میمو اسکینڈل کے کردار،ان کی اصلیت اور تاریخی حقائق

صدر پاکستان کی علالت،میمو گیٹ اسکینڈل ،نیٹو و امریکی حملوں اور پاکستان نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کے آئے نت نئے انکشافات نے پاکستانی سیاست، حکومت قومی سلامتی کے اداروں اور اعلیٰ عدلیہ سمیت تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی میں ہر طرف ہلچل مچادی ہے ،جن کے منفی اثرات اب پورے جنوبی ایشیاءمیں ظاہر ہونے لگے ہیں لیکن پاکستان میں میمو گیٹ اسکینڈل کے بعد صدر آصف علی زرداری کی پر اسرار علالت اور منصور اعجاز کے حکومت کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی جانب سے حکومت یا صدر کی تبدیلی کے منصوبے کے حالیہ انکشاف نے اداروں کے درمیان ٹکراﺅ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل کے معاملے کو مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف عدالت عظمیٰ تک لے گئے اور عدالت کے ابتدائی احکام کے بعد اب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا، پاکستان نژاد امریکی شہری منصور اعجاز،امریکامیں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور حکومت کی جانب سے عدالت میںجوابات داخل کرانے بعد جہاں صورت حال کسی حد تک واضح ہوئی ہے وہیں اب اداروں کے درمیان ٹکراﺅ کا امکان بھی بڑھ گیا ہے ،تاہم اب عدالت عالیہ ہی کوفیصلہ کرناہے کہ میمو کی حقیقت کیا ہے اور اصل ذمہ دار کون ہیںلیکن بیشتر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی سیاست کے مستقبل کے فیصلے میں میمو گیٹ اسکینڈل، بون کانفرنس اور 26 نومبر 2011ءکو مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی اور نیٹو افواج کی دہشت گردی بہت اہم کردار ادا کرے گی اوراس حوالے سے صدر کی پراسرار علالت اور ان کی وطن واپسی کے حوالے سے بھی کئی اہم سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔مجموعی طور پران تمام ابہام ،تنازعات،خدشات،تحفظات اور سوالات کی اصل وجہ میمو گیٹ اسکینڈل کو ہی قرار دیا جا رہا ہے اس لئے ہم اس مضمون میں میمو گیٹ اسکینڈل کے بنیادی کرداروں کے حوالے سے ذکر کریں گے۔اب تک میمو گیٹ اسکینڈل کے4 بنیادی کردار منظر عام پر آ چکے ہیں ،جن میں سے ہر ایک کے ماضی کو ترتیب سے پرکھنا ضروری ہے تاکہ اصل مقصد دنیا کے سامنے آسکے۔

پہلاکردار پاکستان نژاد امریکی شہری منصور اعجاز۔دوسراکردار امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی۔تیسرا کردارامریکی صدر بارک اوباما کے قومی سلامتی کے سابق سینئر مشیر جیمز ایل جونز اور چوتھا کردادرامریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولن ہے۔ آخر الذکر تینوں کرداروں سے پوری قوم اور باہر کی دنیا کے بیشتر لوگ باخبر ہیں لیکن اول الذکر کے حوالے سے بہت ساری چیزیں دنیاکی نظروں سے اوجھل ہیں۔ حالانکہ منصور اعجاز نامی یہ کردار گزشتہ 30 سال سے پاکستانی اور عالمی معاملات میں نمایاںہے۔اس لئے سب سے پہلے ہم اسی کردار کا جائز لیں گے۔ مصور منصور اعجاز( پورا نام) کے والدین کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے( نسلاً کشمیری )ہے جبکہ اس کی پیدائش امریکی ریاست فلوریڈا میں 1961ءمیں ہوئی۔عملی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ شخص ہمیشہ پراسرار کردار کاحامل رہا ہے۔ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم امریکا میں ہی حاصل کی اور پھر اپنے آپ کو کاروبار، میڈیا سے منسلک رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یورپ کے بڑے نشریاتی اشاعتی اداروں تجزیوں اور مضامین کے ذریعے اپنے خیالات پیش کرتا رہا جن میں اس کا اصل ہدف اسلام،مسلمان ،پاکستان اور پیپلزپارٹی رہے ہیں، سازشی ذہن،چرب زبان اور تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے مشنری جذبات کے ساتھ اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لئے کام کرتا رہا اور بہت کم وقت میں امریکا کے اعلیٰ حکام تک رسائی حاصل کی جواس کے مقصد کا بنیادی حصہ تھا۔ منصور اعجاز امریکی لہجے میں زبان ٹیڑھی کرکے انگلش میں بات کرتے ہوئے کبھی بھی اس میں پنجابی کا پیوند بھی لگاتے ہیں لیکن اردو کو چھوتے تک نہیں ہیں۔

منصور اعجاز کا کردار ہمیشہ پراسرار رہا اگرچہ انہوں نے شروع میں اپنے آپ کو کاروبار سے منسلک رکھنے کی کوشش کی لیکن پھر امریکی خفیہ ادارے کے سابق ڈائریکٹر جیمز وزلے کے ساتھ کام شروع کیا۔ 1990ءمیں انہوں نے کریسنٹ مینجمنٹ انویسٹمنٹ کے نام سے کمپنی قائم کی جس کے یہ بانی چیئرمین تھے، ایک سابق امریکی جنرل جیمز ایلن ابراہا مسن بھی ان کے شریک رہے۔ منصور اعجاز کے والد ڈاکٹر مجدد احمد اعجاز دراصل ایٹمی سائنسدان تھے جنہوں نے امریکی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ڈیزائننگ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ڈاکٹر عبدالسلام 60کی دہائی میں امریکاگئے تھے ،جہاں کچھ عرصے بعد انہوں نے ڈاکٹر مجدد احمد اعجاز(کزن) کو بھی بلوایا ۔بعدازاں ڈاکٹر عبدالسلام اس وقت کے وزیر اعظم میر ذوالفقار علی بھٹو بلوانے پر پاکستان منتقل ہوئے ،7ستمبر1974ءمیں پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردےدیا۔جس پرڈاکٹر عبدالسلام نے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے سے استعفا دے دیااور 1984ءمیں صدر جنرل ضاءالحق کی جانب سے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے اجراءپر سخت جزبز ہوئے ۔انہوں نے صدر جنرل ضاءالحق سے آرڈیننس واپس لینے کے لئے کہا مگر کامیابی نہیں ہوئی اور پھر امریکا بیرون ملک چلا گیا اوراس کے بعدپاکستان سے دشمنی ان کا اور ان کے ساتھیوں کا مقصد بن گئی۔

منصور اعجاز بظاہر تو اپنے آپ کو پاکستان کا ہمدرد ظاہر کرتا ہے لیکن عملاً وہ پاکستان سے دشمنی کی حد تک نفرت کرتا ہے۔اور ہر اس کوشش اور سازش کا حصہ بننے پر امادہ ہوجاتا ہے جو پاکستان یا مسلمانوں کے خلاف ہو۔ منصور اعجاز نے سوڈان سے شیخ اسامہ بن لادن کی بے دخلی اور افغانستان میں ان کی آمد کے سلسلے میں بھی امریکی ایجنٹ کا کردار اداکیا جبکہ سابق عراقی صدر صدام حسین کا تعلق القاعدہ سے جوڑ کر ان کے خلاف مہم جوئی میں بھی پیش پیش رہا۔ منصور اعجاز ہمیشہ امریکی مفادات کا نہ صرف تحفظ کرتے رہا بلکہ ان مفادات کی تکمیل کےلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کےلئے تیار رہتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے یکم اور دو مئی 2011ءکے درمیان ایبٹ آباد میں امریکی دہشت گردی کے بعد پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے فوکس نیوز میں واضح طور پر کہا تھا کہ امریکی حکومت کو اپنی مرضی کے مطابق سخت کاروائی کرنی چاہئے اور اس طرح کے اور بھی کئی لوگ یہاں پر چھپے ہوں گے ،ان(پاکستانیوں) پر اعتبار نہ کیا جائے۔ اس تجزیے میں پاکستان دشمنی کی بدبو آرہی تھی۔ منصور اعجاز کے ایک بلیک بیری پیغام کے مطابق 1996ءمیں بےنظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے میں ان کا کردار رہا ہے، کیونکہ وہ 1995ء میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لئے کافی سرگرم رہے اور ناکامی پر سازش پر اتر آئے۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ایک مرتبہ پھراسرائیل کو تسلیم کرانے کے لئے کافی سرگرم ہوگئے اور پیپلزپارٹی والے دعویٰ کرتے ہیں کہ 10اکتوبر1999ءکو لیگی رہنماءاور اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کی رہائش گاہ پر لیگیوں سے ملاقات بھی کی جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی جبکہ سرتاج عزیز اس ملاقات سے انکاری ہیں تاہم ستمبر1999ءمیں دورہ امریکا کے موقع پر ایک ملاقات کی تصدیق کر تے ہیں۔ منصور اعجاز کے دعوے کے مطابق وہ حسین حقانی کے ساتھ ملکر پاکستانی ایٹم بم کے حوالے مشترکہ مضامین بھی لکھ چکے ہیں۔ ایک مضمون میں تو پاکستانی ایٹم کے حوالے سے زہر اگلا گیا ہے۔اس مضمون کو منصور اعجاز نے حسین حقانی کے ساتھ پرانے تعلقات کے ثبوت کے طور پر عدالت میں جمع بھی کرایا ہے۔ منصور اعجاز اپنے آپ کو معروف افریقی رہنما نیلسن منڈیلا کا مشیر بھی ظاہر کرتے رہے ہیں تاہم اس سب کے باوجود منصور اعجاز کو نہ صرف پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک بلکہ امریکا میں بھی پراسرار اور مشکوک سمجھا جاتا ہے تاہم امریکی ادارے بھی منصور اعجاز کو اسی وقت استعمال کرتے ہیں جب مسلمانوں یا پاکستان کے خلاف کوئی سازش تیار کرنی ہو۔

منصور اعجاز کو جاننے والوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص انتہائی چالاک اور خطرناک ہے۔ اپنے شکار کو جال میں پھنسانے کےلئے نت نئے حربے استعمال کرتا ہے اورجب اپنا مطلب اور مفاد پورا ہو جاتاہے تواستعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے۔ اس کے سامنے دوستی اور دشمنی کا پیمانہ ذاتی مفا اور نفرت ہے۔ منصور اعجاز کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ فلسطین کے حوالے سے بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتارہاہے ہیں، لیکن شاید اس بات کا علم بہت کم لوگوں کو ہوگا کہ منصور اعجاز آج بھی اپنی اسرائیلی بیوی کے ساتھ مناکو میں رہ رہا ہے جس کی تصدیق حسین حقانی نے 3 دسمبر 2011ءکو ایک ٹی وی پروگرام میں بھی کی۔ منصور اعجاز کا کردار صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے2001ءسے2002ءتک تنازع کشمیر میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے نام پر کشمیریوں کو تقسیم کرنے کی سازش کی لیکن یہ سازش جلد ہی ناکام سے ہوگئی ۔ اس نے اپنے آپ کو امریکی صدر بل کلنٹن کے بااعتماد ساتھی کے طور پر پیش کیا اور بھارتی حکومت کو اپنے جال میں اس طرح پھنسایا کہ انہیں ویزے کے بغیر دہلی اور سری نگر کے سفر کی اجازت مل گئی جس کو منصور اعجاز مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے منصوبے کا حصہ قرار دے رہے ہیں،اس کی تصدیق 28اکتوبر2011ءکو حسین حقانی سے بلیک بیری پیغام میں کی ۔

اپنے کشمیر النسل ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نومبر2000ءمیں بھارت کے دارالحکومت دہلی کے ایک بڑے ہوٹل میں کشمیر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنابتایا گیا لیکن اس کانفرنس میں منصور اعجاز الٹا مسلمانوں اور عربوں پر برس پڑے اور دل کھول کر مسلمانوں اور عربوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جس پر بیشتر مسلمان بالخصوص کشمیری رہنما شدید ناراض ہوئے۔ معروف کشمیری رہنما یاسین ملک نے منصور اعجاز کے خیالات پر شدید افسوس اور ناراضگی کا اظہار کیا جس پر منصور اعجاز نے نہ صرف ان سے معافی مانگی بلکہ انہیں دعوت دے کر اپنے کمرے میں بلایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سازشی نے اس موقع کو بھی اپنے مفاد میں اور کشمیریوں کے خلاف استعمال کیا ۔ یاسین ملک کی آمد سے قبل اس کمرے میں ایک فرد موجود تھا۔ یہ فردبھارتی خفیہ ایجنسی ”ریسرچ اینڈانالسس ونگ(را)“امور کشمیر کا انچارج چندر دیو سہائے تھا جس کو یاسین ملک نہیں جانتے تھے۔ مختصر گفتگو کے بعدیاسین ملک تو چلے گئے لیکن اس کے بعد منصور اعجاز نے یاسین ملک اور را کے سربراہ کی ملاقات کی خبر افشاکی جس سے یاسین ملک کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کو سخت دھچکا لگا۔ لبریشن فرنٹ کے سربراہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ منصور اعجاز کے کمرے میں ایک شخص موجود تھا جسے وہ نہیں جانتے تھے اور نہ ہی اس کا تعارف کرایا گیا،ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ اگر” را“ کے سربراہ سے میری ملاقات کی تصدیق ہوجائے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔

دراصل مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازش منصور اعجازکا پہلا اور آخری مقصد رہا ہے،جس کی کامیابی کے لیے وہ ہر عمل کر گزرنے کے لیے ہمہ وقت تیا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہائٹ ہاﺅس اور اعلیٰ امریکی حکام تک رسائی کے لئے منصور اعجاز نے سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جیمزوزلے کا بھرپور سہارا لیا،اور انہیں شیشے میں اتار لیا، یہ دونوں کاروبار میں شرکت دار بھی تھے۔ سی آئی اے کے یہ سابق ڈائریکٹرمسلمان نظریات کے سخت مخالف اور کٹر اسرائیل نواز سمجھے جاتے ہیں۔ عہدے سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے تجزیوں، مضامین اور دیگر ذرائع سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا،اور ظاہر ہے کہ یہ صاحب منصور اعجاز کے مقاصد کے حصول میں اس کے بڑے ممدومعاون ہوسکتے تھے ،جبکہ اسلام دشمنی اور اسرائیل نوازی کے حوالے سے جیمزوزلے کا پورا رنگ منصور اعجاز میں تھا۔

اپنی کشمیریت کو استعمال کرتے ہوئے نومبر2000ءکی کشمیر کانفرنس میں منصور اعجاز نے دعویٰ کیا کہ وہ تنازع کشمیر کے حل کے لیے روڈمیپ تیار کررہے ہیں جبکہ اس سے قبل جولائی2000ءمیں ہونے والی جنگ کو بھی منصور اعجاز اپنا کارنامہ بتاتے ہیں۔مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق منصور اعجاز نے 2001ءمیں کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کےلئے منصوبہ بھارت کو پیش کیا،اس زمانے میں بھارت میں ”این ڈی اے“ کی حکومت تھی اور اٹل بہاری واجپائی بھارتی وزیر اعظم تھے جو شدید مسلم مخالف ہونے کے باوجود کشمیر کے حوالے سے منصور اعجاز کے منصوبے کے حامی نظر آئے ۔منصور اعجاز کے روڈ میپ کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔پہلا حصہ جموں ولداخ جوبھارت کو ملناتھا۔دوسرا حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کو ملنے تھے جبکہ تیسرا حصہ وادی کا تھا جس کو ایک خود مختار الگ ریاست کے طور پر پیش کیا گیا،اس منصوبے میں بھارت فائدے میں تھا کیونکہ اس کا مقصد پورا ہو رہاتھا یہی وجہ ہے ثالثی قبول نہ کرنے کے دعویدار بھارت نے بھی اپنا فائدہ دیکھ کرامریکی صدر کلنٹن کے اس رفیق خاص پاکستان نژاد تاجر کے منصوبے اور ثالثی کو قبول کیا ۔ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق منصور اعجازنے اپنے پاکستان اور کشمیر دشمن منصوبے کی تکمیل کے لئے مجاہدین کشمیر کو استعمال کرنے کی کوشش کی اور یک طرفہ جنگ بندی ایک فارمولا پیش کیا جس میں مسٹر اعجاز کو”را“ انچارج برائے امور کشمیر چندر دیو سہائے“ کی حمایت بھی حاصل تھی اور تمام کام ان کی مشاورت سے ہورہے تھے ۔منصوبے پر عمل کے لئے کشمیری مجاہدین کی سب سے مضبوط اور منظم تنظیم حزب المجاہدین کے چیف آپریشن کمانڈر عبدالمجید ڈارکا انتخاب کیا گیاجن کو پہلے آزاد کشمیر سے غائب کروایا۔ پھر کراچی سے دبئی وہاں سے دہلی پھر اچانک سری نگر پہنچا کر اپنی ہائی کمان کی مشاورت کے بغیر یک طرفہ طور پر مشروط جنگ بندی کا اعلان کروایا گیا۔ اس جنگ بندی نے کشمیر میں آزادی کی جہدوجہد کے پیٹھ میںچھرے کا کام کیا اور اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں مجاہدین کے اندر بڑے پیمانے پر اختلافات پیدا نہ ہوجائیں تاہم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین جیسے دور اندیش اور باصلاحیت قائد اور دیگر مجاہدین کی موقع شناسی نے کسی بڑے سانحہ سے قبل ہی صورتحال کو کنٹرول کرلیا لیکن اس کا اتنا خطرناک اثر ہوا کہ کئی لوگ مجاہدین کی سرگرمیوں سے بددل ہو گئے اور انہوں نے کشمیر کے اندر عسکری جدوجہد کی بجائے سیاسی کا راستہ اختیار کیا۔

اگرچہ یہ جنگ بندی محدود وقت تک ہی برقرار رہ سکی لیکن کشمیر کے حوالے سے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی بعد ازاں سید صلاح الدین نے جنگ بندی ختم کردی لیکن منصور اعجاز کے مطابق وہ اس کو برقرار رکھنے کے لئے متعدد مرتبہ سید صلاح الدین سے ملاقات بھی کرچکے ہیں جبکہ سید صلاح الدین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دو مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی ہے، ایک اس وقت جب وہ جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان ایک روز قبل ہی کرچکے تھے ۔منصور اعجازمبینہ طور پر آئی ایس آئی کے ذمہ دار خالد خواجہ کے ہمراہ ملاقات کے لئے آئے اور ان کی خواہش تھی کہ جنگ بندی کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ جبکہ دوسری مرتبہ منصور اعجاز اپنی والدہ لبنٰی کے ہمراہ مظفر آباد میں ملنے آئے منصور اعجاز اور ان کی ماں کی کوشش تھی کہ جنگ بندی ختم نہ کی جائے لیکن ایسا کرنے سے میں نے انکار کیا۔ انہوں نے جنگ بندی نہ ختم کرنے کےلئے لالچ دیا اور کہا کہ امریکا اس حوالے سے آپ کو بڑا فائدہ پہنچانا چاہتا ہے اور امریکا کی جانب سے ملنے والا اقتصادی فائدہ کشمیریوں کی فلاح وبہبود کےلئے آپ کی ہی مرضی سے استعمال ہوگااور امریکی صدر بل کلنٹن سے بہتر تعلقات کے ثبوت کے طور پر جیب سے ایک تصویر نکا ل کردکھائی جس میں وہ امریکی صدر کے ایلخانہ کے ہمراہ تھے ،اور یہ بات کسی حد تک درست کیونکہ امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں مصور منصور اعجاز کی والدہ لبنٰی کو وائٹ ہاﺅس کی بااثر خاتون قراردیا جاتاہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن کی سیکڑیٹری کے انتخات کے لئے لبنٰی سمیت 3خواتین کو انٹرویوکی ذمہ داری سونپی گئی ،اس انٹرویو میں لبنٰی نے” مونیکا لوینسکی“کا انتخاب کیاجبکہ پینل میں شامل دو خواتین کی مخالفت کے باوجود” مونیکا لوینسکی“ کا انتخاب کیا گیا،اس کے بل کلنٹن کے انجام بد سے پوری دنیا واقف ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیٹے کی طرح ماں بھی سید صلاح الدین کو لالچ کو قبول کرنے پر زور دے رہی تھیں۔ سید صلاح الدین کے مطابق انہوںنے اصرار کیا کہ جنگ بندی کو جاری رکھیں لیکن ہم نے واضح کردیا کہ ہندوستان کی طرف سے اس جنگ بندی کی شرائط پوری کی گئی اور نہ ہی مثبت ردعمل آیا لہٰذا اب جنگ بندی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن منصور اعجا زپھر بھی اصرار کرتا رہا اور مجبوراً مجھے سخت لہجہ اختیار کرنا پڑا کہ اب اگر آپ نے مزید بات کی تو حالات کی سنگینی کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔اس کے بعد اس شخص نے پھر کبھی ملنے کی کوشش نہےں کی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر سید صلاح الدین دانشمندی کا ثبوت نہ دیتے تو کشمیر کاز کو ناتلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔

دراصل منصور اعجاز کا روڈ میپ (کشمیرامن منصوبہ) خطے میں ایک نئے اسرائیل کے قےام کا منصوبہ تھا، ان کے نسلی اور نظریاتی طورپر روحانی آباءگزشتہ ایک صدی سے اس کے لئے کوشاں ہیں۔ مرزا بشیر الدین اور دیگر کے کردار اور سرگرمیوں کی تاریخ گواہ ہے۔یہ گروہ وادی کشمیر پر عالمی قوتوں کی مدد سے اس طرح قابض ہونا چاہ رہاتھا جس طرح یہودیوں نے عالمی سامراج کی مدد سے فلسطین پر قبضہ کیا۔ کشمیر پر قبضے کی پہلی کوشش مرزا بشیر الدین نے اس وقت کی تھی جب25جولائی1931ءکو انہیں کشمیر کی تاریخ کی پہلی کشمیر کمیٹی”آل انڈیاکشمیر کمیٹی“ کا سربراہ بنایا گیا جس کی آڑ میں مرزا بشیر نے قادیانیت کی تبلیغ شروع کردی اور مسلمان مجلس احرا ر کے پلیٹ فارم سے مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری کی قیادت میںمتحرک ہوئے اور1931ءمیں کشمیر چلو کی تحریک شروع کی جس کے شدید دباﺅ کی وجہ سے 7مئی 1933ءکو مرزا بشیر الدین کو کمیٹی کی سربراہی سے مستعفی ہونا پڑا اور علامہ محمد اقبال کمیٹی کے سربراہ بنے۔منصور اعجاز ہو یا مرزا منصور آج بھی کشمیر پر ان کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔
1993ءاور 1996ءمیں بھی منصور اعجاز کا نام سنا گیا ،کہا جاتا ہے کہ 1993 ءمیں نواز شریف کو بھی منصور اعجاز نے اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے،1996ءمیں بےنظیر بھٹو کی حکومت گرانے میں اس شخص کا کردار بھی تھا جس کی اس نے خود تصدیق کی ہے۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی اس شخص نے سازش کی لیکن اس بار بھی کامیابی نہ ہوئی۔منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ1999ءمیں کرگل کے واقعے کے بعد اس نے اپنا بھرپور کردار ادا کیاہے ،جو ایک مفروضہ ہے۔ کرگل کی جنگ بندی کی حقیقت کچھ اور ہے جس سے میاں نواز شریف سمیت کئی لوگ واقف ہیں اور معلوم نہیں کہ خاموشی کیوں اختیار کی ہوئی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی غفلت سے اگلے محاذوں پر لڑنے والے فوجی شدید مشکلات اور مسائل سے دوچارتھے کہ جون1999ءمیں محاذ جنگ سے ہی کسی اہم ذمہ دار نے اس وقت کی حکومت کے نام خط لکھا اور کہا کہ” مکے لہرانے اور اعلانات کی بجائے کوئی عملی اقدام کریں ورنہ آئندہ چند روز تمہارے لئے بہت مشکل ہوں گے۔ دشمن آگے بڑھ رہاہے اس کو روکنے کا انتظام کرو، اگر ملک کی سرحدوں کو بچانا چاہتے ہو تو کوئی بچت کی راہ نکالو“۔ حقیقت کا انکشاف ہوتے ہی اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور حکومت کے ہوش ٹھکانے آگئے اور مجبوراً نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو صدر کلنٹن سے مدد لینے کے لیے واشنگٹن جانا پڑا۔ کاش اس واقعے کے بعد نواز شریف انکوائری کمیشن قائم کرتے اور حقیقت قوم کے سامنے لاتے کہ وطن کے ساتھ غداری کس نے اورکیوں کی ؟کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ منصور اعجاز نے 9/11سے قبل اور بعد میں طالبان بالخصوص ملا عمر سے رابطے کی کوشش کی مگراس مرد درویش کی داشمندی اور دید بینائی کی وجہ سے منصور اعجاز کو کامیابی نہ ہوسکی اس حوالے سے رابطہ کار کے طور پر خالد خواجہ نام بھی لیا جاتا ہے ،جبکہ اسلام آباد میں ایک کانفرنس کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے جبکہ خالد خواجہ کی موت کا ایک بڑا سبب بھی منصور اعجاز سے مبینہ روابط بتائے جاتے ہیں ۔خالد خواجہ اور منصور اعجاز کی قربت کی ایک بڑی وجہ دونوں کا کشمیر النسل(وادی سے تعلق تھا) ہونابھی بتایا جاتاہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان نژاد ہوتے ہوئے بھی منصور اعجاز آخر پاکستان دشمن ہر منصوبے میں ہراول دستے کا کردار اد کرنے کے لئے فوری تیار کیوں ہوتا ہے؟اس کے اسباب اور مقاصد کیا ہیں؟ منصور اعجاز پاکستان اور مسلمانوں میں عدم استحکام کیوں دیکھنا چاہتا ہے؟ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ منصور اعجاز اور اس قبیل کے لوگوں کو 1974ءمیں پاکستانی آئین میں کی گئی ترمیم” جس کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا گیا“اور1984ءکا امتناع قادیانیت آرڈیننس کا اجراءسخت ناپسند ہے۔ منصور اعجاز کا بھی اسی گروہ سے تعلق ہے ۔ان کے والد ڈاکٹر مجدد احمد اعجاز پاکستان اور امریکا میں اپنے گروہ کے لیے کافی سرگرم رہے جبکہ مصور منصور اعجاز کے دادا مرزا غلام احمد قادیانی کے قریبی عزیز اور قادیانی گروہ کے ابتدائی 313افراد میں سے ایک تھے ۔اس کے روحانی پیشوا کی آخری خواہش اکھنڈ بھارت تھی جس کی تکمیل کے لئے منصور اعجاز ہو یا مرزا منصور سب کوشاں ہیں۔ مرزا طاہر نے 1984ءمیں امتناع قادیانیت کے صدارتی آرڈیننس کے اجرا کے بعد واضح طور پر کہا تھا کہ احمدیوں کی بددعا سے پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہوگا منصور اعجاز اور ان کے دیگر ساتھی اس بددعا کی قبولیت کے لیے کوشاں ہیں اور اسی بنیاد پراب وہ اپنی نفرت کے اظہار کےلئے پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور آئینی ترمیم میں بنیادی کردار ادا کرنے پرعلمائ،عا م مسلمانوں ،مسلح افواج،ذوالفقار علی بھٹو،جنرل محمد ضیاءالحق اور پیپلز پارٹی سے انتہائی نفرت مذہبی فریضے کے طور پر کرتے ہیں۔منصوراعجازامریکا بالخصوص امریکی ایوانوں میں اپنے آپ کو ایک مسلمان کے طور پر پیش کرتا ہے مگر اپنی تما م توانائیاں ہمیشہ امریکا،اسرائیل ،بھارت اور ہر اسلام اور پاکستان دشمن کے مفاد کے لئے صرف کرتا ہے۔امریکی اداروں اور اعلیٰ افراد تک رسائی کی وجہ سے یہ شخص لوگوں اور حکومتوں کو بلیک میل کرنے میں بڑی مہارت رکھتا ہے اور شکار کو مہارت کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے اپنے جال میں پھنساتا ہے اور شاید کچھ ایسا ہی اس بار بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

میمو گیٹ اسکینڈل کا دوسرا کردار حسین حقانی ہیں جو امریکا میں پاکستانی سفیر تھے۔ کراچی کے علاقے ملیر میں رہنے والا یہ شخص 1956ءمیں ایک متوسط اور دینی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا، پہلے اسلامی جمعیت طلبہ کے اعلیٰ عہدے تک پہنچے۔ پھر جامعہ کراچی میں طلبہ یونین کے صدر بنے بعد ازاں 1988ءمیں آئی جے آئی کے قیام کے ساتھ ہی اس سے منسلک ہوئے، 1990ءمیں نواز شریف کے میڈیا کوآرڈینیٹر اور بعد ازاں سری لنکا میں سفیر کے طور پر کام کرتے رہے،پھر 1993ءمیںاچانک بے نظیر بھٹوکے قریب ہوئے اور ترجمانی کا کردار اداکیا،اسی دوران صدر آصف علی زرداری کی قربت حاصل کی ۔ان کا شمار پاک فوج کے سخت ناقدین میں ہوتا ہے اس حوالے سے ان کی کتاب گواہ ہے۔ حسین حقانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی بہت تیزی کے ساتھ کسی اعلیٰ منزل تک پہنچنے کےلئے کچھ بھی کر گزرنے والی شخصیت ہیں۔ شاید ان کے انہی جذبات کا فائدہ منصور اعجاز نے اٹھایا اور انہیں جال میں پھنسادیا اور اب جان پر بن آئی ہے ۔

میمو گیٹ کا تیسرا کردار 68 سالہ سابق امریکی جنرل جیمز ایل جونز ہے جو صدر اوباما کے قومی سلامتی کے سابق سینئر مشیر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صدر اوباما نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جیمز ایل جونز کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ اوباما کے نام کے ساتھ حسین کا لفظ تھا جس سے مسلمانوں کی طرف نسبت جاتی تھی اور اس حوالے سے کسی بھی ردعمل سے بچنے کےلئے بارک اوباما نے اپنے قرب وجوار اور اہم عہدوں پران لوگوں کو تعینات کیا جن کو اسرائیل نواز یا مسلمان مخالف تصور کیا جاتا تھا۔ جیمز ایل جونز کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے اور وہ وائٹ ہاﺅس میں بااثر بھی تصور کئے جاتے ہیں ، اس لئے ڈاکیے کے طور پر منصور اعجاز نے جیمزایل جونز کا استعمال کیا۔ چوتھا کردار امریکی فوج کے میمو لکھنے کے وقت کے سربراہ65 سالہ ایڈ مرل مائیک مولن ہیں۔ ایڈ مرل مائیک مولن بھی پاکستان اور مسلمان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی پاکستان دشمنی سے کون واقف نہیں، انہوں نے تو جاتے جاتے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل حال ہی میں پاکستان پر سنگین الزام تراشی کی اور دونوں ملکوں کے مابین خلیج کو مزید وسیع کردیا۔ ان کا شمار بھی اسرائیل نوازوں میں ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر حسین حقانی نے آخر اس میمو کےلئے مصور منصور اعجاز کا ہی انتخاب کیوں کیا؟۔ دراصل جب یہ شخص سامنے آتا ہے تو اپنے آپ کو پاکستانی کہلاتا اور ہمدردی جتاتا ہے، اپنے مذہبی پیشوا کی طرح بہت جھوٹ بولتا ہے اور اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے اس میں کچھ سچ کی آمیزش بھی کرتا ہے، اس کی جھوٹ آرائی کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے۔اس کی گفتگو سے تو بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا کا اصل ڈان یہی شخص ہے۔ اسی مہارت کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو اپنے جال میں پھنسانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے اور کوئی بھی آدمی پھنس سکتا ہے۔لگتا یہی ہے کہ اس بار بھی منصور اعجاز نے اپنی پرانی دشمنی نکالنے کےلئے موجودہ حکومت کے کسی ذمہ دار کو جال میں پھنسالیا اوراب پیپلز پارٹی کےلئے گلے کا پھندا بن چکا ہے۔صدر زرداری کی بیماری کی اصل وجہ بھی میمو گیٹ اسکینڈل کو ہی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ بات ان کی ذات تک جا پہنچی ہے اور عدالت میں زیر سماعت ہے تاہم یہ بات ناقابل تردید ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے جس کا بھر پور فائدہ منصور اعجاز نے اٹھایا اور ”دال میں کالے“کا کہیں نہ کہیں ایبٹ آباد میں امریکی حملے سے ضرور تعلق ہے جس کے بارے میں منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ حسین حقانی اور صدر زرداری کو پہلے سے ہی علم تھا۔حالات و واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“اور خوف نے میمو لکھنے پر مجبور کیا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر منصور اعجاز نے اس خفیہ دستاویز کے حوالے سے 10اکتوبر2011ءکو مضمون کیوں لکھا ؟ دراصل اس سازشی کا خیال تھا کہ میمو کے مائیک مولن تک پہنچنے کے بعد امریکی فوج کی طرف سے پاکستان کے خلاف سخت ردعمل ہوگا، لیکن مکمل خاموشی رہی اور مائیک مولن پاکستان کے خلاف ایک نفرت آمیز بیان کے ساتھ ہی فوج سے ریٹائر ہوگئے اور میمو اپنی جگہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ثابت ہوا۔ اس ساری صورتحال میں منصور اعجاز اور ان کے ساتھیوں کے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے جیسے مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ اب اس کے لےے ایک اور راستہ منصور اعجاز نے تلاش کیا اور میمو گیٹ کا انکشاف اپنے مضمون کے ذریعے کیا اور بعد ازاں اس کے قسط وار پیغامات کو ظاہر کردیا اور ہوا پھر وہی کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی۔ اب ایک طرف حکومت اور دوسری طرف قومی سلامتی کے ادارے اور تیسری طرف عدلیہ نظر آتی ہے۔اور یہ ادارے باہم دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں آخر الذکر دونوں اداروں کی مجبوری یہ ہے کہ اس میمو میں جو نکات اور یقین دہانیاں موجود ہیں وہ انتہائی مہلک اور پاکستان سے غداری ہیں۔ یہ تو عدالت ہی فیصلہ کرے گی کہ اس کے پیچھے کون ہے اور یہ کام کس نے کرایا لیکن اس حد تک منصور اعجاز اپنی سازش میں کامیاب ہوا کہ اس نے پاکستانیوں کو دست وگریباں کردیا۔ اس ایک تیر سے اس نے تین شکار کئے۔ ایک طرف قومی اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا کردی دوسری طرف پیپلز پارٹی سے اپنی دشمنی نکال لی اور تیسری طرف دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام اپنے اقتدار یا مفاد کےلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور ان کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔منصوراعجاز کو جاننے والے کہتے ہیں کہ یہ شخص اب بھی خاموش نہیں رہے گا وقتاً فوقتاًنئے انکشافات کے نام پر مسلمانوں اور پاکستان کوغیر مستحکم کرنے کی کوشش اور لوہا گرم دیکھ کر وار کا سلسلہ جاری رکھے گا،کیونکہ اس کو بعض عالمی قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔

بعض مبصرین 26 نومبر 2011ءکو مہمند ایجنسی کی چیک پوسٹ سلالہ پر امریکی اور نیٹو حملے کو بھی اسی میمو سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ان حملوں کے ذریعے اپنے بعض دوستوں کو دباﺅ کے ذریعے بچانا چاہتے ہیں لیکن شاید قومی سلامتی کے اداروںنے بھی اب تہیہ کرلیا ہے کہ وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کےلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پوری قوم قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس موقع پر فوجی سربراہ کا ردعمل قومی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ اگرچہ حکومت کے بعض اقدام بھی خوش آئند ہیں لیکن اس کے پیچھے دباﺅ نظر آتا ہے مگر حکومت کی تباہی کےلئے کسی باہر کے منصور اعجاز کی ضرورت نہیں ان کے پاس اپنا بابر اعوان ہی کافی ہے۔ حکومت کی جانب سے بون کانفرنس کا بائیکاٹ، شمسی ایئر بیس خالی اور نیٹو سپلائی بند کرانے اقدام انتہائی مثبت ہیں۔ ان کو تسلسل کے ساتھ اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک ہماری قومی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔

افغان صدر حامد کرزئی کا یہ دعویٰ ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان کی شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ ان کی خام خیالی ہے کہ پاکستان اس پورے تنازع کا بنیادی فرق ہے۔ پاکستان کی مرضی کے مطابق افغانستان میں ترقی ہوسکتی ہے اور نہ ہی امن کی خواہش پوری ہوگی اور نہ ہی نیٹو اور امریکی پاکستان کی مدد کے بغیرصحیح سلامت نکل سکتے ہیں۔ اس لئے کہ افغانوں کی اکثریت آج بھی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہے اور وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ طالبان اور دیگر جہادی گروپوں کا افغانستان کے 70 فیصد حصے پر عملاً کلی کنٹرول ہے۔ 15 سے20 فیصد حصے پر جزوی اور افغانستان کاصرف 10فیصد علاقہ ایسا ہے جہاں پر جہادی قوتوں کے اثرات کم ہیں۔ اس کا واضح ثبوت بون کانفرنس کا انعقاد افغانستان کے دارالحکومت کابل کے بجائے 2002ءکی طرح اس بار بھی جرمنی کے شہر بون میں ہونا ہے۔ حالانکہ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد افغانستان کی تعمیر وترقی اور 2014ءتک نیٹو کا انخلاءتھا۔ دنیا کے100 سے زائد ممالک اس کانفرنس میں شریک ہوئے لیکن اکثر مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ پاکستان کی شرکت کے بغیر بون کانفرنس بے مقصد رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکومت منصور اعجاز کے جال سے کس طرح نکلتی اور پاکستان امریکا اور نیٹو کے سامنے اپنے دباﺅ کو کس طرح برقرار رکھتا ہے۔ اس ضمن میں پوری قوم کو متحد اور منظم ہو کر یک جاں ودوقالب ہونے کا ثبوت دینا ہوگا اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.