خوارج و مرتدین اور گستاخانِ مصطفیٰ کا بیان(1 -- 10)احادیث کی ساتھ

 عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه يَقُوْلُ : بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنَ الْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ : فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَأَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَيْدِ الْخَيْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ : کُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : أَلاَ تَأْمَنُوْنِي وَأَنَا أَمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِيْنِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الْجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوْقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، اتَّقِ اﷲَ، قَالَ : وَيْلَکَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اﷲَ؟ قَالَ : ثُمَّ وَلَّي الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَکُوْنَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ : وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُوْلُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَمْ أُوْمَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُوْنَهُمْ، قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ : إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. وَأَظُنُّهُ قَالَ : لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب وخالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، وابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، وأبويعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، وفي حلية الأولياء، 5 / 71، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، وفي حاشية ابن القيم، 13 / 16، والسيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘

70 / 2. وفي روية مسلم زاد : فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، قَالَ : ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اﷲِ. فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، فَقَالَ : إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ، يَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ لَيِنًا رَطْبًا، (وَقَالَ : قَالَ عَمَّارَةُ : حَسِبْتُهُ) قَالَ : لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

الحديث رقم 2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064.

’’اور مسلم کي ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔‘‘

71 / 3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ : اِئْذَنْ لِي فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ : لَا، إِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ يَنْظُرُ إِلَي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَي نَضِيِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَي قُذَذِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ يَخْرُجُوْنَ عَلَي حِيْنَ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ آيَتُهُمْ رَجُلٌ إِحْدَي يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ. قَالَ أَبُوْسَعِيْدٍ : أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَأَشْهَدُ أَنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ قَاتَلَهُمْ فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَي فَأُتِيَ بِهِ عَلَي النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811، وفي کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 159، الرقم : 8560 - 8561، 6 / 355، الرقم : 11220، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم : 11639، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان (خارجی) لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔‘‘

72 / 4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : بَعَثَ عَلِيٌّ رضي الله عنه وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي کِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ فَتَغَيَظَتْ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ فَقَالُوْا : يُعْطِيْهِ صَنَادِيْدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَ يَدَعُنَا، قَالَ : إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِيْنِ، کَثُ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوْقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اﷲَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : فَمَنْ يُطِيْعُ اﷲَ إِذَا عَصَيْتُهُ فَيَأْمَنُنِي عَلَي أَهْلِ الْأَرْضِ، وَ لَاتَأْمَنُوْنِي؟ فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيْدِ فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم (وفي روية أبي نعيم : فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اﷲَ، وَاعْدِلْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : يَأْمَنُنِي أَهْلُ السَّمَاءِ وَلَا تَأْمَنُوْنِي؟ فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ : أَضْرِبُ رَقَبَتَهُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَذَهَبَ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي، فَجَاءَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَضْرِبُ رَقَبَتَهُ؟) فَلَمَّا وَلَّي قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَ يَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قول اﷲ تعالي : تعرج الملائکة والروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، وفي کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ عزوجل : وأما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم : 3166، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764، والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم : 4101، وفي کتاب : الزکاة، باب : المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم : 2578، وفي السنن الکبري، 6 / 356، الرقم : 11221، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم : 11666، 11713، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 127، الرقم : 2373.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیفِ قلب کے لئے کرتا ہوں. اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا : اے محمد! اﷲ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو (واپس پلٹ آئے اور) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟) جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔‘‘

73 / 5. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

و أخرجه أبوعيسي الترمذي عن عبد اﷲ بن مسعود رضي الله عنه في سننه وقال : وفي الباب عن علي وأبي سعيد وأبي ذرّ رضي الله عنهم وهذا حديث حسن صحيح وقد رُوي في غير هذا الحديث : عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حَيْثُ وَصَفَ هَؤُلَاءِ الْقَومَ الَّذِيْنَ يَقرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. إنما هم الخوارج الحروريّة وغيرهم من الخوارج.

الحديث رقم 5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم : 6531، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم : 1066، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188، والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4102، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 59، الرقم : 168، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113، 131، الرقم : 616، 912، 1086، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم : 37883، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، والبزار في المسند، 2 / 188، الرقم : 568، وأبويعلي في المسند، 1 / 273، الرقم : 324، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم : 1049، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم : 914، والطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم : 168.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘

’’امام ابو عیسیٰ ترمذی نے اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے (دیگر فرقوں پر مشتمل) لوگ ہوں گے۔‘‘

6. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيْمِيُّ فَقَالَ : اعْدِلْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : وَيْحَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : اِئْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ : دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنَ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ‘ ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمٌ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ... الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استابة المرتدين والمعاندين، باب : مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِئَلَّا يَنْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، 6532، وفي کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، وفي کتاب : فضائل القرآن، باب : البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771، وفي کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرَّجلِ ويْلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، ونحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، وفي السنن الکبري، 6 / 355، الرقم : 11220، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم : 172، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم : 1083، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، والحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، وقال : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم : 11554، 14861، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم : 37932، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، ونحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم : 3846، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم : 9060، وأبويعلي في المسند، 2 / 298، الرقم : 1022، والبخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم : 774.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث منافق) کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہو گا)۔‘‘

75 / 7. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ : بَصَرَ عَيْنِي وَسَمِعَ أُذُنِي رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِالْجِعْرَانَةِ وَفِي ثَوبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقْبِضُهَا لِلنَّاسِ يُعْطِيْهِمْ، فَقَالَ رَجُلٌ : اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ؟ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، دَعْنِي أَقْتُلْ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيْثَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَعَاذَ اﷲِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.

الحديث رقم 7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم : 1461، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 127، الرقم : 2372.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا : جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں بھی عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کردوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے ساتھی (نہایت شیریں انداز میں) قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

76 / 8. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّي يَعُوْدَ السَّهْمُ إِلَي فُوْقِهِ، قِيْلَ : مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ : سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ أَوْ قَالَ : التَّسْبِيْدُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

وفي رواية : عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ : سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ رضي الله عنه هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ : سَمِعْتُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ قَوْمٌ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَعْدُوْا تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

الحديث رقم 8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قراءة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم لا تجاوز حنا جرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق والخليفة، 2 / 750، الرقم : 1068، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم : 11632، 3 / 486، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم : 37397، وأبويعلي في المسند، 2 / 408، الرقم : 1193، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم : 5609، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم : 909، وقال : إسناده صحيح، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم : 2390.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے رکھنا ہے۔

اور مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ (وہاں سے نکلیں گے اور) اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘

77 / 9. عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ الْجُهْنِيِّ أَنَّهُ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوْا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوْا إِلَي الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه : أَيَهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَي قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صَلَاتُکُمْ إِلَي صَلَاتِهِمْ بِشَيءٍ وَلَا صِيَامُکُمْ إِلَي صِيَامِهِمْ بِشَيءٍ يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ... الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

الحديث رقم 9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 163، الرقم : 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم : 706، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم : 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170.

’’زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا (خوبصورت) قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمھارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘

78 / 10. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم ذَکَرَ قَومًا يَکُوْنُوْنَ فِي أُمَّتِهِ يَخْرُجُوْنَ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ سِيْمَاهُمُ التَّحَالُقُ، قَالَ : هُمْ شَرُّالْخَلْقِ (أَوْ مِنْ أَشَرِّ الْخَلْقِ) يَقْتُلُهُمْ أَدْنَي الطَّائِفَتَيْنِ إِلَي الْحَقِّ، قَالَ : فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم لَهُمْ مَثَلًا أَوْ قَالَ قَوْلاً : الرَّجُلُ يَرْمِي الرَّّمِيَةَ (أَوْ قَالَ : الْغَرَضَ) فَيَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلَا يَرَي بَصِيْرَةً وَيَنْظُرُ فِي النَّضِيِّ فَلَا يَرَي بَصِيْرَةً وَيَنْظُرُ فِي الْفُوْقِ فَلَا يَرَي بَصِيْرَةً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 10 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم : 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11031، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 622، الرقم : 1482، وقال : إسناده صحيح.

’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بدتر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔‘‘