کیا کس سکے گا معاشرتی رابطہ یب سائٹوں پرشکنجہ؟

حکومت ہندنے دیر آید درست آید کے مصداق فیس بک اور گوگل جیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ سونیا گاندھی اور وزیرِ اعظم منموہن سنگھ جیسے رہنماؤں اور مذہبی شخصیات کے بارے میں ہتک آمیز مواد اور تصویریں شائع نہ ہونے دیں جبکہ گذشتہ دنوں نام نہاد سماجی ویب سائٹ فیس بک نے بھی کریمﷺ کے خاکوں کے حوالے سے ایک گستاخانہ مقابلے کا اہتمام کیاتھا تو ہزار شکوں کے باوجود حکومت کے سر پر جوں بھی نہیں رینگی۔ حالانکہ فیس بک کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا تھا۔کون نہیں جانتا کہ فیس بک کے پیچھے یہودی لابی ہے جسے اسرائیل اور امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پوری دنیااس ویب سائیٹ پر اپنے اکاؤنٹس بناتی ہے جس سے یہ ایک عالمی سوشل نیٹ ورک کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن اس گھناؤنی حرکت کے بعد فیس بک بلاشبہ ایک اسلام اور مسلم دشمن سائٹ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ گستاخانہ خاکوں سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی میں غم و غصے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔لیکن اب معاملہ پڑا ہندوستان کی مرکزی حکومت کا تو مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر کپل سبل نے دہلی میں نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سنسرشپ میں یقین نہیں رکھتی لیکن ویب سائٹوں پر ایسے مواد کی اجازت وہ نہیں دے گی جن سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں لہذا حکومت نے ان ویب سائٹس کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ ہتک آمیز نوعیت کے مواد اور تصاویر شائع ہونے سے روکنے کا کوئی حل نکالیں۔تاہم ان کمپنیوں کی انتظامیہ نے حکومت کو مطلع کیا کہ یہ ویب سائٹیں سرحدوں کی تابع نہیں ہیں اور یہ کہ یہ ویب سائٹ خیالات کے اظہار کا کھلا ذریعہ ہیں اس لیے وہ اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بے لگام سائٹیں پیسہ کمانے کی ایسی مشینیں ہیں جو اپنے آقاؤں کی خواہشات پوری کرنے کیلئے کسی بھی حد تک گرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ دراصل ایک اندازے کے مطابق فیس بک استعمال کنندگان کی تعداد پچاس کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ دنیا میں صرف تین ممالک چین، ہندوستان اور روس ایسے ہیں جن کی آبادی اس ویب سائٹ کے صارفین سے زیادہ ہے۔ ان پچاس کروڑ صارفین میں سے تقریباً دو کروڑ عرب جبکہ پچیس لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ پوری مسلم دنیا کے تئیس سے چوبیس کروڑ مسلمان فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس ویب سائٹ کے پچاس کروڑ صارفین میں سے تقریباً نصف تعداد میں مسلمان شامل ہیں جبکہ باقی آدھے صارفین وہ ہیں جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جن میں عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔فیس بک اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں ڈالر کے اشتہارات بک کرتی ہے۔ اشتہاری کمپنیاں اس سائٹ کو روزانہ وزٹ کرنے والوں کے حساب سے ادائیگی کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی اخبار کو اس کی سرکولیشن کے حساب سے اشتہارات ملتے ہیں بعینہ جن ویب سائٹوں پر ٹریفک زیادہ ہو اشتہاری کمپنیاں وہاں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔ مالکان بھی اپنی ویب سائٹوںپر ٹریفک بڑھانے کیلئے مختلف قسم کی سہولیت فراہم کرتے رہتے ہیں جبکہ یوزر کا آئی پی ایڈریس ایک ایسی شناخت ہوتی ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے۔بظاہر فیس بک ہر صارف کیلئے فری ہے لیکن کسی ایک اشتہار پر کلک کریں تو اشتہاری کمپنیوں کی طرف سے فیس بک انتظامیہ کو ادائیگی ہو جاتی ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اس وقت یہودیوں کی پہنچ دنیا کے تمام بڑے اداروں معیشت، سیاست، تجارت اور میڈیا تک ہے۔ امریکہ اور یورپ میں یہودی اس طرح پنجے گاڑھ چکے ہیں کہ وہاں کی حکومتیں بھی ان کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہیں۔ انٹرنیٹ میڈیا کو بھی اسرائیل اور امریکہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔انہی میں سوشل نیٹ ورک فیس بک بھی شامل ہے جس کے ذریعے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے جاسوسی کا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے۔ فیس بک کا بانی نوجوان دنیا کا ارب پتی یہودی ہے۔فیس بک کے ذریعے صیہونی جاسوسی کیساتھ ساتھ ہزاروں ڈالر روزانہ کما رہے ہوتے ہیں۔

بہر کیف کپل سبل نے سماجی ویب سائٹوں کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی مواد یا تصویر سے اس کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ ضرور اس سلسلے میں قدم اٹھائے گی۔بیان کے مطابق یہ سائٹ آزادیِ اظہار کا کھلا ذریعہ ہے جبکہ ہم ایسے کسی بھی مواد کو اپنی سائٹ سے ہٹا دیں گے جن سے ہمارے ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہو‘جو نفرت پھیلاتے ہوں‘دھمکی آمیز ہوں اور تشدد کو ہوا دیتے ہوں۔واضح رہے کہ اس سے قبل ٹوٹر اور فیس بک پر مسٹر سبّل کے اس بیان پر نکتہ چینیوں کے پیغامات بھرے ہوئے تھے جس میں انہوں نے ویب سائٹوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی سائٹوں پر لوگوں کے بیانات اور خیالات شائع کرنے سے پہلے ان کا جائزہ لیں۔ حکومت ایسے بیانات خیالات اورتصاویر شائع ہونے سے روکنے کے طریقے دریافت کرےگی جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ان کا کہنا تھاحکومت یقینا ایسے’ رہنما اصول‘ مرتب کرے گی جس سے یہ یقینی بنایا جا سکے گا کہ کوئی’ ہتک آمیز‘ مواد کسی بھی سائٹ پر شائع نہ ہو سکے۔ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین نے مسٹر سبل کے اس بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہو سکے گاجبکہ سرچ انجن یاہو Yahooنے مسٹر سبل کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔دریں اثناءفیس بک، گوگل اور ٹوئٹر پر سینکڑوں خطوط شائع ہوئے ہیں جن میں مسٹر سبّل کے بیان کی سخت مذمت کی گئی ہے اورکہا گیا ہے کہ حکومت ویب سائٹوں پر ’ایمرجنسی‘ نافذ کرنا چاہتی ہے۔شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ فیس بک کے بارے میں کئی چشم کشا انکشافات سامنے آ چکے ہیں جن کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اس کے ذریعے مخالفین کے بارے میں معلومات کے حصول اور لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ فرانس سے شائع ہونے والے یہودی روزنامے’لوماگازین دویسرائیل‘ نے ایک سنسنی خیز انکشاف کیاگیاتھا کہ موساد زیادہ تر عرب ممالک اور دیگر اسرائیل دشمن ممالک کے صارفین پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کیلئے فیس بک کو ان کی سرگرمیوں اور سوچ و فکر کے تجزیئے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اخبار نے بعض مستند دستاویزات کی روشنی میں فیس بک کے پس پردہ حقائق سے پردہ اٹھا کر نئے حقائق کا انکشاف کیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’ٹارگٹ ممالک‘ میں جاسوسی کرنے کی غرض سے فیس بک کی بنیاد رکھی گئی۔ اخبار لوماگازین نے یہ بھی انکشاف کیا تھاکہ اسرائیلی ریاست عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں موجود صارفین کے ذاتی کوائف فیس بک کے ذریعے حاصل کرتی ہے اور پھر یہ معلومات موساد، شین بیتھ اور دیگر ایجنسیوں کیلئے کام کرنیوالے علم النفس کے ماہرین کے سپرد کی جاتی ہیں۔

فرانس کی ایک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور’انٹرنیٹ کے خطرات‘ نامی کتاب کے منصف نیروکس کا کہنا ہے کہ فیس بک اسرائیلی نفسیات دانوں پر مشتمل ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے جو عرب دنیا اور خاص کر اسرائیل فلسطین تنازعے سے متعلق ممالک پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیاتھا کہ اس کے ذریعے مردوں کی جاسوسی کے لئے خواتین کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اپریل 2008کے دوران اردن کے ایک روزنامہ الحقیقہ الدولیہ میں ’پوشیدہ دشمن‘کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فیس بک اور اس طرح کے دیگر سوشل نیٹ ورک پر صارفین کی معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور پھر انہیں جاسوسی کیلئے ہدف بنایا جاتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک رحجان ہے کہ لوگ کسی دوسرے کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے فیس بک پر اپنی ذاتی معلومات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ انٹرنیٹ اور فیس بک جیسے سوشل نیٹ ورک کو جدید معلومات، تعلقاتِ عامہ، جاسوسی، فوجیوں اور ان کے خاندانوں کے درمیان رابطوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

عالمی سیاست میںبھی فیس بک کا نام کوئی اجنبی نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے سیاست دان، کھلاڑی، فنکار اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی مہم کو آگے بڑھانے کیلئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔بہت سی اہم شخصیات اپنے نظریات کے فروغ، مداحوں سے رابطہ کیلئے فیس بک کا سہارا لئے ہوئے ہیں۔فرانس کے یہودی اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیس بک سے صیہونی ریاست کے دشمن ممالک میں ہونے والے سیاسی واقعات کے بارے مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔صیہونی ذرائع ابلاغ کی بنیادی خواہش اور اصل ہدف یہ ہے کہ اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کے ذہن میں یہ تاثر ابھرے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے۔ 20مئی 2010کو فیس بک پر توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ ہوا جو عالم اسلام کیلئے ایک سیاہ دن تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے جذبات ابھارنے کیلئے 11ستمبر 2010کو’قرآن جلانے کا دن’ بھی منایا گیا۔

کمال کی بات تو یہ ہے کہ فیس بک کے خلاف بے شمار رپورٹیں سامنے آنے کے باوجود یہ سائٹ آج بھی ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ حکومت ہند کی پابندی سی قطع نظر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد جب فیس بک پاکستان میں چند دن بند رہی اس دوران اسے کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اگر مسلم صارفین فیس بک کا مکمل بائیکاٹ کر دیں تو اسے روزانہ اکیاون کروڑ ستر لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں کپل سبل کا حالیہ مؤقف قابل تحسین ہے۔

اگر فیس بک اور دیگر قابل اعتراض مواد رکھنے والی ویب سائٹوں کی ہندوستاستان میں آنیوالے ٹریفک پر ایک فلٹر لگا دیا جائے تو یہ نہ صرف پوری قوم بلکہ امت مسلمہ پر بھی عظیم احسان ہوگا۔ اس طرح ہمارا نوجوان’دشمن‘ کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچ جائیں گے اور یقینا اس میں ملک کا مفاد بھی پنہاں ہے۔ ہندوستان، اس کی مسلح افواج، انٹیلی جنس اداروں سے محبت کرنیوالا کوئی بھی محب وطن یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ آئے۔ ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے اورہندوستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116001 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More