” ٹاک اینڈ انٹرٹینمنٹ شوز“

”پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز پر ہر رات 8بجے سے 12بجے تک پیش کئے جانے والے ٹاک شوزعوام کی اکثریت کے” پسندیدہ انٹرٹینمنٹ ٹی وی شوز“ بن گئے ہیں۔ایسے انٹرٹینمنٹ شوز جنہیں رات کے کھانے کے بعد دیکھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ دن بھر کی تھکن بھی اتر جاتی ہے اور سیاسی ہواؤں کا رخ بھی پتا چل جاتا ہے“

یہ ایک دو کی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر اس مرد کی رائے ہے جو پہلے اخبارپڑھ کر سیاست پر بحث کرتا تھا ۔۔اور۔۔ اب ٹاک شوز دیکھ کر اسے سیاسی موضوعات پر بولنے کا’ مصالحہ ‘مل رہا ہے۔ دن بھر کی سب سے اہم خبر پر آٹھ بجے کاٹاک شو، دوسری بڑی خبر پر دس بجے کا ٹاک شو اورتیسری خبر پر رات گیارہ بجے کا ٹاک شو ، ہر چینل کے لئے لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ اور ہر اگر کسی دن کوئی انتہائی اہم واقعہ ہوجائے تو کئی کئی دن دنوں تک اسی موضوع پر ٹاک شوز میں بحث جاری رہتی ہے۔

اس تمام صورتحال کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ موضوع کوئی بھی ہوہر پارٹی نے دو چار لوگوں کو اظہار خیال کے لئے رکھا ہوا ہے اس لئے یہ چہرے آج فلاں ٹی وی شوز میں نظر آتے ہیں تو اگلے دن یہی چہرے کسی دوسرے چینل کے ،کسی اور پروگرام میں، کسی اور موضوع پر بحث مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ن لیگ کے احسن اقبال، رانا ثنا اللہ ، پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی ، فیصل رضا عابدی، متحدہ قومی موومنٹ کے حیدرعباس رضوی، وسیم اختر ، فاروق ستار ، مصطفی کمال اور رضا ہارون، تحریک انصاف کے عمران خان اور ق لیگ کے کامل علی آغا وغیرہ وغیرہ ۔

ہر رات ٹاک شوز دیکھنے کے عادی کراچی کے ایک باسی ابراہیم طفیل نے وی او اے سے تبادلہ خیال میں کہا کہ ” ٹاک شوز کا اصل مزہ اسپیکرز کی شعلہ بیانی ہے۔ گوکہ یہ شعلہ بیانی کبھی کبھی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے مگر انہیں ہر کوئی دیکھنا پسند کرتا ہے۔“

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹاک شوز کی ریٹنگ باقی پروگرامز کے مقابلے میں بہت زیادہ’ ہائی‘ ہوتی جارہی ہے لیکن ماہر نفسیات احمدہمدانی کا کہنا ہے کہ ”ان پروگراموں سے معاشرے میں شدت پسندی کا رجحان مزید بڑھ رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ لوگ ان پروگراموں کو دیکھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کریں، لوگوں کے نفسیات پر ان پروگراموں کا اثر یہ ہورہا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت ختم ہورہا ہے“

اگرچہ یہ وہ پروگرامز میں جن میں انتہائی اہم ملکی ،سیاسی، عسکری اور حکومتی معاملات کو زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن جس انداز میں انہیں پیش کیا جارہا ہے اسے انتہائی مختصر الفاظ میں کہیں تو ان کی تعریف یہ ہوگی کہ ”ایسے ٹاک شوز جن میں ہر شام سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں“

پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کو آئے دس سال ہوگئے۔ اس حوالے سے عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہوگیا ہے مگر کچھ لوگ اسے حدود سے باہر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً ایک معروف کالم نگار اور صف اول کے تجزیہ نگار جو نام ظاہر کرنا نہیں چاہتا اس کا کہنا ہے کہ ”ملکی میڈیا آزاد نہیں ’آوارہ ‘ ہوگیا ہے۔ “

ایک اورسینئر صحافی محمود شام کا کہنا ہے کہ ” دنیا بھر میں الیکٹرونک میڈیا کے آجانے سے اخبارات کا حجم کم سے کم تر ہوتاجارہا ہے لیکن پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے آجانے کے باوجود پرنٹ میڈیا کی قدر کم نہیں ہوئی البتہ میڈیا میں کچھ کم پڑھے لکھے لوگ بھی آگے آگئے ہیں جس کے سبب وہ صحافت کو اب مشن نہیں کاروبار سمجھ رہے ہیں ، اور جو چاہتے ہیں دکھادیتے ہیں۔ خواہ وہ ملک کے خلاف ہو یاکسی اور کے“

پاکستان میں اس انداز میں ٹاک شوز پیش کرنا کہ جس سے پہلی نظر میں یہ محسوس ہو کہ شرکا ء آپس میں دست و گریبان ہیں ، پڑوسی ملک کے ٹی وی پروگراموں کو دیکھ کر اپنا یا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر ٹی وی چینل بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہا ہو۔۔کچھ چینل ابھی بھی ایسے ہیں جن کے ٹاک شوز واقعی معلوماتی ہوتے ہیں خاص کر سرکاری ٹی وی چینلز ۔۔مگر چونکہ آج کا ہر ٹی وی چینل ریٹنگ میں اوپر سے اوپر رہنے کا خواہشمند ہے لہذا سب کے سب ’بھیڑ چال‘ میں شامل ہورہے ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تمام تنقید کے باوجود آج کا پاکستانی میڈیا پہلے کے مقابلے میں سو فیصدی باخبر ہے اور لوگوں میں ہر اس موضوع پر معلومات بہم پہنچارہا ہے جو پہلے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر اسے زرا سا قبلہ درست کرنے کے ضرورت ہے۔

بشکریہ:
وسیم اے صدیقی - کراچی