”ہفتہ خوش اخلاقی“

ہمارے ہاں کہنے کو تو جمہوری نظام ہے ، مگر طور طریقے سارے آمرانہ ہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کی وراثت ہیں، کوئی پارٹی لیڈر جب گزر جاتا ہے، تو اس کی دیگر جائیداد کی طرح پارٹی بھی اس کی اولاد کو منتقل ہوجاتی ہے، اور پارٹی میں موجود دوسرے ”رہنما“ بھی کسی وفادار منشی کی طرح اولاد کی خدمت میں جت جاتے ہیں، ان کے والد سے اپنی عقیدت اور خدمات کے قصے سنا کر نئے سربراہ کے دل میں گھر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوتا یہ کہ عقیدت کے نام پر خوشامد کا سلسلہ ہے جو باپ دادا سے شروع ہوکر نسل در نسل منتقل ہوتا جاتا ہے، نوجوان بلاولوں اور حمزہ شریفوں کے ارد گرد بوڑھے منشی یوں بیٹھے گردنیں ہلارہے ہوتے ہیں، جیسے ان سے بڑا دانشور ، مسیحا اورنجات دہندہ آج تک چشم فلک نے نہیں دیکھا اور ان کے ’بڑے‘ کی سب سے بڑی خوبی اور خدمت یہی تھی کہ وہ ’آپ‘ جیسا رہبر ہمیں عطاکر گئے۔

پارٹیوں کے اس رجحان اور ان کے رہنماؤں کے ایسے رویوں کی وجہ سے پارٹیاں انہی کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں، ان کی ذاتی جاگیر ہیں، کوئی ”سیاسی مزارعہ“ ان کی مرضی کے خلاف نہ کوئی حرکت کرسکتا ہے اور نہ ہی جاگیر میں رہ سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پارٹیاں عوام میں مقبول ہیں اور اسی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی لیڈر اپنے مقامی رہنماؤں کو دبا کر رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے مقامی لیڈر بھی اسی پارٹی کی طرف جاتے ہیں جہاں سے کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ ان پارٹیوں کے قائدین کا رویہ کسی سے پوشید ہ نہیں ہوتا، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کسی مزارعہ کے ساتھ زیادہ بے تکلفی ہوجاتی ہے اور کوئی ذرا دور ہی رہتا ہے۔پاکستان میں کونسی ایسی جماعت ہے ، جو کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، سوائے جماعت اسلامی کے۔ ن لیگ ذاتی جاگیر اور تلخ رویوں کے معاملہ میں سرفہرست ہے، کچھ یہی حال پی پی کا بھی ہے کہ پارٹی کی مرحومہ سربراہ اپنے لوگوں کو جھاڑ اور دبا کر ہی رکھتی تھیں۔یقینا دیگر جماعتوں میں بھی ایسے ہی مناظردیکھنے کو ملتے ہیں۔

چند ماہ قبل ملک میں اچانک عمران خان کا سیلاب برآمد ہوا، عمران خان نے اسے سونامی قرار دیا، تباہی کہاں سے چلے گی اور کہاں تک سفر کرے گی ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ، مگر اس سے ایک فرق یہ پڑا کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے اندرون ِ خانہ ”ہفتہ خوش اخلاقی“ منانے کا فیصلہ کیا ہے ، اب میاں برادران نے اپنے پارٹی کے ممبران اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے،بلکہ اپنی مہم میں مزید تیزی لاتے ہوئے انہوں نے اپنے ممبران کو خصوصی اور اضافی فنڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ ق لیگ کے فارورڈبلاک کے لوٹوں ( واضع رہے کہ یہ لفظ لوٹ کر آنے والوں کے معانوں میں استعمال کیاگیا ہے) کو بھی تالیف قلب کے لئے فنڈز کے ساتھ آنے والے الیکشن میں ٹکٹ کے وعدے بھی شامل ہیں۔

کارکنوں کا دل نرم کرنے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے ، انہیں مختلف کمیٹیوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا، ممکن ہے سرکاری گاڑی کے جھولے اور دیگر مراعات کا مزہ بھی چکھادیا جائے، یا ایسے اختیارات عنایت کردیئے جائیں جن سے معاشی فائدہ حاصل کرنے کے امکانات بھی روشن ہوں، ویسے یہ کام تو پہلے بھی کسی حد تک ہورہا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اصول پسندی ، بچت اور دیانت داری کے دعووں کو برقرار رکھتے ہوئے صوبائی حکومت کس طرح اپنے لوگوں پر سرکاری خزانوں کے دروازے کھولے گی؟ میاں برادران کو اس مشن پر چلنے سے قبل یہ بھی سوچ رکھنا چاہیئے کہ اس عمل سے پارٹی کے اندر اور باہر بے چینی اور غیظ وغضب کی لہر بھی اٹھے گی اور انقلاب لانے کا دعویٰ کرنے والے خادم پنجاب خود بھی انقلاب کی زد میں آجائیں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 432537 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.