کیوں ہے نئی دہلی میں آج بھی انتہائی آلودگی ؟

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اپنی نوعیت کے پہلے عالمگیر سروے سے پتہ چلا ہے کہ ایران، پاکستان، ہندوستان اور منگولیا کے شہر دنیا کے آلودہ ترین شہر ہیں جبکہ امریکہ اور کینیڈا میں واقع شہروں کی فضا سب سے زیادہ صاف ستھری ہے۔ایک دہائی پہلے ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں زیر زمین ریلوے اور کاربن سے پاک ایندھن سے چلنے والی بسیں متعارف کروائے جانے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ان اقدامات کے بعد اس شہر کی آب و ہوا زیادہ صاف ستھری ہو جائے گی۔عالمی ادارہ صحت کے نتائج کے اجراءکا مقصد فضائی آلودگی میں کمی کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ اندازوں کے مطابق اِسی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال 1.34 ملین انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضا میں آلودگی کے تناسب کو کم کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے فوائد بہت جلد سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ فضا جتنی صاف ستھری ہوتی چلی جائے گی، صحت اور علاج پر اٹھنے والے اخراجات بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جائیں گے۔اس سروے میں گزشتہ کئی برسوں کے اعداد و شمار کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس سروے کے تحت دنیا کے تقریباً گیارہ سو شہروں میں دَس مائیکرو میٹر سے کم سائز کے یا PM10s کہلانے والے ذرات کے تناسب کو ماپا گیا تھا۔یہ ذرات انسانوں میں سانس لینے کے حوالے سے سنگین مسائل کا باعث بن سکتے ہیں، اسی لئے عالمی ادارہ صحت نے ان ذرات کی زیادہ سے زیادہ حد بیس مائیکروگرام تجویز کی ہے۔ یہ ذرات زیادہ تر سلفر ڈائی آکسائیڈز اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈز ہوتے ہیں جو پاور پلانٹ، موٹر گاڑیوں یا پھر کارخانوں وغیرہ سے خارج ہوتے ہیں۔

تاہم ایک تازہ جائزے کے مطابق ہوش ربا ترقی اور کاروں کی تعداد میں ڈرامائی اضافے کے نتیجے میں آج بھی نئی دہلی کی ہوا اتنی ہی خراب ہے جتنی کہ ایک دہائی پہلے تھی۔ شہر بھر میں فضائی آلودگی کو ماپنے کے آلات نصب ہیں، جن کے مطابق ہوا میں موجود گرد کے انتہائی باریک ذرات کی مقدار اس سے ہمیشہ دو یا تین گنا زیادہ ہی ہوتی ہے، جو شہر کی انتظامیہ نے رہائشی علاقوں کیلئے مقرر کر رکھی ہے۔ مزید یہ کہ آج بھی اِس شہر کا شمار بیجنگ، قاہرہ اور میکسیکو جیسے دنیا کے آلودہ ترین دارالحکومتوں میں ہوتا ہے۔ اِس شہر کی سڑکوں پر پہلے سے رواں دواں چھ ملین کاروں میں ہر روز بارہ سو نئی کاروں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت ڈیزل کو سبسڈی دیتی ہے اور اسی لئے فضا کو زیادہ آلودہ کرنے والا یہی ایندھن استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ گرد اور دھواں، جو پہلے باہر کھلی فضا تک ہی محدود رہتے تھے، اب گھروں کے اندر بھی دکھائی دیتے ہیں، جس سے زیادہ سے زیادہ شہری سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

نئی دہلی میں قائم سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر انومیتا رائے چوہدری کہتی ہیں کہ ’اِس شہر نے 2004اور 2005کے دوران جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، اب وہ ان سے پھر محروم ہو چکا ہے‘۔ایک دور میں، جب نئی دہلی کی آبادی 9.4 ملین تھی، اِس شہر کو کنٹرول کرنا نسبتاً آسان تھا۔ دوسرے شہروں سے روزگار کیلئے ہندوستانی دارالحکومت کا رخ کرنے والوں کی وجہ سے اب اِس شہر کی آبای بڑھ کر 2کروڑ کے قریب جا پہنچی ہے۔ہندوستانی دارالحکومت کی فضا کو بہتر بنانے کیلئے 1998سے لے کر 2003تک ایک کامیاب پروگرام پر عملدرآمد کیا گیا جس کے تحت بجلی گھروں کو شہر کے مرکز سے دور منتقل کر دیا گیا اور بسیں اور رکشہ چلانے کیلئے سی این جی استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو ایندھن کی دیگر اَقسام کے مقابلے میں سب سے کم آلودگی پیدا کرتی ہے جبکہ ہوا میں دس مائیکرو میٹر سے کم سائز کے PM10s کہلانے والے ذرات انسانی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہیں۔ عالمی ادارہءصحت WHO کے مطابق یہ انتہائی باریک ذرات انسانی پھیپھڑے تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں مستقل ڈیرا جما لیتے ہیں۔ WHO کے مطابق ان ذرات ہی کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں 1.34 ملین انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہندوستانی دارالحکومت میں ایسی اموات ہزاروں میں ہیں۔ اِسی لئے اِس عالمی ادارے نے ہوا میں اِن ذرات کی زیادہ سے زیادہ مقدار 20 ذرات فی کیوبک میٹر تجویز کر رکھی ہے۔ نئی دہلی انتظامیہ نے 100 ذرات فی کیوبک میٹر کی قانونی حد مقرر کی تھی جبکہ آج کل اکثر اِس شہر میں 300 ذرات فی کیوبک میٹر بھی ناپے جاتے ہیں۔

ہندوستان میں ڈیزل کیلئے سرکاری مراعات کا بنیادی مقصد غریب کاشتکاروں کو جینریٹروں اور ٹریکٹروں کیلئے سستا ایندھن فراہم کرنا ہے تاہم اِس سرکاری اقدام کے نتیجے میں ڈیزل سے چلنے والی موٹر گاڑیوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ جہاں 2000میں ہندوستان میں ڈیزل سے چلنے والی کاروں کا تناسب صرف چار فیصد تھا، وہاں ڈیزل سے چلنے والی نئی کاروں کی فروخت کا تناسب عنقریب پچاس فیصد کی حد تک پہنچنے والا ہے۔

نئی دہلی کی انتظامیہ نے PM10s کی مقدار میں کمی کیلئے مختلف طرح کے اقدامات متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جن میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کو بہتر بنانا اور شہریوں کو اپنی کاریں کم استعمال کرنے کی جانب مائل کرنا بھی شامل ہے۔ تاہم آیا اِن اقدامات کے نتیجے میں اس شہر کی آب و ہوا کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔دوسری جانب دریائے جمنا کے متعفن زدہ اور غلاظت سے بھرے ہوئے مختلف حصوں میں ایسا تعفن ہے کہ اس کے قریب جانا بھی مشکل ہے۔حالانکہ دریائے جمنا کو ہندو مذہبی اعتبارسے مقدس تصور کرتے ہوئے اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ جوشردھالودریا کے کنارے عبادت کی غرض سے آتے ہیں اور یہاں کی سنگین آلودگی کے باعث پریشان ہوجاتے ہیں جبکہ دارالحکومت نئی دہلی کی 70 فیصد پانی کی ضروریات دریائے جمنا سے پوری کی جاتی ہیں۔ دریا کی باقاعدہ صفائی کیلئے سپریم کورٹ نے واضح احکامات بھی جاری کئے ہیں تاہم ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک دریا شدید آلودگی کا شکار ہے۔ حکومت کی جانب سے اس مقصد کیلئے ایک کثیر رقم صرف کرنے کے باوجود بھی یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کیلئے سرگرم کارکن دریا کے نزدیکی علاقوں میں نکاسی آب کے پلانٹ لگانے اور اس کیساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کے درمیان پانی کے حصول کیلئے جاری رسہ کشی کو دریا کی آلودگی کا باعث قرار دیتے ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115997 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More