لگام کسنے میں کیوں ناکام ہے وجیلنس؟

بد عنوانی کا نام ذہن میں آتے ہی ہر وہ چہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے جس سے پیچھا چھڑانے یا مقصد براری کے سلسلے میں سابقہ پڑا تھا اور بادل نخواستہ جیب ڈھیلی کرنی پڑی تھی۔اس کی بیخ کنی کیلئے حکومت نے محکمہ وجیلنس قائم کیا ہے لیکن جس محکمہ وجیلنس کے سہارے ریاستی حکومت بدعنوانی اور دھوکہ دہی جیسے امور پر نکیل کسنے کا دم بھرتی ہے وہی محکمہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو یا این سی آر بی کی رپورٹ میں اس کی پول کھل گئی ہے۔ دہلی میں تو 34 ملازمین کے خلاف باقاعدہ محکمے کارروائی کی سفارش بھی کی گئی لیکن اتر پردیش ، بہار اور ہریانہ میں کسی بھی مجرم ملازمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جھارکھنڈ ، اڑیسہ ، پنجاب ، راجستھان اور تملناڈو میں ملزم ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ غداری اور دھوکہ دہی کرنے کے معاملات میں ملازمین کے علاوہ افسر بھی پیچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں گروپ اے ، بی اور غیرگزٹڈحکام پر الزامات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

زیادہ تر معاملات میں تفتیش پوری کیلئے اوسطا چھ ماہ کی مدت طے کی گئی ہے لیکن کئی برسوں تک تو فائلوں پر دھول پڑی رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے نہ صرف معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے بلکہ ملزمان کا بھی حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک سینئر ریٹائرڈ افسر نے کہا کہ جب جانچ کی مدت کھنچتی چلی جاتی ہے تو اس کی سنگینی بھی ختم ہو جاتی ہے جبکہ بہت سے معاملوں میںتو تفتیشی افسر اور ملزم کے درمیان ہمدردی پنپ جاتی ہے۔ ویسے بھی ، محکمہ کے چھوٹے بڑے افسر ایک دوسرے کے رابطہ میں ہونے کی وجہ سے تمام معاملات کے رازدار ہوتے ہیں۔ اس ٹولی میں سے کوئی ایک افسر بھی اگر وجیلنس میں پہنچ جاتا ہے تو منصفانہ کارروائی کی گنجائش کم ہی بچتی ہے۔ اس وجہ سے صحیح فرد جرم نہیں لگاپاتا اور کیس کھنچتاچلا جاتا ہے۔ خاص بات ہے کہ جن کیسوں میں گروپ اے یا بی کلاس کا کوئی افسر شامل ہوتا ہے تو اس کی جانچ پڑتال غیر ضروری طور پر ٹھنڈے بستے میں ڈال دی جاتی ہے۔ اس طرح کی فطرت عام طور پر تمام ریاستوں میں دیکھی جا رہی ہے لیکن اس سلسلے میں گذشتہ دنوںپردیش ، اڑیسہ اور تملناڈو میں اچھا کام ہوا جبکہ مہاراشٹر کی بدعنوانی سے ملک کی دیگر ریاستوں کیلئے تشویش پیدا ہو جانا فطری با ت ہے۔

انا نے بد عنوانی کے خلاف تحریک چھیڑ کر پورے ملک میں بد عنوانی پر وار کیا جبکہ خود ان کی ناک کے نیچے ملک کی سب سے بد عنوان ریاست مہاراشٹر ہے۔صوبہ میں کوئی بھی ایسا محکمہ نہیں ہے جسے بد عنوانی کا مرض نہ لگا ہو۔تجارتی دارالحکومت کہلائی جانے والی ممبئی اسی ریاست کا دارالسلطنت ہے جہاں ہر شخص بد عنوانی سے پریشان ہے۔ بد عنوانی روکنے کی جتنی تدبیریں کی جاتی ہیں ،ان سبھی تدبیروں پر ریاست کی بد عنوان افسر شاہی پانی پھیر دیتی ہے۔ شاید اسی لئے ا ناہزارے نے بدعنوانوں کو اجاگر کرنے کیلئے سب سے پہلے ستیہ گرہ مہاراشٹر میں ہی کیا ۔ان کی تحریک کی بدولت مہاراشٹر ملک کا پہلا صوبہ بنا تھا جس نے ’حق اطلاعات‘ کا حق عام شہریوں کو دیا تھا۔ اس سے لوگوں میں بد عنوانی کے تعلق سے بیداری بھی پیدا ہوئی اور لوگ اپنی شکایتیں لے کر سینئر افسروں و اینٹی کرپشن بیورو کے پاس بھی جانے لگے۔ بد عنوان افسروں اور ملازمین کو رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے معاملے بھی درج کئے گئے۔ اس کے باوجود بد عنوانی میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ نتیجتاً ہر ماہ بد عنوانی کے 6سے7 بڑے معاملے سامنے آتے ہیں۔ روز کوئی نہ کوئی افسر یا ملازم اینٹی کرپشن بیورو کی پکڑ میں آجاتا ہے۔

جس دن سماجی کارکن انّا ہزارے نے جن لوک پال بل کو پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے بعد دہلی کے رام لیلا میدان میں اپنی بھوک ہڑتال توڑی تو اس کے دو دن بعد ہی یہ رپورٹ آئی کہ مہاراشٹر ملک کا سب سے بد عنوان صوبہ بن چکا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مہاراشٹر میں سرکاری افسروں ، ملازموں کی بد عنوانی کے ہر ماہ تین چار بڑے معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔ اس معاملے میں راجستھان دوسرے اور اڑیسہ تیسے نمبر پر ہے۔ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ سال 2007 میں ٹرانسپرینسی انٹر نیشنل نے ملک کا سب سے بد عنوان صوبہ بہار کو بتایا تھا، لیکن اب یہ تاج مہاراشٹر کو مل گیا ہے۔ یہاں آئے دن کسی نہ کسی بڑے لیڈر ، افسر سے متعلق معاملات ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی سینئر افسر رشوت لیتے پکڑا جاتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان ریاست کے عوام سے صاف ستھرا ،شفاف انتظامیہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں تودوسری جانب بد عنوانی کا اژدہا نہایت تیزی سے ہر محکمے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اسٹیٹ کوآپریٹیو بینک گھوٹالہ، ، آدرش سوسائٹی گھوٹالہ ، ٹینڈر گھوٹالہ، زمین سے متعلق گھوٹالے تو مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری دفتروں میں پھیلی بد عنوانی کی سب سے زیادہ مار عام آدمی کوبرداشت کرنی پڑرہی ہے۔ کاسٹ سرٹیفکیٹ بنوانا ہو یا کاسٹ ویلڈیٹی کا معاملہ ہو، افسر ، ملازم کی جیب گرم کیے بغیر اس کا کام نہیں چلتا۔

ریاست میں بد عنوانی کا عالم یہ ہے کہ سرکار کے ذریعہ عوامی مفاد میں جاری کئے گئے منصوبوں کا فائدہ عوام کو کم اور اس سے جڑے افسروں و ملازمین کو زیادہ ہو رہا ہے۔ مرکزی سرکار کی پہل پر ریاستی سرکار نے انتظامی امور میں شفافیت لانے کے مقصد سے ’ای گورننس‘ کے تحت ’ای ولیج‘ ( مہا ای سیوا) منصوبہ صوبہ میں نافذ کیا ہے۔ نجی شراکت سے چلنے والا یہ منصوبہ اب تک زمینی سطح پر ریاست کے افسروں کی بے توجہی کی وجہ سے نفاذ نہیں ہو پا رہا ہے۔۔ گزشتہ دو ڈھائی سال سے یہ منصوبہ اٹکا پڑا ہے۔ وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان نے یکم مئی 2011 کو مہاراشٹر دیوس پر ’ مہا ای سیوا یوجنا‘ کو نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے 15 دن بعد اس سے متعلق سافٹ ویر کا افتتاح بھی وزیر اعلیٰ کے ذریعہ کیا گیا کہ 15 اگست سے مہا ای سیوا شروع ہو جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت گرام پنچایت سطح پر ہی دیہات میں رہنے والوں کو 70 سے زیادہ سرٹیفکیٹ مقررہ فیس اور مقررہ وقت پر دئے جانے کی سہولت ہے۔ اس منصوبے کا اہم مقصد دیہات میں رہنے والوں کو تحصیل(تعلقہ) اور ضلع افسر یا کچہری میں اپنے کاموں کے لئے بار بار چکر لگانے سے راحت دلانا تھا تاکہ ان کے وقت اور پیسوں کی بچت ہو لیکن سرکار کے اس منصوبے کو اب تک نافذ نہیں کیا جا سکا ہے۔انتظامی محکموں کے ذرائع کے مطابق ’مہا ای سیوا یا ای ولیج یوجنا ‘ کونافذ کیے جانے میں سب سے بڑی رکاوٹ سینئر افسران ہیں۔یہ افسران نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی اوپری کمائی پر کسی طرح کا لگام لگے۔ تحصیل داروں کا اس اسکیم کے تعلق سے کہنا ہے کہ جب تک ملازمین کو کمپیوٹر چلانا نہیں آئے گا، تب تک اسے کیسے کیا جا سکے گا۔ کئی ملازمین نے بتایا کہ تحصیلوں میں آنے والے لوگوں سے بابوﺅں (کلرکوں) کو ہر دن 500 روپے سے لے کر ہزار دو ہزار کی اوپری آمدنی ہوتی ہے۔ پٹواری پلاٹ (زمین) کا ساتبارا بنانے کیلئے200 سے 500 روپے مانگتا ہے۔ قانون کے مطابق کام کرے گا تو اسے صرف 20 روپے میں کر کے دینا ہوگا۔ ایسا صورت میں پٹواری کیوں چاہے گا کہ’ مہا ای سیوا‘ نافذ ہو اور اس کو ساتبارا سے ہونے والی آمدنی بند ہو۔ تحصیلدار کسی بھی کاغذ پر صرف دستخط کرنے کے پیسے مانگتا ہے۔ ایسے میں بدعنوانی بڑھے گی نہیں تو کیا ہوگا؟ان حالات میں بھلے ہی وزیر اعلیٰ نے منصوبہ نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اس کا نفاذ بھی تو ریاست کے نوکر شاہوں کو ہی کرنا ہے۔ ’مہا ای سیوا یوجنا‘ ایک مثال ہے کہ کس طرح ریاست میں بدعنوان نوکر شاہی عوامی مفاد میں نافذکئے گئے منصوبوں کویرغمال بنا لیتی ہے۔ ایسے سینکڑوں منصوبے بد عنوانی کی نذرہو گئے۔ ان حالات میں اگر مہاراشٹر کو ملک میں بدعنوانی کے معاملے میں اول مقام حاصل ہے۔گویا اربابِ اقتدار اور افسرشاہ مل کر ریاست کے عوام کو ٹھگ رہے ہیںجبکہ وزراءمحض قانون ساز منصوبوں کے نافذ ہونے کا اعلان کر کے اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں۔اس کے بعد منصوبہ زمینی سطح پر کتنا آگے بڑھا کہ وہ نوکر شاہوں کی رپورٹ پر منحصر رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2000 سے 2009 تک مہاراشٹر میں بد عنوانی سے متعلق 4566 شکایتیں موصول ہوئیں۔2009 میں 476 شکایتیں درج کرائی گئی تھیں۔ اس کے بعد لگاتار بد عنوانی کے معاملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ریاست میں ہر سال اوسطاً 450 سے 460 شکایتیں بدعنوانی کی ملتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر شکایتیں ریونیو محکمے سے متعلق ہوتی ہیں۔ ریونیو محکمہ کے بعد شکایتیں اسکولوں و کالجوںکے تعلق سے آتی ہیں۔ ریاست کے داخلی محکمے سے متعلق شکایتیں بھی بڑی تعداد میں عوام کے ذریعہ کی جاتی ہیں۔خاص طور پرزمین ، مکان اورکاسٹ سرٹیفکٹ کے لئے سب سے زیادہ رشوت مانگی جارہی ہے۔ بیورو نے یہ بھی تصدیق کی کہ اگر ان معاملوں میں ایک شکایت ملی ہے تو 20 شکایتیں گویادبا دی گئی ہیں۔ یہ ایک تکخ سچائی ہے۔ بیورو نے صرف سرکار کے ذریعہ مہیا کرائے گئے اعدادو شمار کی بنیاد پر اپنی رپورٹ بنائی ہے۔ اصلیت اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔بد عنوانی کی لاکھوں شکایتیں درج ہی نہیں کرائی جاتی ہیں۔ لوگ شکایت کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ شکایت کرنے کے بعد اس کا کام ہوتا نہیں بلکہ اسے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کی متعدد مثالیں ہیں ۔ ریاست میں 2009 میں بد عنوانی کی 473 شکایتیں درج ہوئی تھیں ، جن کی بنیاد پر 647 لوگوں کی جانچ ہونی تھی مگر راست طور پر 137 لوگوں کو ہی جانچ کے بعد قصوروار پایا گیا اور گرفتار صرف 38 لوگوں کو کیا گیا۔اسی طرح سال 2010 میں بڑی تعداد میں بد عنوانی کی شکایتیں آئیںلیکن الزام صرف 28 لوگوں پرہی ثابت ہوسکا۔ اس کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے ’فورم فار اپیکٹیونیس اینڈ اکاﺅنٹبیلیٹی ‘ کے ممبر میلیند کوٹک بتاتے ہیں کہ بدعنوانی کے معاملوں میں ملزم اپنے بچاﺅ میں مشہور و معروف وکیل عدالت میں کھڑا کر کے بچ نکلتے ہیں۔ سرکاری وکیل متاثرہ پارٹی کاموقف موثر طریقے سے عدالت میں پیش نہیں کرپاتے ہیں۔ دوسری طرف متاثرہ فریق الگ سے وکیل رکھنے کے لئے مالی طور پر متحمل نہیں ہوتاہے۔ اس سے بدعنوان لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوتا ہے۔وہیں ’بدعنوانی مخالف بیورو‘ کے پولیس ڈپٹی ڈائرکٹرنکیت کوشک بتاتے ہیں کہ صرف ممبئی میں ہی بد عنوانی کی کم سے کم ہر سال تقریباً ڈیڑھ سو شکایتیں ملتی ہیں، لیکن مشکل سے 60 سے 65 فیصد قصورواروں کے خلاف ہی کارروائی ہو پاتی ہے۔ زیادہ تر معاملوں میں سرکاری کام کرنے کے لئے افسروں کے ذریعہ رشوت مانگنے کی بات سامنے ا?تی ہے۔ہم ہر بد عنوانی کے معاملے میں کارروائی کرتے ہیں۔ اس کے لئے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ عام شہری کو بد عنوان و رشوت خور افسروں کی شکایت کرنے کے لئے موبائل وین، انٹر نیٹ پر شکایت درج کرانے کی سہولت ہمارے محکمے نے شروع کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر بد عنوانی کے معاملے میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔ مگر کوشک کی بات سے یہ لگتا ہے کہ ان کے محکمے کی کوششوں کے بعد بھی بد عنوانی پر لگام نہیںکَسی جا سکتی ہے۔یہ سمجھنے والی بات ہے کہ کیوں ٹاٹا انڈسٹری گروپ مغربی بنگال چھوڑ کر نینو کا پروڈکشن کرنے کے لئے پہلے مہاراشٹر آیا اور دو چار دن میں ہی گجرات چلا گیا۔ اسی طرح معروف کار بنانے والی فورڈ کمپنی نے اپنی انڈسٹریل یونٹ لگانے کیلئے مہاراشٹر کا انتخاب کیا تھا لیکن جب معاہدے کی بات آئی تو وہ بھی گجرات چلی گئی۔کہا جاتا ہے کہ یہاں کے اعلیٰ عہدے پر بیٹھے افسران ان کمپنیوں سے بات چیت کے دوران اپنا حصہ بھی چاہتے تھے‘ اسلئے ان کمپنیوں نے مہاراشٹر کو چھوڑنا ہی مناسب سمجھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بد عنوانی کی دیمک مہاراشٹر کی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچا رہی ہے۔وہ صنعت کارجو پہلے سے یہاں تھے انہوں نے بھی دھندہ سمیٹ کر صوبے سے نقل مکانی میں ہی عافیت سمجھی۔ اب سرکار کا کوئی بھی محکمہ ایساباقی نہیںبچا ہے جو بد عنوانی سے پاک ہوجبکہ بد عنوانی کی وجہ سے ہی ریاست کے بڑے شہروں میں زمین مافیا، تیل مافیا، کوئلہ مافیا، اناج مافیا ، شراب مافیا اور نہ جانے کتنے گروہ پرورش پا رہے ہیں۔مافیا کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک گزیٹیڈ افسر کو بھی راہ چلتے پٹرول ڈال کر جلا دیا ۔کارروائی کرنے گئی پولیس کے اوپر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ سرکار کارروائی کرنے کا اعلان کرتی ہے یا بھروسہ دلاتی ہے۔ مسائل میں کوئی بہتری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ مزید الجھتے جاتے ہیں۔ ریاستی سرکار کی وزارت کے کئی ممبروں پر بھی گھوٹالوں میں شامل ہونے کا الزام لگتا رہتا ہے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار ہوں یا شیواجی راﺅ ہوں، نتین راوت ہوں یا ولاس راﺅ دیشمکھ سبھی کہیں نہ کہیں بد عنوانی کے معاملے میں لپٹے نظر آتے ہیں۔عام آدمی کا ماننا ہے کہ ایکسائز محکمہ، ٹریفک محکمہ، ریاستی پولیس محکمہ، ریونیو محکمہ 70 فیصد سے زیادہ بد عنوان ہیں۔ آدیواسی ترقیاتی محکمہ اور محکمہ تعلیم 50 سے 60 فیصد تک بد عنوان ہے۔ وزارت سے لے کر گرام پنچایت تک انتظامیہ اور حکومت میں بد عنوانی موجود ہے۔ اس بد عنوانی کی دیمک سے ریاست کے عوام پریشان ہیں۔وزیر اعلیٰ چوہان و دیگر وزراءبھلے اپنی تقریروںمیں ریاست کے عوام سے شفاف انتظامیہ دینے کا وعدہ کرتے ہیںلیکن ان کے یہ وعدے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ مہاراشٹر کوبد عنوانی کا ایسا مرض لگ گیا ہے جس سے چھٹکارا تو کیا ملتا بلکہ ریاست کے خزانے کو تو نقصان ہورہا ہے‘ ساتھ ہی ریاست کی اقتصادی، سماجی ترقی بھی متاثر ہورہی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116794 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More