کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر کے قبول اسلام کی سرگزشت

اسلام مکمل نظام حیات ہے۔ یہ فطری تقاضوں کا پورا کرتا ہے۔ اس لیے ہر صحیح الذہن آدمی کے لیے اسلام ہی منزل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جستجو اور تلاش کا سفر طے کرنے والے دامن اسلام میں پناہ لیتے ہیں۔ 17ویں صدی کے صنعتی انقلاب اور دور جدید کے تکنیکی انقلاب نے قبول حق کے لیے ذہنوں کو مزید ہم وار کیا۔ عقل و خرد سے سوچنے والا اسلام کی سچائی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔ حالاں کہ ویسٹرن کلچرنے ایجادات کے دوش پر یہ واہمہ قائم کیا تھا کہ مغربی ایجادات کے بطن سے اسلام کے خلاف نئی صبح طلوع ہوگی۔ عقلی ایجادات کے مقابل اسلام کا نظام روحانیت ٹک نہ سکے گا!! اسلام کی تعلیمات ایسی جامع ہیں کہ عقلی مطالعہ اس کے حسن حقیقی کو مزید بے نقاب کرنے کا باعث بنتا ہے۔

اشاعت اسلام کے تسلسل کو دیکھا جائے تو اس ضمن میں اسلامی اخلاق و تعلیمات کا عمل دخل ہے جس کی عملی تصویر صوفیا و اولیا نے پیش کی۔ اس کے نظائر کئی براعظموں میں اسلام کے اشاعتی و تبلیغی تسلسل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسلام کے دعوتی نظام میں واقعی بات تو یہ ہے کہ اس گروہ کا معمولی حصہ بھی نہیں جو صرف مسلمانوں کو کلمے کی دعوت دیتا ہے۔ پورا براعظم افریقا، امریکہ اور حتیٰ کہ ہندوستان، چین و روس میں بھی اسلام کی دعوت صوفیا کے توسط سے پہنچی۔ برطانوی انگریز نو مسلم کیمبرج یونی ورسٹی انگلینڈ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون نے صوفیا کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ انھوں نے اپنے قبول اسلام کے اسباب پر ایک کتاب Why I Accepted Islam لکھی۔ انھیں کے الفاظ میں قبول حق کی سرگزشت سنیں:

میں نے 20جون 1988ءکو اسلام قبول کیا۔ اس وقت میری عمر 44سال تھی۔ میں لیورپول میں 1944ءمیں پیدا ہوا۔ 1988ءمیں مَیں نے ایک مسلم صوفی گروپ سے رابطہ قائم کیا اور در حقیقت انھوں نے ہی مجھے فیصلہ کن مرحلہ طے کرنے میں مدد دی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں کیتھولک ازم سے دل چسپی رکھتا تھا، لیکن میں نے اسے اس لیے مسترد کر دیا کہ وہ غریبوں کی مدد اور دنیا کو ایک بہتر مقام میں بدلنے کے حوالے سے غیر متوازن رویہ رکھتا تھا، تب میں اشتراکیت اور لیبر پارٹی سے وابستہ ہوا۔ یہاں تک کہ مجھے احساس ہو گیا کہ ان کے پاس بھی غریبوں کی مدد اور دنیا کو ایک بہتر مقام میں بدلنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ اب میں مارکسیت میں دل چسپی لینے لگا لیکن اسے بھی مسائل کے حل سے عاری پایا۔

میں 1963ءمیں تاریخ کا مطالعہ کرنے کیمبرج یونی ورسٹی گیا۔ میں یورپ وسطیٰ کے نصاب تاریخ کے حوالے سے تقریباً ایک ہفتہ اسلام کے (سیاسی) عہد عروج کا مطالعہ کیا اور اس میں جو چیز میں نہ بھول پایا وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غریبوں کے ساتھ وابستگی ہے۔ 1970ءمیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں تھوڑا سا پڑھا۔ میں نے مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ کیا۔ میں نے (ترک وطن کرنے والے مسلمان) گروہوں سے رابطہ کیا۔ مجھے مسلمانوں کی کچھ خاص تقاریب میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ایک علم دوست ہونے کے ناطے مجھے لیکچر دینے کے لیے بھی کہا گیا۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر اقبال وغیرہ پہ گفتگو کی(واضح رہے کہ اقبال کی شخصیت سے موصوف کے متاثر ہونے کا سبب ان کی ذات رسول کریم سے والہانہ وابستگی اور محبت ہے، اقبال سچے عاشق رسول تھے، اور اسی میں امت مسلمہ کی کامیابی تصور کرتے تھے،)

1980ءمیں مَیں نے یونی ورسٹی میں مسلم دنیا پر لیکچر دینے شروع کیے، مسلمانوں کی ان تقاریب میں مَیں نے تلاوت قرآن سنی، چند کتابچے خریدے، اور بہت سارے لوگوں سے تبادلہ خیال کیا، یہ اسلام کے اٹھاؤ(یہاں مراد مادیت کے زوال اور اسلامی روحانیت سے مغرب کا متاثر ہونا ہے)کا زمانہ تھا، 1980ءسے میں اسلام میں سنجیدگی سے دلچسپی لے رہا تھا تب 1988ءمیں میری ملاقات (مرکز تصوف)دارالاحسان والوں سے ہوئی اور میں نے فیصلہ کن قدم اٹھایا، بلا شبہہ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں کہ میں اس راستے سے ہوتا ہوا اسلام تک کیوں پہنچا؟

ڈاکٹر محمد ہارون کا وصال1998ءمیں یوکے میں ہوا۔ دس سالہ عرصے میں انھوں نے دسیوں کتابیں لکھیں، اور ہر ایک میں استدلال کا رنگ غالب ہے۔ انھوں نے ہندوستان پر فرنگی عہد کی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ اس دور کے مذہبی و سماجی مصلحین کے افکار کا جائزہ لیا۔ اسلامی اقدار کی حفاظت کے سلسلے میں شاہ احمد رضاخاںمحدث بریلوی کی خدمات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے شاید اس کا سبب عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں وارفتگی ہو، اس لیے بھی کہ گزری دو صدیوں میں اسلام کے خلاف جتنی بھی نظریاتی تحریکیں داخلی و خارجی سطح پر ابھریں ان کا حملہ عظمت و عصمت نبوی علیہ الصلاة والسلام پر ہی رہا۔

ڈاکٹر محمد ہارون نے اپنے قبول اسلام کے اسباب میں اسلام کے سیاسی، سماجی، اخلاقی وجوہات کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، انھوں نے قرآن مقدس کی تفسیر بھی انگریزی میں لکھنی شروع کی جو ابتدائی مرحلے میں تھی کہ ان کا وصال ہوگیا۔ دنیا کے مسائل کے انبار میں ان کے واقعی حل کے لیے صرف اسلام کو مدار نجات قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں: ”مسلمانوں کو قدیم اسلام کی طرف دعوت دینا ایسا کام ہے جو آج کے مسلمانوں پر واجب ہے۔ اس کام کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بھر پور محبت اور تعظیم ہے۔“(Islamic Concept of State,p100) علاوہ ازیں وہ اپنے پیغام میں سیرت نبوی سے درس و سبق کے ساتھ اسلامی اخلاق کی طرف ذوق بھی دلاتے ہیں جس کی موجودہ انحطاط پذیر دور میں زیادہ ضرورت ہے۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257171 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.