کیا کھویا‘ کیا پایا؟ دارالحکومت دہلی کی صد سالہ تقریبات آج بھی ہیں معمہ

ہندوستان کے شہر دہلی کو دارالحکومت کا درجہ دینے کی صد سالہ تقریبات کا سلسلہ پیر سے شروع ہواہے لیکن بہت زیادہ جوش و خروش نہیں دیکھا جا رہا ہے۔12دسمبر 1911کو اس دور کے ہندوستان کے برطانوی بادشاہ جارج پنجم نے کولکتہ سے دارالحکومت کو دلی منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ان تقریبات کے تحت جنوری سے آئندہ پورے سال میں کئی اقسام کے فیسٹیول اور نمائشوں کا انعقاد کیا جائیگالیکن اس تنازع کے درمیان کہ اس یادگار کو منانے کا مطلب کلونیلزم Colonialismکو تسلیم کرنے کے مترادف ہوسکتا ہے، سرکاری سطح پر کسی بھی طرح کی تقریبات کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔برطانوی کلونیلزم سے نجات پانے کیلئے مسلمانوں نے بہت قربانیاں دیں۔1857 کے بعد پہلا دور مسلمانوں کیلئے انتہائی پر آشوب دور تھا جب مسلمانوں سے حکمرانی چھین لی گئی تھی اور وہ غلام بنالئے گئے۔ انھیں ہر طرح سے دبا یا جارہا تھا۔ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے ۔ مسلمان انگریز کی حکومت کو قبول کرنے کوتیار نہیں تھے ۔ وہ انگریزوں کی اصلاحات کو بھی شک و شبہات کی نگاہوں سے دیکھتے۔ ٹیلیگرام سروس شروع ہوئی تو کہا گیا کہ انھیں تاروں سے باندھ کے لے جانے کی تیاری ہورہی ہے ۔ بکھرے ، بپھرے مسلمان انگریزی سیکھنے کو تیار نہ تھے اور فارسی و اردو کے استادوں جوحکومت کا نظام چلانے کے ماہر بھی تھے مگر ان کیلئے کوئی جگہ نہ تھی تو اس محاورہ نے جنم لیا کہ پڑھو فارسی بیچو تیل۔جبکہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کے حصول کی طرف توجہ دلائی اور نئے علوم سے تعصّب نہ برتنے کا سبق دیا جس کے بعد مسلم علی گڑھ کالج اور پھر آگے چل کر مسلم علی گڑھ یونیورسٹی بنی جہاں مسلمان بچوں کو انگریزی و اردو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو تربیت بھی دی جاتی تھی کہ وہ کس طرح سے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے آپ کو ممتاز بناسکتے ہیں یا کم از کم عزت و آبرو کے ساتھ جی سکتے ہیں۔ پہلے مسلماں امراء اور پھر عام مسلمان انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے پر رضا مند ہوئے ، انہوں نے علاقائی و صوبائیت ہم آہنگی پیدا کرنے کے بھی اسباب پیدا کئے ۔ 1857کے فوری بعد مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ان کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی توہین اور ان کے بچوں کو ان کے سامنے ذبح کیا گیا۔یہ بات یقینی بنائی گئی کہ شہزادیوں کو طوائف بنا دیا جائے ۔مسلمانوں کو خصوصاً اور ہندستان کی دیگر اقوام کو غلام بنائے رکھنے کیلئے پولیس کا ظالم نظام ترتیب دیا گیا جن کی تنخواہ کم اور اختیارات لا محدود دیکر ظلم کی مشین بنادی گئی۔ یہ نظام آج بھی نافذ ہے جسکی وجہ سے آج بھی جابجا پولیس کے مظالم دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔ پولیس کے تھانے عقوبت خانے کے طور پر مانے اورجانے جاتے ہیں۔حتٰی کہ انگریز نے 1905میں انتظامی وجوہات کی بناءبنگال کو مشرقی و مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا ۔ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں ان کو راحت ملی اور اقتدار میں حصہ بھی ۔1906سے لیکر 1940تک ہندوستانیوںنے کانگریس کے پرچم کے تحت ہندوستا ن کو آزاد کرانے کی جدوجہد کی اور کوئی دقیقہ فرواگزاشت نہیں کیا ۔ آزادی کے حصول میںجو قربانیاں دی گئیں جو سر کٹے‘ جو عصمتیں لٹیں ‘ جو بے گھر ہوئے وہ تاریخ کا حصہ ہے مگر ملک آزاد ہوگیا۔ اس تاریخی جدوجہد پر کتابوں پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔

یہ وہی دہلی ہے جوگنگا جمنی تہذیب کی علامت امیر خسرولقب کے حامل فارسی اور ہندی شاعر‘ ماہر موسیقی ، ابوالحسن نام ، یمین الدولہ کا وطن کہلاتی ہے۔ان کے والد منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی یعنی آگرہ میں انھوںنے سکونت اختیار کی۔ امیر خسرو یہیں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ہندوستانی تھیں۔ کچھ عرصے بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا اور امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔

پیر کے روز دہلی میں ایک نمائش میں تاریخی تصاویر اور تحریوں کو پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک کتاب، ریڈ فورٹ ٹو رائے سینا یعنی لال قلعہ سے رائے سینا روڈ تک کا بھی اجراءکیا جارہا ہے۔اس موقع پر دہلی شہر کی تہذیب و ثقافت اور شہر سے متعلق مختلف طرح کی تبدیلیوں پر مبنی کئی کتابیں شائع کی جارہی ہیں اور طرح طرح کے کھانوں کے نمائشیں بھی منعقد کی جارہی ہیںلیکن بہت سے لوگ ان تقریبات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں اور بیشتر ہندوستانی اخبارات نے بھی اس خبر کو اپنے پہلے صفحہ پر جگہ نہیں دی ہے۔

کئی افراد اس طرح کے سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایسی تقریبات کا کیا فائدہ جب شہر میں بنیادی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی ہو۔شہری منصوبہ بندی کے معروف ماہر آرکیٹیکٹ کلدیپ سنگھ نے اس بارے میں انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ’برسوں سے دہلی کو بدلتے ہوئے دیکھتا رہا ہوں کہ وہ اپنی رونق کھوتی جارہی ہے تو میرے خیال سے تقریبات منانے کا یہ نظریہ بڑے طبقے کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو عام لوگوں کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘کلدیپ سنگھ کا کہنا تھا کہ شہر کے قیمتی آثار قدیمہ کے ساتھ سمجھوتہ کیا گیا اور ’چونکہ شہر میں ٹوائلٹ مہیا نہیں کئے گئے ہیں، اس لیے ڈیڑھ لاکھ خواتین صبح طلوع آفتاب سے پہلے کھلے میدان میں رفعِ حاجت کے لیے مجبور ہیں۔‘1911 میں کولکتہ سے دہلی میں دارالحکومت کو منتقل کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دارالحکومت کو ملک کے مرکز میں ہونا چاہیے۔ لیکن کولکتہ میں ڈیڑھ سو برس گزرنے کے ساتھ ہی برطانوی راج کی مخالفت میں اضافہ بھی ایک وجہ تھی۔

گزشتہ ایک سو برس میں دہلی شہر دوسرے میٹرو کی طرح بہت تیزی سے پھیلاہے۔ 1911میں 2لاکھ33ہزار کی آبادی والے اس شہر میں اب مضافات کے علاقوں سمیت دو کروڑ سے زیادہ لوگ بستے ہیں۔یہ ہندوستان کا دارالحکومت ہے جہاں پارلیمنٹ اور ایوان صدر بھی واقع ہیں۔ شہر اب ایک بڑا تجارتی مرکز ہے اور ایک حالیہ جائزے کے مطابق دہلی میں روزگار کے زیادہ مواقع کے سبب نقل مکانی کرنے والے سب سے زیادہ دلی کا رخ کرتے ہیں۔شہر اپنی تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے جہاں تقریباً ایک ہزار قدیم ورثہ کی عمارتیں، رقص، ڈراموں کے انسٹی ٹیوٹ، آرٹ گیلریوں اور کتابوں کے مراکز ہیںلیکن دہلی میں بہت زیادہ گاڑیوں اور ناکارہ سڑکوں کے سبب ٹریفک کا نظام درہم برہم رہتا ہے۔ سڑکوں پر تشدد کے واقعات عام ہیں اور فضائی آلودگی تو دہلی کا اہم حصہ بن چکی ہے۔میٹرو ریل سروس نے لوگوں کی کچھ مشکلیں ضرور حل کی ہیں لیکن دنیا کے بہترین شہروں کے مقابلے میں دہلی اب بھی ترقی پذیر ممالک کی جھلک پیش کرتا ہے جہاں بنیادی سہولیات کی کمی نظر آتی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116303 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More