منی بس ، موت کے کیپسول

سماجیات کے شعبے میں کام کرتے ہوں میں نے لسبیلہ میں سماجی تبدیلی کے فروغ کے لیے بحثیثت چینچ میکر اپنے کردارکو ہمیشہ سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں رکھا اس عمل میں مجھے سیکھنے کو بہت کچھ ملا اور یہی کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح تبدیلی کے عمل کے فروغ کے لیے لوگوں کے اندر ایک مثبت تنقیدی شعور کو اجاگر کرکے اپنے ساتھ ہمسر کیاجائے تاکہ وہ اس ترقیاتی عمل میں اپنا سوال اٹھا سکیں،میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سارے لوگ اپنے حقیقی مسائل کے حل کے لیے بہت کم کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتیں زیادہ تر دوسروں کی خوش آمد پر ہی ضائع کرتے ہیں،لسبیلہ میں مسائل کے بہت سارے ڈھیر لگے ہیں علاقوں میں بہت ساری قومیت کے نام پر لسانی تنظیمیں بنتی ہیں ،سماجی تنظمیں وجود میں آتی ہے حقوق کے بہت ساری دعوے دار سامنے آتے مگر ہمیشہ کی طرح وہ تحریک بھی ختم اور مش بھی ،ایسا کیوں ہوتاہے ،ایسا یہاں پر کوئی نہیں سوچتااور نہ ہی کوئی سوال اٹھاتاہے ، میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں سیاسی اور سماجی شعور کی کمی ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں تنقیدی شعور ہے کہ ہم اپنے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں کے بارے میں سوچے اور اس پر بحث کو فروغ دیں اور نہ ہی ان مسائل کے لیے جامع حل کے بارے میں کوئی پلاننگ کرتے ہیں ،دوسری طرف گورنمنٹ کے آفیسران اور ہمارے لیڈروں کو آنکھیں ہوتے ہوئے بھی کچھ دیکھائی نہیں دیتا ، میں نے ہمیشہ لسبیلہ کے سماجی و حقیقی مسائل کے حل کے لیے اپنے گزارشات میں لکھنے کی کوشش کی ہے ، گزشتہ اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں گاڑیوں میں نصب سی این جی سلینڈر کے پھٹنے سے بہت سارے لوگ انجانی موت کا شکار ہوگئے ،اس تمام تر خبروں کے بعد میرے ذہن میں ایک وہم سا ہونے لگا ہے کہ کئی ایسا نہ ہو کہ بیلہ سے کراچی کی روٹ پر آنے جانے والی منی بسوں میں اس طر ح کا حادثہ ہو اور ہمارے پیارے یا ہم خود موت کے منہ میں جائیں اور اﷲ نہ کرے کہ اخبارات و ٹی وی کی خبروں کی سرخیوں کا حصہ بنے کہ "بیلہ سے کراچی جانے والی منی میں نصف سی این جی سلینڈر پھٹنے سے فلاں تعداد میں مسافر ہلاک " لسبیلہ میں ٹرانسپورٹیشن کے بہت سارے مسائل ہیں ،جس کی وجہ سے بیلہ و کراچی سفر کرنے والے مسافر شدید اذیت کا شکار ہیں ،حکومتی احکامات سے انکاری ٹرانسپورٹر اپنی کابلی گاڑیوں کو ڈنڈہ سیٹیوں اور چھتوں سے لوڈ مسافروں کو لوٹنے میں مصروف عمل ہے اور وہاں حکومتی ادارے لوگوں کے سفری حقوق کے تحفظ کے بجائے بھتہ خواری کے نئے ریکارڈ بنانے میں مشغول ہے ،حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب یہ ٹرانسپورٹر مافیا مسافروں کے موت کا پروانہ بنے ہوئے ہیں -

میری ایک چھوٹی سی تحقیق کے مطابق بیلہ و کراچی و حب کے روٹ پر کم و بیش 70کے قریب ویگنین چلتی ہیں جن کو ہمارے ہاں حروف عام میں منی بس کہاجاتاہے ،ان تمام تر منی بسوں میں ٹرانسپوٹرزنے سی این جی کٹ یعنی سیلنڈر نصب کیے ہیں،یہ تمام بم نما ناقص سیلنڈر ان گاڑیوں کے سیٹوں کے نیچے غیر مناسب اور غیر قانونی طریقے سے لگا ہوتاہے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان گاڑیوں میں کراچی کے مختلف علاقوں سے غیر تربیتی بافتہ الیکٹریشنز ،مکنینکس اور باڈی میکرز حتیٰ کہ کباڑیوں میں موجود لوگوں کے ذریعے ان ویگینوں میں یہ بم نما سی این جی سیلنڈر بغیر کسی قائدے و ضابطے کے نصب کیے جاتے ہیں جوکہ سرکوں پر کسی چلتے پھرتے بموں سے کم نہیں ہیں۔

پاکستان کے دوسرے علاقوں میں گزشتہ ماہ اور رواں ماہ دسمبر میں گاڑیوں میں سی این جی کے سیلنڈر پھٹنے سے سینکڑوں افراد زندہ جل کر ہلاک ہوئے اور بہت ساروں کے سوختہ جسم ہمیشہ کے لیے ان الم ناک واقعات کی روداد بن گئے مگر ذمہ دار ادارے ہمیشہ کی طرح صم بکم کی تصویر بنے ہوئے ہیں-

باقی ملک کی طرح ہمارے ہاں لسبیلہ میں بھی مقامی اتنظامیہ ،محکمہ ٹرانسپورٹ ،ٹریفک و موٹروے پولیس کی مفاد پرست ذہنیت اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت میں برتی جانے والی انتہا درجے کی غفلت نے جان لیوا روگ لگادیا ہے یہی وجہ ہے کہ لسبیلہ میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والوں مسافروں کی زندگی ان منی بسوں میں نصف سی این جی سلنڈروں کی باعث غیر محفوظ ہوگی ہے ، بیلہ سے کراچی کے روٹ پر چلنے والی تمام تر گاڑیاں اب پٹرول اور ڈیزل کے بجائے سی این جی بطور ایندھن استعمال کررہی ہیں یہ سٹم ماحول دوست تو ہے مگر کسی قسم کی حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کی ہلاکت کا باعث بن رہاہے سی این جی سسٹم سے شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کی ضمن میں ایک بظاہر چھوٹا لیکن اہم ترین پہلو ہر سطح پر نظر انداز کیاجارہاہے اور یہ پہلو سگریٹ نوشی ہے جو سی این جی پر چلنے والی گاڑیوں میں عام ہے مسافروں کی بے پروائی اور غفلت کے باعث متعد د انسانی جانیں ضائع ہوسکتی جس کے لیے سرکاری سطح پر نہ تو آگاہی مہم چلائی گئی ہے اور نہ ہی قانونی طور پر ان گاڑیوں میں سگریٹ کو ممنوع قرار دیاگیا ہے -

رواں ماہ اتنے بڑے سی این جی سیلنڈر کے دھماکوں اور ہلاکتوں کے باوجود بھی لسبیلہ کی ضلعی اتنظامیہ اور ریجنیل ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے لسبیلہ میں سڑکوں میں پر دوڑتے ہوئے بموں کو ناکارہ کرنے کے لیے کوئی مثبت کاوش نظر نہیں آتی دیکھی گی جوکہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور لوگوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ وہ اپنے حقوق اور محفوط سفری سہولتوں کے لیے حکومت وقت سے سوال کریں ورنہ اپنے پیاروں کو موت کے منہ جاتے ہوئے اور قبر پر افسوس کے آنسوں بہانے سے کوئی روک نہیں سکتاہے دوسرے طر ف حکومتی اداروں کو تھوڑ ا بہت اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لسبیلہ میں چلنے والی تمام ویگینوں میں نصب شدہ سی این جی سیلنڈروں کو لانسنس یافتہ لیبارٹریز سے ٹیسٹ کیے جائے اور مسافروں کو دوران سفر سگریٹ نوشی شے پرہیز کرنے کی بھی سختی سے ہدایات جاری کیے جائے اور ٹرانسپورٹر مافیا کے خلاف ناقص سلینڈر کی موجودگی پر بھاری جرمانے ،روٹ پرمنٹ کی منسوخی سمیت فوجداری مقدمات درج کیے جائیں-
Khalil Roonjah
About the Author: Khalil Roonjah Read More Articles by Khalil Roonjah: 12 Articles with 17255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.