے تاکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ کے حکومت کے ساتھ رویے میں بہتری آسکے اور وہ اس بحرانی کیفیت سے نکلنے میںحکومت کا ساتھ دے۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.