کہاں تھا دہلی کا پہلا تھانہ‘ کب درج ہوئی دہلی کی پہلی ایف آئی آر؟

جب برطانوی حکمرانوں نے دہلی کو اپنی انتظامی دارالحکومت بنایا اور اسے آباد کرنے کا منصوبہ بنایاتو ان کا مقصد عام لوگوں کی نہیں بلکہ سرکاری ملازمین کی ضرورتوں کو پورا کرنا تھا۔تبھی تو رائے سینا پہاڑیوں کے ارد گرد ہی زیادہ تر تعمیر کا کام ہوا، چاہے وہ رہائشی ہو، انتظامی ہو یا عوامی سہولیات سے متعلق کام۔1911 میں جب برطانوی حکومت نے دہلی میں بساوٹ کی شروعات کی تو دارالحکومت کی آبادی محض ڈھائی لاکھ کے آس پاس تھی۔1911میں دہلی کو تیز رفتاری سے نیا دارالحکومت بنانے کے عمل پر پہلی عالمی جنگ نے بریک لگادئے تھے لیکن نئی دہلی میں کچھ ہلچل جاری رہی تھی۔ انگریزوں کے دورے ہوتے رہتے تھے۔افسروں کے کیمپ لگنے لگے تھے۔دیہاتوں کو ہٹایا جارہا تھا۔ کچھ پروجیکٹوں کی بنیاد بھی رکھی جارہی تھی۔ اس لئے انگریزوں کو آج کے پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانے کے پروجیکٹ پربھی کام کرنا تھا۔ رائے سینا کی پہاڑیوں پر بڑاکام ہوناتھا بلکہ رائے سینا پہاڑیوں کے برسوں تک تعمیری کام کا منصوبہ تھا۔ آج کے لحاظ سے دیکھیں تو ایک جانب رز، ایس کو اس، پرانا قلعہ اور ادھر دہلی دروازہ‘ خونی دروازہ اور پہاڑ گنج، یہ باڈر لائن تھی اس وقت کے نئی دہلی کے منصوبہ کی۔ اتنے بڑے علاقہ میں تعمیر کیلئے قیمتی سامان کے علاوہ لوگوں کی حفاظت ، راجہ مہاراجاؤں کی حفاظت ، ان سے وابستہ لوگوں کی حفاظت خصوصی طور پر اہم تھی جس کے پیش نظر تھانہ قائم کرنا پڑا۔

یہ ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی کے دل میں واقع ہے۔ اس پر ہی یہاں کے صدر کا سرکاری رہائش گاہ اور دفتر صدارتی محل یا’راشٹر پتی بھون‘ واقع ہے۔رائے سینا پہاڑیاں نئے دارالسلطنت کا مرکز تھا جس پر گورنمنٹ ہاؤس ، نارتھ اورساؤتھ بلاک، سینٹرل سکریٹریٹ، کاؤنسل ہاؤس، جسے آج پارلیمنٹ ہاؤس کہتے ہیں‘ وغیرہ تعمیر ہوئے تھے۔ اس لئے تھانہ کا نام بھی رائے سینا پرہی رکھا گیا یعنی تھانہ کیمپ رائے سینا۔ دراصل کیمپ کے کئی مطلب ہوتے ہیں لیکن یہاں 2 مطلب واضح ہیں۔ ایک تو رائے سینا کے قرب وجوار کیمپ لگاکر تعمیری کام ہورہے تھے دوسرے تھانہ بھی اپنے آپ میں کیمپ ہی تھا۔ دفتری زبان میں’ کیمپ آفس‘ بھی ایک ترکیب ہے۔ بنگلوں میں، میلوں میں، جنگلوں یا کسی اور جگہ کے دورے پرچھوٹا سادفتر قائم کرلینے کو بھی ’کیمپ آفس‘ کانام دے دیا جاتا رہا ہے۔

بہرحال تھا نہ کیمپ رائے سینا قائم ہوگیا۔ 31 دسمبر 1913 کا دن تھا جب چوری کی واردات درج کرنے سے تھانے کا افتتاح ہوا۔اس کے ٹھیک ایک سال بعد 31 دسمبر 1914 کوپانی پت میں اردو کے معروف دانشورخواجہ الطاف حسین حالی نے پانی پت میں وفات پائی۔یہ وہی حالی ہیں جنھوں نے4 سال لاہور میں رہنے کے بعد دہلی کے اجمیری دروازہ پر واقع ہندوستان کی آج کی قدیم ترین درسگاہ اینگلو عربک کالج میں معلم ہوگئے تھے۔بہر کیف‘ ایک بڑے آدمی کو یہاں چوری ہوئی تھی، اس لئے بھی ایف آئی آر درج ہوئی ہوگی۔ کون تھا وہ بڑا آدمی ، یہ ایف آئی آر سے زیادہ واضح نہیں ہوتا۔ مدتوں پرانی آیف آئی آر کاہندی ترجمہ بھی بوسیدہ ہوچکاہے۔ ان کی فوٹو کاپی کتنی بھی عمدہ مشین سے کروالیں، صفحات سیاہ ہی نکلتے ہیں۔ اصل صفحہ کی صورت ہی ایسی ہے۔

تقریباً 40 برس پہلے تک بھی متعدد مقامات پر اردو میں ہی ایف آئی آر درج کی جاتی تھی جسے’ پرچہ درج کرنا‘ کہاجاتاتھا۔ لہذا 1913 کے اس دور کی اردو میں نہایت فصیح زبان کا استعمال ہوتاتھا جس میں فارسی اور عربی کے الفاظ کی آمیزش زیادہ ہوتی تھی‘ جنہیں سمجھنا آسا ن نہیں تھا۔خط شکستہ میں تحریر یہ روز نامچے آج بھی قانون کاعلم سیکھنے والوں کیلئے ابجد ہوز کی حیثیت رکھتے ہیں۔اسی دور میں جو اصطلاحات رائج ہوئیں انہیں سیکھنا آج بھی پولس اہلکاروں اور قانون دانوں کیلئے ضروری بلکہ لازمی ہے۔

حالانکہ دہلی میں داغ، ذوق اور غالب کی شاعری نے اردو کو کافی حد تک عام بول چال اور آسان زبان کر دیاتھا لیکن پولس اور عدالت کامعاملہ تھا نیز مغلیہ دور سے جاری سرکاری لفظیات ، اصلاحوں اور ترکیبوں کو آسان شکل میسر نہیں تھی۔ ماہرین کے مطابق اس وقت کی کتنی ہی ایف آئی آر ایسی ہیں جن کا درست مطلب اخذ کرنے میں آج کے نہیں بلکہ چالیس پچاس سال پرانے اردو تعلیم یافتہ پولس اہلکاروں کے بھی پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے۔ لہذا اس دور کی ایف آئی آر کو سمجھنا سمجھانا اتناسہل نہیں ہے جتنی آسانی سے وہ چور اس اور کیمپ رائے سیناتھانہ علاقہ میں چوری کرکے لے گیا ہوگا۔

یہاں یہ سوچنا اور سمجھنا بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ انگریز افسران فصیح اردو میں تحریر کردہ ایف آئی آر کو کیسے سمجھتے ہوں گے یعنی کیسے یقین کرتے ہوں گے کہ لکھنے والے ماتحت نے واقعی درست حالات قلمبند کئے ہیں اور صحیح ترجمانی کی ہے‘ اس کی غلط بیانی سے کیا کچھ نہیں ہوجاتا ہوگا؟ اس وقت عوام میں کتنے فیصد لوگ اردو سے واقف ہوں گے اس کا اندازہ روز مرہ کے امور سے لے کر دفتر ی کام کاج تک ہر شعبہ سے لگایا جاسکتاہے جبکہ اردو کے مقابلے کسی دوسری زبان کا ذکر تک نہیں ملتا۔

بہر کیف 31-12-1913 کی وہ ایف آئی آر جس قدر سمجھ میں آسکتی ہے اسے پڑھیں تو پتہ چلتاہے کہ ’شوکر شاہ بہادر کا ملازم جمن بیرا آیاتھا۔ اس پر محمد علی حولدار سارجنٹ کانسٹبل گوبی چند کے ساتھ موقع ر بھیجا گیا جواس وقت واپس حاضر آیا ہے اور ایک چٹھی جس کا ترجمہ یہ ہے: لے کر آیا ہے۔ شوکر شاہ بہادر نے اپنے ٹینٹ میں اوور کوٹ گرم، رنگ کالا، بنات کوٹ(2) کپڑا ولایتی ط رنگ پیلا، پیلے رنگ کے کپڑے کی پتلون(2)، باسکٹ پتلون ایک سوٹ، رنگ پیلاولایتی، جس پر مالک کا نام لکھاہے۔ اس کے ساتھ 20 جوڑی موزے الگ الگ رنگ کے، رومال سوتی کپڑے کے تقریباً 12، ایک قمیص رنگ سفید، ایک قمیض دھاری دار کالی، نئی باسکٹ سفید، ایک گھڑی ، زنجیر چاندی کی نمبر3/57 وغیرہ صبح قریب چار پانچ بجے ایک آدمی کوٹینٹ میں دیکھا تھا، وہ غائب ہوگیا۔ اس کی تلاش کی گئی، نہیں ملا، لہذا جرم دفعہ 380 تعزیرات ہند درج کیا جاتا ہے۔ آئی او ایس آئی ایم حق پی ایس (پولس اسٹیشن) کیمپ رائے سینا۔ دہلی کے باہر زیر تعلیم نئی دہلی کا نظم ونسق چلانے کے ساتھ فصیل بند شہر میں بھی قانون کامحکمہ کسنے کیلئے فرنگی انتظامیہ کو تھانوں کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے تحت سب سے پہلے دریاگنج اور حوض قاضی تھانوں کا قیام عمل میں آیا۔

تاریخی حوالوں پر نظر کریں تو پتہ چلتاہے کہ مغلیہ سلطلنت بے دخل کرنے کے 55 برس بعد بھی فرنگیوں کو دہلی کے علاقہ میں دبی دبی سی بغاوت کی بو محسوس ہوتی تھی۔ شہر کے اندرون میں گرفت مضبوط کرنے کیلئے کوتوالی اور صدر بازار تھانہ 1861 سے قبل سے ہی قائم تھے لیکن فصیل بند شہر کے کنارے اثرورسوخ بڑھانے کی غرض سے دونئے تھانے ضروری سمجھے گئے تاکہ نہ تو اندر سے بغاوت سلگے اور نہ باہر سے مددملے۔ اس فیصلے کے فوراً بعد دہلی گیٹ فصیل سے متصل دریاگنج تھانہ نمبر 2 قائم ہوا جبکہ اس سے قبل 1912 کے دوران کشمیری گیٹ تھانہ بنایا گیا تھا۔ یکم جنوری 1913 کودریاگنج تھانہ اور 2 جنوری 1913 کو حوض قاضی تھانہ شروع ہوا جس کی قربت اجمیری گیٹ فصیل سے ہے۔ ان دونوں تھانوں کے قیام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پرانی دہلی میں کاروبار اور آبادی کس طرح پھیلتی چلی گئی تھی۔ لین دین اور آبادی میں اضافے کا سلسلہ چاندنی چوک اور کھاری باؤلی کے گلی کوچوں سے چل کر ایک جانب اجمیری گیٹ اور دوسری جانب دہلی گیٹ سے باہر وسیع ہونے لگے تھے۔ اجمیری گیٹ علاقے میں آبادی بڑھ کر باہر کی جانب پھیل رہی تھی جس سے مسلم اکثریتی پہاڑ گنج اور ملتانی ڈھانڈا وجود آیا۔ جبکہ دریاگنج میں انصاری روڈ جیسے علاقہ خوابوں سے نکل کر حقیقت میں بدلے جنکی حفاظت کا انتظام پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔رائے سینا کیمپ تھانہ کے بعد دہلی شہر میں جسے نئی دہلی بسنے کے بعد خود بخود پرانی دہلی کہا جانے لگا تھا، اولین 11 تھانے اس طرح ہیں:
1:کوتوالی 1861(2) صدر بازار 1861 (3) مہرولی 1861 (4) منڈکا/ نانگلوئی 1861 (5) سبزی منڈی 1861 (6) نجف گڑھ 31دسمبر 1903 (7) کشمیری گیٹ 20دسمبر 1912 (8) دریاگنج یکم جنوری 1913 (9) حوض قاضی 2جنوری 1913(10) سول لائنس یکم جون 1913 (11) کیمپ رائے سینا/پارلیمنٹ اسٹریٹ 31 دسمبر 1913 مذکورہ بالا تھانوں کے قیام کے بعد دیگر پولس اسٹیشن وجود میں آئے جبکہ آج دہلی پولیس کی 3 رینجوں کے 11 اضلاع میں 177 پولس اسٹیشن تقریباً 2 کروڑ آبادی پر تعینات ہیں جن کا نظم 1912 کے اولین چیف کمشنر کے ذریعہ شروع کیا گیا تھا جبکہ 1946 میں یہ ذمہ داری انسپکٹر جنرل آف پولس کو سونپی گئی تھی جس کے تحت سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے امن وقانون پرقابو پایا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد 1966 میں دہلی پولس کمیشن قائم ہوا جبکہ ہم جولائی 1978 کو دنیا کی سب سے بڑی میٹرو پوئن سمجھی جانے والی دہلی میں 123 پولس اسٹیشن قائم ہوئے چکے تھے جنکا صدر دفتر اندرپرستھ اسٹیٹ بنا۔ ان دنوں 3 اسپیشل کمشنروں کے علاوہ 17 جوائنٹ کمشنر 7 ایڈیشنل کمشنر ، 74 ڈپٹی کمشنر اور 272 اے سی پی دہلی کا نظم و نسق چلارہے ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116542 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More