دیہاتی رنگیل اور قومی رنگیلے

کمال آدمی ہے ۔آپ کے پاس بیٹھا ہو تو نیلسن منڈیلا کی دانش اور سیاسیات عالم اس کی سمجھ بوجھ کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ہیں۔وہ ایک چھوٹے سے گاﺅں کانمبردار بھی نہیں بس کھڑ پینچ ہے۔گاﺅں میں کسی کی بکری کے ہاں بچہ متوقع ہو یا بہو کے ہاں۔ رنگیل کا عمل دخل اس معاملے میں ضرور ہوتا ہے۔بکری کو یا بہو کواستقرار حمل سے لے کے وضع حمل تک کیا کھلانا ہے، کیا پلانا ہے۔ان کو موسموں کے تغیرات سے کیسے محفوظ رکھنا ہے۔زچہ و بچہ ہر دو کو بری نظر سے کیوں کر بچایا جا سکتا ہے۔وضع حمل کے قریب کے دنوں میں یہ فیصلہ بھی کہ ڈاکٹر کی ضرورت پڑے گی یا تخلیق کا یہ عمل گھر ہی میں بخیر وخوب انجام پانے کے امکانات ہیں۔غرضیکہ یہ اور اس عمل سے جڑے سارے معاملات اس وقت تک طے نہیں پاتے جب تک رنگیل کی رائے نہیں لے لی جاتی۔یوں تو یہ سارا بکھیڑا رنگیل اللہ کی رضا کے لئے اٹھاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے ہر وزٹ پہ اس کے قیام و طعام اور آﺅ بھگت کا جو خرچ اٹھتا ہے وہ تو گھروالے اپنی ہی عزت کے لئے کرتے ہیں۔۔اب اتنا بڑا صلاح کار خود چل کے آپ کو درپیش گتھیاں سلجھانے آپ کے گھر آجائے تو تھوڑی بہت حسب استطاعت تواضع تو بنتی ہی ہے۔اسی پہ بس نہیں یہ تو بس مشتے از خروارے تھا۔گاﺅں کے ہر مسئلے خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی،معاشی ہو یا معاشرتی،قانونی ہویا انتظامی رنگیل کی صلاح کے بغیر حل ہو ناممکن نہ تھا۔

میرے دوست نے مجھے رنگیل کی اتنی کہانیاں سنائیں کہ فوک وژڈم کے اس شہکار کی زیارت کرنے کو میرا دل مچلنے لگا۔جب میں نے اپنے دوست سے اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ مجھے اس نابغہ روزگار ہستی کی زیارت کے لئے لے جانے پہ ہنسی خوشی راضی ہو گیا ۔ایک سہانی صبح ہم رنگیل کے گاﺅں کی طرف رواں دواں تھے۔گاﺅں پہنچ کے وہاں کی روایتی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا۔مدھر ہواﺅں اور گنگناتے درختوں کا نظارہ کیا۔تھوڑی سی چہل قدمی بھی کی لیکن گوہر مقصود ہاتھ نہ آتا دیکھ کے آخر کار ہم ہی نے اپنے دوست سے رنگیل سے ملنے کی استدعا کر ڈالی۔پہلے تو اس نے ادھر ادھر کی باتوں میں ہمارے اس سوال کو اڑانا چاہا مگر ہم جب ٹکی ہی ہو گئے تو وہ ہمیں لے کے گاﺅں کے ایک کونے میں بنے مکان کی سمت چل پڑا۔دوست کے چہرے کی ہلکی ہلکی مسکان مجھے پریشان کئے دیتی تھی مگرمیں اسے اپنے دماغ سے جھٹک کے چلتا رہا۔گاﺅں میں اکثر گھر کھلے ہوتے ہیں۔ان میں چار دیواریاں نہیں ہوتیں۔وہ اسی طرح کا ایک عام سا دیہاتی گھر تھا اور حسب رواج اس کے صحن میں ایک ادھیڑ عمر شخص سرما کی دھوپ کے مزے لے رہا تھا۔ہمیں دیکھ کے اٹھا اور یوں بغلگیر ہو گیا جیسے مدتوں سے جان پہچان ہو۔ہم سے گھر والوں کی خیریت دریافت کی۔تھوڑی ہی دیر میں وہ ہم سے زیادہ ہمارے گھر والوں سے واقف ہو گیا تھا۔اب وہ ہم سے ہمارے بچوں کے نام لے لے کے مخاطب تھا۔ان کی تعلیم، ان کی شادیاں،ان کا مستقبل اور نجانے کیا کچھ۔مجھے لگا یہ شخص مجھ سے زیادہ میرا ہمدرد اور میرے بچوں کا خیر خواہ ہے۔

دل میں رنگیل کے لئے انتہائی تشکر کے جذبات لئے میں رنگیل کے پاس سے اٹھا اور واپس دوست کے گھر کی طرف چل پڑا۔سارے راستے رنگیل ہی ہماری گفتگو کا محور و مرکز تھا۔میں نے محسوس کیاکہ رنگیل سے بہت زیادہ متاثرہونے پہ کچھ زیادہ خوش نہ تھا۔وہ چونکہ گاﺅں کا چھوٹا موٹا کھڑپینچ ہے۔اس لئے اس کی ناخوشی کو پروفیشنل جیلیسی پہ محمول کیا۔میں ابھی رنگیل اور اس کی دانش ہی پہ گفتگو کرنا چاہتا تھا لیکن دوست کی سرد مہری دیکھ کے میں سامنے چنے کھانے کی طرف متوجہ ہوا اور وقتی طور پہ رنگیل میرے دماغ سے اتر گیا۔

کھانا کھانے کے بعد میں ابھی چائے پی ہی رہا تھا کہ گھر کے پچھواڑے جہاں ایک نئی سڑک تعمیر ہو رہی تھی کسی کے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھیں۔میرا دوست پریشانی کے عالم میں اس سمت بھاگا۔میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دو اشخاص باہم الجھ رہے ہیں۔کچھ دوسرے لوگ جو ہماری طرح آوازیں سن کے وہاں پہنچے تھے انہوں نے بیچ بچاﺅ کر دیا۔لوگ ابھی اپنی راہ لینے ہی کو تھے کہ رنگیل صاحب آتے نظر پڑے۔وہ دور ہی سے چلا رہے تھے کہ" وار نہ کرنا وار نہ کرنا"۔وہ جو لڑائی چھوڑ کے کھڑے تھے دوبارہ باہم دست و گریبان ہو گئے۔خدا جانے ان دو فقروں میں کیا جادو تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ جگہ میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی اور رنگیل زخمی دیہاتیوں کے درمیان بیٹھااپنی عقل و دانش کے موتی بکھیر رہا تھا۔صلح صفائی پہ لیکچر دے رہا تھااور امن کے ساتھ رہنے کے فوائد بتا رہا تھا۔سارے لوگ ہمہ تن گوش تھے اور کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہو سکا تھا کہ ختم ہو چکی لڑائی کو مہمیز ہی رنگیل کی اس للکار '' وار نہ کرنا وار نہ کرنا ' 'نے دی تھی۔اب مجھے سمجھ آئی کہ میرا دوست رنگیل کی بہت زیادہ تعریف سن کے جز بز کیوں ہو رہا تھا۔

میں شہر واپس آگیا اور سوچتا رہا کہ ہمارے ملک میں بھی تو یہی کچھ ہو رہا ہے۔فوج اور جنرل کیانی نے دامے درمے سخنے یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں اقتدار حاصل کرنے اور مارشل لاءلگانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔جنرل کیانی نے اپنے طرز عمل سے ملک میں جمہوریت کی جتنی مدد کی ہے پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی چیف نے کی ہو۔ان کے دور میں فوج کیطرف سے پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کو اپنے عمل سے ثابت کیا گیا۔ خود جنرل کیانی اور جنرل پاشا پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین کے تندو تلخ اور ترش سوالوں کے جواب دیتے پائے گئے۔اس کے باوجود فوج ہے کہ ہر طرف سے طعن و تشنیع کا شکار ہے۔طعنے طعنے ہی رہتے تو شاید ملک کی بہتری کے لئے یہ بھی جھیل لئے جاتے لیکن اب رنگیل کی طرح ایک طرف صدر زرداری کو کہنے والے کہہ رہے ہیں " وار نہ کرنا وار نہ کرنا"اور دوسری جانب فوج کی طرف منہ کر کے بھی کچھ لوگ" وار نہ کرنا وار نہ کرنا"کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔خواہاں ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرتی حکومت اور فوج باہم دست و گریباں ہوں تا کہ ان کے سوکھے دہانوں پہ بھی پانی پڑے۔یہ لوگ ملک کے اندر بھی ہیں اور ملک سے باہر بھی۔یہ شخصیات بھی ہیں اور ریاستیں بھی۔دیکھتے ہیں کہ فوج اور حکومت کو بھی اس کی سمجھ آتی ہے کہ نہیں۔اس لڑائی میں ایک کی چونچ اور ایک کی دم گم ہو گئی تو فائدہ کس کا ہو گااس کو سمجھنے کے لئے بقول اپنے ثیخ رشید کسی راکٹ سائنس کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269900 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More