میمو اسکینڈل حکومت کے گلے کی پھانس

مہمند ایجنسی میں پاک فوج کی دو چیک پوسٹوں پر نیٹو حملے کے بعد ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ واقعہ میمو ایشو کو پیچھے دھکیل دے گا۔ اور ایسا ہوا بھی کہ چند دنوں تک ذرائع ابلاغ پر سلالہ حملے کا طوفانی واقعہ چھایا رہا جس نے کسی حد تک میمو گیٹ کے معاملے کو دبادیا۔ وہ تو بھلا ہو نواز شریف کا کہ انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کر کے اس اسکینڈل کو میڈیا میں دوبارہ زندہ کردیا۔ اب آیندہ چند روز تک یہ میڈیا کی زینت بنا رہے گا۔

میمو اسکینڈل حکومت کے گلے کی پھانس بنتا نظر آرہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں جس پھرتی کا مظاہرہ کیا اور ابتدائی سماعت میں ہی کمیشن بناکر تحقیقات کے احکام جاری کردیے ہیں اس پر ایوان صدر پریشان اور پیپلزپارٹی کے رہنما سٹپٹا کر رہ گئے ہیں۔ عدالتی حکم کے بعد چند گھنٹوں کے اندر ہی حکومت نے جس شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ایوان صدر کے مکین کے اشارے پر پیپلزپارٹی کے رہنما متحرک ہوگئے ہیں اور حکومت نے شاید عدالتی کمیشن سے تحقیقات میں تعاون نہ کرنے اور سپریم کورٹ کے سامنے مزاحمت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان، خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ اور دیگر پی پی رہنما اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جس طرح گرجے برسے اور انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا اس سے محسوس ہوگیا کہ ایک میمو جس پر حکومت کا اصرار ہے کہ وہ جعلی ہے اس کی عدالتی تحقیقات نے حکمرانوں کو خوف زدہ کردیا ہے اور وفاقی حکومت ایک ان جانے خوف میں مبتلا ہے۔

بابر اعوان کہتے ہیں کہ پنجاب سے 3 وزرائے اعظم کی لاشیں سندھ بھجوائی گئیں اور اب چوتھے تابوت میں کیل ٹھونکے جارہے ہےں۔بنگال جیسا کھیل کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کوانصاف سے محروم رکھاہے جبکہ پی پی رہنماﺅں نے اس تناظر میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران”سندھ کارڈ“ کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں آئینی ماہرین کا مانناہے کہ سپریم کورٹ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقتا فوقتاسیاسی بنیادوں پرکی جانے والی تنقید اور توہین عدالت سے صرف نظرکررہی ہے۔

حکومت جس طرح خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے اور جس طرح وہ اس مقدمے کو سیاسی بنانے کی کوشش کررہی ہے اس سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سندھ کو لاشیں بھجوانے کی بات وہ شخص کررہا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹی تھی۔ ماضی قریب میں پیپلزپارٹی سندھ اور ایم کیو ایم کے کمشنری و بلدیاتی نظام پر جب اختلافات شدید ہوگئے تو بابر اعوان نے متحدہ قومی موومنٹ سے مذاکرات میں کراچی اور اندرون سندھ کے لیے الگ الگ بلدیاتی نظام کا معاہدہ کیا جس پر پی پی سندھ کے متعدد ارکان نے ان پر سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش کا الزام لگایا اور انہوں نے بابر اعوان کے سندھ میں داخلے پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

آج وہی بابر اعوان کس منہ سے سندھ کارڈ کی بات کرتے ہیں جبکہ پی پی سندھ کے ارکان خود ان سے نالاں ہیں۔ کیا یہ کوئی سازش تو نہیں؟ کیونکہ پارٹی سے اس کی وابستگی دیرینہ بھی نہیں ہے۔ پریس کانفرنس میں بابر اعوان نے یہ بھی کہا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو سر نڈر نہیں کرنے دیں گے۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ لڑیں گے۔ وزیر قانون مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف پارلیمنٹ ہی سپریم ہے۔

ہمارے حکمرانوں کو اب پارلیمنٹ کی بالادستی یاد آرہی ہے۔ جبکہ اسی پارلیمنٹ نے امریکی ڈرون حملوں کے آگے بند باندھنے کے لیے ایک متفقہ قرار داد منظور کی تھی۔ کیا امریکا نے ہمارے عوامی نمایندوں کی قرار داد پر کان دھرے؟ ہماری حکومت نے آج تک پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد سے ملنے والے مینڈیٹ کو استعمال کیوں نہیں کیا؟ 2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی حملے کے بعد پارلیمنٹ کا ان کیمرہ سیشن اجلاس ہوا بتایا جائے کیا اس کے بعد پارلیمنٹ کی دی گئی ہدایت پر عمل کیا گیا؟ بے شمار ایسے معاملات ہیں جن پر حکومت پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے فیصلے کرتی رہی ہے اور عوامی نمایندوں کو اعتماد میں لینا تک گوارا نہیں کیا۔ پھر جب اپنا مفاد آیا تو پارلیمنٹ کی بالادستی کا شوشا چھوڑا جانے لگا۔ نواز شریف بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نے میمو گیٹ اسکینڈل کو پارلیمان میں اٹھایا لیکن معقول جواب نہ ملنے پر سپریم کورٹ جانا پڑا۔ ن لیگ کے رہنمااور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرچودھری نثارکوبھی حکومت سے یہی گلہ ہے کہ جب پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں پر عمل نہیں ہوگاتوسپریم کورٹ جانا پڑتاہے۔انہوں نے کہاکہ اب کسی ان کیمرااجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔پیپلزپارٹی کے ہی رہنما اور سابق صدر سپریم کورٹ بار چودھری اعتزاز احسن نے بھی اعتراف کیا کہ میمو ایشو میں پارلیمنٹ نے یقینا تاخیر کی، انتظامیہ اپنا کام کرتی تو عدالتی مداخلت کی ضرورت نہ رہتی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے میمو گیٹ اسکینڈل پر کمیشن بنانے پر سابق وفاقی وزیر بابر اعوان کے اس اعتراض پر کہ کمیشن بنانے کا اختیار صرف ایگزیکٹو اتھارٹی کو ہے، ممتاز قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو کسی بھی معاملے پر کمیشن بنانے کا اختیار حاصل ہے اور یہ اختیار آئین کی دفعہ 190، 187 کے تحت دیا گیا ہے تاہم سپریم کورٹ تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔

جہاں تک نواز شریف کی بات ہے کہ وہ ٹائی اور کوٹ پہن کر خود عدالت میں پیش ہورہے ہیں تو وہ بھی اس معاملے کو کیش کرنے کے لیے ہی میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔ اس مقدمے میں حکومت کا دامن داغدارہو یا کسی شخصیت کا مجرم ہونا ثابت ہوجائے دونوں صورتوں میں اس کا فائدہ میاں صاحب کو ہوگا۔ اسی لیے وہ بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں لگ گئے ہیں۔

اس سارے منظر نامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے چند ہفتے حکومت کے لیے بہت سخت ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دیا ہے جس سے لگ رہا ہے کہ عدالت اس معاملے کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔بلاشبہ موجودہ صورت حال میں میمو اسکینڈل غیر معمولی اہمیت کاحامل معاملہ ہے،اس سے صرف نظر کرناکسی بھی طور درست نہیں ہو سکتا،اس کی تحقیقات کرنااور معاملے کی تہہ تک پہنچنا اب اس لیے بھی ضروری ہوگیاہے کہ قوم حقائق جاننا چاہتی ہے ۔قوم کے سامنے ساری تفصیلات سامنے آنی چاہیے کہ اصل میں ہواکیا ہے۔ اس ساری بھاگ دوڑ کا نتیجہ کیا نکلے گا سیاسی مبصرین اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم پی پی کے رہنماﺅں سے دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی پالیسیاں قومی اداروں کو تصادم کی طرف لے جارہی ہیں ۔لہٰذا اس صورت حال میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس نازک وقت میں آئینی ادارے کسی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ اب وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے احتراز کریں۔ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات ماننے میں ہی ہماری بقا ہے ورنہ پورا نظام خطرے میں پڑجائے گا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.