چین کو کب تک ملے گی نقالی کی چھوٹ؟

گذشہ روز انگریزی صحافت میں اپنی مدلل اور معتبر رپورٹنگ کیلئے معروف ’فائنانشیل ٹائمز‘ میں رپورٹ شائع ہوئی ہے جس سے چین میں پاپولر انڈین برانڈوں کی مصنوعات کی نقالی کامعاملہ سامنے آیا ہے۔اطلاع پر یقین کریں تو چین میں ڈابر اور آئی ٹی سی کے پراڈکٹس کی دھڑلے سے نقل ہو رہی ہے۔ اس نقل کا اثر یہ ہوا ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو تقریبا 5 ارب ڈالریعنی 265 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ڈابر انڈیا کے جنرل مینیجر برائے مالیات اشوک جین نے کہا کہ ’میڈ ان انڈیا‘ کے اعلان کے ساتھ چین میں بنے نقلی پراڈکٹس کا ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہو رہا ہے‘ جین نے کہاہے کہ اس سے برانڈ کو کافی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ نقلی پرڈکٹس اچھی کوالٹی کے نہیں ہوتے اور انہیں کافی کم قیمت پر بیچا جاتا ہے۔وہیں آٹی سی کے سینئر افسر پردیپ دکشت نے بھی کہا کہ ان کے پرڈکٹس کی نقل کی جا رہی ہے۔ مرکزی مصنوعات کی فیس اور حد فیس محکمہ کے صدر ایس کے گوئل کے مطابق چین ہر کسی کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گوئل نے کہا کہ ایڈی ڈاس ، ریباک اور نیویا جیسے بڑے انٹرنیشنل مشہور برانڈوں کی بھی چین میں نقل ہی نہیںکی جا رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں ان کو برآمدبھی کیا جا رہا ہے۔

دہلی کے ڈی سی پی (کرائم) کے کے ویاس نے کہا کہ پولیس نے حال ہی میں بڑی مقدار میں پاپولر برانڈس کے نقلی پراڈکٹس ضبط کئے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غلط طریقے سے اس طرح پراڈکٹس بنانے والوں اور اسے درآمد کرنے والوں کو سخت سزا دئے جانے کی ضرورت ہے۔ فیڈریشن آف انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری FICCI کی ایک کمیٹی کے صدر انل راجپوت نے کہا کہ نقل ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے کنزیومر ، انڈسٹری اور ریوینیو ہر ایک کو نقصان ہوتا ہے۔تھنک ٹینک انڈیا فارینسک ریسرچ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق نقل ، تجارتی جرم ، اسمگلنگ ، ٹیکس چوری اور رشوت جیسی سرگرمیوں سے معیشت کو تقریبا 22528 کروڑ کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔
 

image
image

سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی نٹی اطلاع ہے جبکہ مئی کے دوران ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاع شائع ہوچکی ہے کہ چین معروف برانڈوں کی نقل کرتا رہا ہے۔فرق اس اتنا ہے کہ اس سے قبل نقالی میں ہندوستان کو نشانہ نہیں بنایاگیا۔پریشانی تو اپنے سر پر مصیبت آنے سے ہوئی ہے۔گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کی سب آرڈنیٹ لیجس لیشن کمیٹیparliament subordinate legislation committee نے ممبئی میں کسٹم اور بندرگاہ حکام کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس میں سب سے بڑی تشویش کی بات یہ تھی کہ چین سے بھاری مقدار میں ایسا سامان آ رہا ہے جس میں پیٹیٹ ، ٹریڈ مارک اور اپنی مرضی کے قوانین پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے برانڈوں کی نقل چین میں محض تیار ہی نہیں ہورہیں بلکہ ملک میں آکر کھلے عام فروخت بھی ہو رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو چیزیں ہندوستان میں ملنی چاہئیں وہ سب چین سے بن کر آ رہی ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گنیش‘ لکشمی ، کرشن بھگوان ، شنکرجی ،ہنون جی تمام کی مورتیاں چین سے بن کر آ رہی ہیں۔ بھگوان بدھ کی شکل کے گرو نانک دیو جی چین سے آ رہے ہیں۔ اور تو اور ہمارا قومی پرچم بھی چین سے بن کر آ رہا ہے جبکہ اس قسم کی چیزوں کا وقار اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے جب ان کے صناعی ہندوستان میں ہی کی جائے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دس سال سے یہ چیزیں چین سے بن کر آ رہی ہیں لیکن محض معمولی منافع کمانے کے لالچ میں ہندوستانی تاجر انہیں بازاروں میں بھرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچا رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف ہندوستان کے چھوٹی بڑی صنعتیں‘ انڈسٹری اور دھندے چوپٹ ہی نہیں ہو رہے ہیں بلکہ لاکھوں لوگ بے روزگاری سے بھی نبردو آزما ہو رہے ہیں۔ دنیا کی تمام معززاور معروف برانڈوں کی نقل چین سے بھیجی جا رہی ہے۔ ان مہنگے برانڈوں کے نقلی سامان کو چین کوڑیوں کے بھاو بیچ رہا ہے۔ دیکھنے میں یہ سامان قطعی اصلی لگتے ہیں لیکن استعمال کرنے پر کچھ ہی دنوں میں جواب دے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اصلی موبلاmobla pen پین کی قیمت پانچ ہزار سے لے کر پانچ لاکھ روپے تک ہے لیکن چین سے 100سے200 روپے میں یہ پین آ رہا ہے۔ اسی طرح تقریبا تمام برانڈوں کی چینی نقل موجود ہے۔
 

image

پارلیمنٹ کی کمیٹی کو اپنی مرضی کے افسران نے بتایا کہ ایسے مال پر پابندی لگانے کے لئے سخت قوانین -- قانون نہیں ہیں۔ جب بھی ہم ایسا کوئی مال روکتے ہیں تو درآمد کرنے والے تاجر دباؤ ڈالنے لگتے ہیں اور مال روکنے سے ہونے والے نقصان کی تلافی کا نوٹس دینے لگتے ہیں۔ یہی نہیں ، وہ لوگ عدالتوں میں جاکر وہاں سے آرڈر لے آتے ہیں اور مجبور ہوکر مال چھڑانا پڑتا ہے۔

ان افسران کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسٹم ملازمین اور افسران کو بھی پےٹےٹ یا ٹریڈ مارک قوانین کا صحیح علم نہیں ہے۔ انہیں ایسی تربیت کی ضرورت ہے جس سے وہ سامان کی شناخت کر سکیں۔ تمام بین الاقوامی قانون ہیں جن کے تحت ایسے سامان کو روکا جا سکتا ہے لیکن ہمارے افسران کو ان کا پتہ نہیں ہے۔ اس معاملے میں پارلیمنٹ کو نئے قوانین بنانے چاہئے۔ ابھی تک ضابطہ یہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی کمپنی کو اگر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے برانڈ کا نقلی سامان بن رہا ہے تو اسے ہندوستانی کسٹم میں شکایت درج کرانی پڑے گی اور اس کی شکایت کی بنیاد پر ہی ہم ایسا سامان روک سکتے ہیں۔ دنیا کی کچھ ہی کمپنیوں نے نقلی سامان کی شکایت درج کرائی ہے۔ جہاں تک ہندوستانی کمپنیوں کا سوال ہے ، انہیں بھی ایسے قوانین کے تحت اپنی مرضی کے محکمہ میں شکایت درج کروانی چاہئے۔ اب تو چین نے دنیا کے مشہور ادیبوں کی کتابیں بھی غیر قانونی طریقے سے نہ صرف چھاپنی شروع کر دی ہیں بلکہ یہ کتابیں دوسرے ممالک میں دھڑلے سے فروخت بھی کر رہا ہے۔ اسے مالکانہ حقوق کے قانون کی خلاف ورزی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ہالی ووڈ اور بالی وڈ کی فلموں کی نقلی سی ڈی چینی بازاروں میں کھلے عام 30 روپے میں فروخت کر رہی ہیں جبکہ چینی کمپنیوں کے جارحانہ رخ پرنہ صرف لگام کسنی چاہئے تھی۔ چین سے وہ سامان درآمد ہونا چاہئے تھا جو وہاں سستا میسر ہے یعنی ایسا سامان ہی درآمد ہونا چاہئے جس کی ہندوستان میں ضرورت ہے اور جو ہندوستان میں نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ عام صارفین اشیاء چین سے نہیں آنی چاہئیں۔ ایسے بہت سے تکنیکی سامان اور چیزیں ہیں جو ہندوستان میں بنانی یا ملنی مشکل ہیں۔ انھیںترجیح کی بنیاد پر چین سے لانا چاہئے۔ ہندوستانی انڈسٹری چین کو ایسی چیزیں بھیجے جو ان کیلئے ضرورت کی ہوں۔فی الحال ہندوستان میں بستر ، پلنگ ، فرنیچر تک چین سے آ رہے ہیںجس سے ہندوستانی جوتا انڈسٹری ، لکڑی کی صنعت چوپٹ ہوتی جا رہی ہے چونکہ ہندوستان میں صارفین کی سب سے زیادہ تعداد میں ہیں اس لئے دوسرے ملک کے مقابلے میں چینی کمپنیوں کی نگاہیں ہندوستان پرپیوست ہیں۔ وہ اپنی ڈپلومیسی کا فائدہ تو پاکستان کو فراہم کرتا ہے لیکن اپنا مال ہندوستان میں فروخت کر کے پیسہ کماتا ہے۔ اس کام میں ہندوستانی تاجر منافع کے لالچ میں ان کی کھل کر مدد کرتے ہیں۔ درآمد و برآمد ایک دوسرے کی ضرورت کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اگر ایسا کرنے میں دونوں طرف کے لوگ کامیاب ہوئے تونہ صرف ہند-چین تجارت بڑھے گی بلکہ دونوں ممالک کی دوستی واقعی مضبوط ہوگی۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116442 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More