ایکسویں صدی کا عشق ماضی - حصہ چہارم

28جنوری 2005ئ
از طرف: ہیر،،سویڈزر لینڈ
مائی ڈیر رانجھے ۔۔مانجھے
اسلام علیکم !
حال احوال کچھ اس طرح سے ہے کہ تمہارا ٹینشن نامہ ملا ،منع کرنے کے باوجود تم نے ایک بار پھر میرا بی پی ہائی کردیا ،میں تمہارے بارے میں کیا سوچتی ہوں اور تم کیا کرتے پھر رہے ہو ۔نکٹو میں سویڈزر لینڈ کس لیے آئی ہوں ،کیا تم جانتے نہیں کہ اس ورائٹی شو میں ڈانس کرنے کے مجھے پورے پانچ لاکھ روپے مل رہے ہیں ۔اور میں کس کے لیے کما رہی ہوں ۔تمہارے لیے اور شادی کے بعد تمہارے ہونے والے بچوں کے لیے ۔تم تو دو پیسے کمانے کے قابل نہیں ہو ،کوئی ادارہ تمہیں کام دینے کو تیا ر نہیں اور نہ تم کوئی کام کرسکتے ہو ،اور اب تک ایمپورٹ ایکسپورٹ کے لائسنس پر تم چھ لاکھ روپے خرچ کرچکے ہو ،لیکن گوبر کے علاوہ تم نے کیا ایکسپورٹ کیا اور اُس میں بھی نقصان دیا ۔ترس کھا کے میں نے ڈیری فارم میں تمہیں ملازم رکھا ہے ،ورنہ تم تو گدھے نہلانے کے قابل ہو ۔اور سچ بتاؤ کیا تم میرے پیار کے قابل ہو ،میرا احسان مانو کہ میں نے تمہیں پیا ر کیا ،تمہیں ملازمت پر رکھ کر سماج میں ایک مقام دیا ،ڈیری فارم کی ملائیاں کھلا کھلا کر تمہیں مریل سے سمارٹ بنادیا ۔ورنہ تجھ جیسے کانچ کی آنکھ والے مریل سے تو کوئی پاگل ہی پیار کرسکتی ہے ۔یہ میں تھی جس نے تم پرترس کھایا ۔راتوں کو مٹکے پر دریا پار کرکے تم سے ملنے آتی تھی اور تمہاری بے سُری بانسری پر اچھلتی کھودتی تھی ، تاکہ تمہاری احساس کمتری ختم ہو جائے ۔میرے جانو مجھ پر توفدا ہونے والے بے شمار تھے ۔ نصرت فتح علی خان ،طارق عزیز اور انور مقصود کئی بار مجھ سے شادی کا خواہش کا اظہار کرچکے ہیں لیکن ان سب کو ٹھکرا کر میں نے تم سے عشق کیا ۔اور بدلے میں تم مجھے شیرین سے ڈرا رہے ہو ۔یہ شیرین ٹھیک لڑکی نہیں ہے ،میں پاکستان آکر اس سے نپٹ لوں گی۔جانو اگر میں نے انٹر نیٹ پر مجنوں کی تعریفیں کی ہیں ،تو وہ اس قابل بھی ہے ۔تم خود سوچو وہ بے چارا لیلیٰ کے لیے کیا کیا کرتا پھر رہا ہے اور ایک تم ہو جس نے آج تک مجھے ایک پراندہ بھی گفٹ نہیں کیا ہے۔ اُلٹا حقے کے تمباکو کے لیے پیسے مجھ سے مانگتے رہتے ہو ۔مجنوں بچارا لیلیٰ کے لیے صحرا میں تڑپ رہا ہے اور تم میرے ڈیری فارم میں کھا پی کر دن بدن موٹے ہو تے جارہے ہو۔لیکن پھر بھی خوش نہیں ہو ۔میرے رانجھے شیرین کا خیال دل سے نکال دو ،ورنہ اگر میں بھی ضد میں آگئی ،تو یا د رکھنا، مجنوں سے عشق کرلوں گی اور فرہاد سے شادی کرلوں گی ،پھر مکھی کی طرح ہاتھ ملتے رہنا ،تمہیں تو لیلیٰ بھی لفٹ نہیں کرائے گی اور شیرین کو جب پتہ چلے گا کہ تمہاری ایک آنکھ نقلی ہے اور سر پر بال نہیں ہیں بلکہ وگ سے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو تو قسم سے وہ تمہیں ماموں کہے گی۔شیرین ہے ہی بے وفا ۔۔فرہاد نے اس ہر جائی کے لیے دودھ کی نہر بہا دی اور وہ بے وفا تم جیسے ڈینٹ بھرے شخص سے فون پر پیار کی باتیں کر تی ہیں ۔میں سوچ رہی ہوں کہ کیوں نافرہاد سے شادی کی بات کرلوں ،اگر وہ مان جائے تو وارے نیارے ہو جائیں گے ،اُس سے سارے پاکستان کے پہاڑوں کو کھودوا کر دودھ کی فیکٹریاں بناؤں گی ،اور پاکستان کے ہر گھر میں سوئی گیس اور پانی کے کنکشن کی طرح دودھ سپلائی کے کنکشن مہیا کر کے ایک جدید بزنس کا آغاز کروں گی ۔ سُنا ہے کہ انڈیا میں دودھ کی بڑی ڈیمانڈ ہے ،کیونکہ ہندو مذہب ماننے والے اپنے دیوتاؤں اور خداؤں کے بتوں کو دودھ سے نہلاتے ہیں ،اس لیے وہاں بھی دودھ ایکسپورٹ کروں گی اور یوں دنیامیں میرا ایک نام ہوجائے گا ۔پھر دیکھنا تمہیں اپنی جوویں نکالنے کی ڈیوٹی پر رکھوں گی ۔مجھے پاکستان آنے دو میں سب کچھ ٹھیک کر لوں گی ۔لیکن یاد رکھنا تمہیں شیرین سے ملنے نہیں دوں گی ۔۔ تمہارا یہ خواب کھبی بھی پورا نہیں ہوگا ۔
خدا حافظ
ہیر اف پنجاب فرام سویڈزر لینڈ
جان عالم سوات
About the Author: جان عالم سوات Read More Articles by جان عالم سوات: 21 Articles with 26273 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.