خواجہ سراؤں کے اجتماع میں آگ

معاشرے میں حقارت، حق تلفی، نظر اندزی کا پیکر بنی تیسری صنف گذشتہ روزدارالحکومت نئی دہلی کے جمنا پارعلاقہ میں درپیش سانحہ پر صوبائی حکومت نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیاجس میں نند نگری کے علاقہ میں خواجہ سراؤں کے ایک اجتماع میں اتوار کو رات گئے آگ لگنے کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک اور 34 زخمی ہو گئے۔پولیس کے مطابق شہر میں دو ہزار سے زائد خواجہ سراؤں کا یہ اجتماع جاری تھا کہ وہاں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ آخر پولیس اور انتظامیہ نے اتنے بڑے مجمع کو اکھٹا کیسے ہونے دیا جبکہ اس اجتماع میں شرکت کیلئے پورے ہندوستان کے علاوہ نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی خواجہ سرا نئی دہلی پہنچے ہوئے تھے۔ہندوستانی دارالحکومت میں پولیس کے ترجمان راجن بھگت نے خبر ایجنسی IANS کو بتایا کہ آگ ایک کچی بستی میں لگائے گئے ایک خیمے میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی جو دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گئی۔ امدادی کارکنوں کے مطابق آگ جس خیمے سے شروع ہوئی، وہ اس اجتماع کے شرکاء سے بھرا ہوا تھا اور قریب 30 میٹر طویل تھا۔اس اجتماع کے منتظمین میں سے ایک شاپو نے خبر ایجنسی اے پی کو بتایا کہ آتشزدگی کے وقت اس تقریب میں پانچ ہزار کے قریب خواجہ سرا موجود تھے۔ یہ اجتماع ہر پانچ سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس کا اہتمام نئی دہلی کے مشرقی حصے میں نندنگری کے علاقے میں ایک کمیونٹی سینٹر کے قریب کھلے گراؤنڈ میں کیا گیا تھا۔عینی شاہدین کے مطابق اتوار کو رات گئے یہ حادثہ تقریب کے شرکاءکی طرف سے ایک اجتماعی عبادت میں شمولیت کے دوران پیش آیا۔ وہاں موجود افراد نے اپنی جانیں بچانے کی پوری کوشش کی تاہم اس دوران کم از کم 15 افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور 34 زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں سے کئی ایک حالت نازک بتائی گئی ہے۔ایک عینی شاہد کے بقول پہلے ایک زور دار دھماکہ ہواجیسے کوئی سیلنڈر پھٹا ہو، اور پھر ہر طرف آگ کے شعلے دکھائی دینے لگے۔ فائر بریگیڈ اور طبی امدادی عملے کے کارکن فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے تھے۔

ذرائع پر یقین کریں توہندوستان میں خواجہ سراؤں یا ہیجڑوں کی مجموعی آبادی کے بارے میں کوئی سرکاری یا قابل اعتماد غیر سرکاری اعداد و شمار تو موجود نہیں تاہم اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں خواجہ سراؤں کی مجموعی تعداد سات لاکھ اور ایک ملین کے درمیان ہے۔ ان کی اپنی ایک ملکی تنظیم بھی ہے جس کا نام خواجہ سراؤں کی آل انڈیا ویلفیئر ایسوسی ایشن ہے۔ہندوستان سمیت جنوبی ایشیائی معاشروں میں کنر‘ ہیجڑے یا خواجہ سرا کہلانے والے افراد معاشرے کے مرکزی دھارے سے بہت دور ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر شادیوں اور بچوں کی پیدائش کے موقع پر ناچ گانے سے ملنے والی رقم پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں وہ بھیک مانگنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں جبکہ خواجہ سرا کسی دور میں ہندوستان کے بادشاہوں اور ان کے اہل خانہ کے خاص خدمت گار ہوا کرتے تھے اور شاہی محل میں ان کو مختلف کاموں پر مامور کیا جاتا تھا جو وہ بخوبی انجام دے سکتے ہوں۔ مگر آج کے دور میں وہ ایک تلخ حقیقت بن کر رہ گئے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے دور زوال میں چند ایسے بادشاہوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو نسوانی رجحان کے حامل تھے اور بسا اوقات دربار میں زنانہ لباس اور زیور پہن کر بھی آ جایا کرتے تھے اور خواتین کی بجائے مردوں سے صنفی تعلقات رکھنے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔خواجہ سراؤں کو محلات میں ایسا آزادانہ مقام حاصل ہو چکا تھا کہ حرم کی بیگمات اور لونڈیاں بھی بسا اوقات اپنی ناآسودہ خواہشات سے مجبور ہو کر انہی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہو جایا کرتی تھیں۔کسی شخص کو خصی کرنا مثلہ کرنے کے مترادف ہے۔ حوالوں کے مطابق اسلام میں یہ حرام قطعی ہے جس پر پوری امت کا اتفاق رائے ہے۔ اسلام میں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کو خصی کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ مسلم مصلحین نے مخنثین کے اس طبقے اور ان کے استعمال پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان پر انحصار نہ کرنے کی ترغیب دلائی۔ ان کی تحریک کو مسلم معاشروں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن پھر بھی کسی نہ کسی صورت میں یہ سلسلہ چلتا رہا۔بعض مذہبی بادشاہوں نے اس کے خلاف عملی اقدامات بھی کئے۔ ساقی مستعد خان، اورنگ زیب عالمگیر کے ایک اقدام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ1668میں شہنشاہ (اورنگ زیب) نے الہ آباد اور اودھ کے صوبے داروں اور فوج داروں کو حکم دیا کہ وہ ان افراد کو تلاش کریں جو بچوں کو مخنث بناتے ہیں اور انہیں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر دربار میں لائیں۔ اسے ناقابل تنسیخ حتمی حکم سمجھا جائے کہ کسی کو اس مکارانہ عمل کی اجازت ہرگز نہ دی جائے۔

کہا جاتا ہے کہ شاہی خاندانوں نے اتنے بڑے بڑے حرم بنا لئے تھے کہ ان میں ہزاروں کی تعداد میں لونڈیاں موجود رہا کرتی تھیں۔ حرم کا مالک، خواہ کتنے ہی کشتے اور معجون وغیرہ کھا کر اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کی کوشش کرے، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں موجود خواتین کو جنسی اور نفسیاتی اعتبار سے مطمئن کر سکے۔ حرم رکھنے کا لازمی نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ یہ خواتین اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے متبادل راستے تلاش کریں۔ یہ بات شاہی خاندانوں کو گوارا نہ تھی۔ شاہی خاندانوں کے لئے مشکل یہ تھی کہ اگر وہ حرم کی حفاظت پر محافظ مقرر کرتے ہیں تو یہی محافظ ان کی جھوٹی عزت کے لٹیرے بن جائیں گے۔ خواتین کی فوجی تربیت اتنی عام نہ تھی کہ ان پر فوجی خواتین کو ہی محافظ بنا دیا جائے۔ مسلمان بادشاہوں کو یونانی معاشرے سے اس مسئلے کا حل مل گیا۔ وہ حل یہ تھا کہ مخنثوں پر مشتمل ایک پولیس تشکیل دی جائے اور حرم کی حفاظت کا کام اس پولیس کے سپرد کر دیا جائے۔ قدرتی طور پر مخنث اتنی بڑی تعداد میں پیدا نہیں ہوتے کہ ان کی ایک باقاعدہ پولیس فورس تشکیل دی جا سکے۔ اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی تھی اور وہ یہ کہ مردوں کو خصی کر کے مخنث بنایا جائے لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ اسلام میں کسی مرد یا خاتون کو مخنث بنانا قطعی حرام ہے۔ بعض راہبانہ مزاج رکھنے والے صحابہ نے ایسا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ یہ کام مسلم سلطنتوں کی حدود سے باہر انجام دیا جانے لگا۔ بردہ فروشوں نے افریقہ، وسط ایشیا اور یورپ کے غیر مسلم ممالک کے بردہ فروشوں سے تعلقات قائم کر لئے۔ یہ لوگ اپنے ہاں کے غلاموں اور جنگی قیدیوں کو مخنث بنا کر انہیں مسلم ممالک کی طرف اسمگل کر دیتے۔ چونکہ یہ سارا کاروبار بادشاہوں کی خواہش سے ہوا کرتا تھا اس وجہ سے اس پر حکومت کی جانب سے کوئی پابندی عائد نہ تھی۔ ان مخنثین کو کس قدر تکلیف سے گزرنا پڑتا تھا، اس کا اندازہ اون علیک شہادةکے اس بیان سے ہوتا ہے کہ عرب معاشروں میں غلاموں کا سب سے مہنگا طبقہ زبردستی مخنث بنائے گئے خواجہ سراؤں کا تھا جو کہ یوروپ، دارفور، حبشہ، کاردوفان اور دیگر افریقی اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا۔ غیر متوقع طور پر انہیں خواتین کی نسبت زیادہ مراعات حاصل ہوا کرتی تھیں کیونکہ یہ وہ جنسی کام نہیں کر سکتے تھے جو خواتین کر سکتی تھیں۔ عام طور پر مصر میں قبطی پادری مخنث بنانے کا عمل سرانجام دیتے تھے لیکن عربوں میں سے بھی ایک گروہ ایسا کیا کرتا تھا جو کہ شمباکہلاتا تھا۔نوجوان لڑکوں کوجنہیں اغوا کر کے یا جنگوں میں شکار کیا جاتا تھا، بغیر بے ہوش کئے ایک ناقابل بیان، غیر انسانی اور خوفناک آپریشن کے ذریعے مخنث بنایا جاتا تھا۔ اس عمل میں عام طور پر ساٹھ فیصد لڑکے ہلاک ہو جاتے تھے۔ خون روکنے کے لئے دہکتے کوئلے زخموں پر لگا دیے جاتے تھے جس سے وہ انسان ایک خونیںچیخ مارتا تھا۔ اس ظالمانہ اور وحشیانہ فعل کے بدلے ایسا کرنے والوں کو اثرورسوخ، عیاشی، ریشمی خلعتیں، جانور، ہیرے جواہرات عطا کئے جاتے تھے جو ان کی دولت میں اضافہ کیا کرتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر یہ خواجہ سرا غلامی کے باوجود عرب معاشرے میں ممتاز اور اعلٰی مقام کے حامل ہوا کرتے تھے۔کم و بیش یہی تفصیلات ایڈم متز نے بھی بیان کی ہیں۔ یہ مخنث محض حفاظت کا کام ہی سرانجام نہ دیا کرتے تھے بلکہ محلاتی سازشوں میں بسا اوقات نہایت اہم کردار ادا کرتے تھے۔ بعض ہم جنس پرست قسم کے شہزادے ان سے بھی جنسی اعتبار سے لطف اندوز ہوا کرتے۔ ابن کثیر نے البدایة و النہایةمیں چند ایسے عباسی بادشاہوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے گرد بکثرت خوبصورت مخنث رکھے ہوئے تھے۔ بعض مخنث اعلٰی درجے کے موسیقار اور رقاص بھی ہوا کرتے تھے اور اپنے فن سے امرائ کا دل بہلایا کرتے تھے۔ بعض خواجہ سراؤں کو اعلٰی عہدوں سے بھی نوازا جاتا۔ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ(ہارون) رشید کے بعد پہلا خلیفہ جس نے غلاموں کی زیادہ قدر کی اور خواجہ سراؤں کو بڑی بڑی قیمتیں دے کر حاصل کیا، امین تھا۔ وہ ہمیشہ انہی سے سارے کام لیتا تھا اور انہی کے ذریعہ سے احکام جاری ہوتے تھے۔ ان میں ایک خاص طبقہ جرادی کے نام سے موسوم تھا اور دوسرا حبشیوں کا طبقہ غرابی کے نام سے۔ امین کا شغف غلاموں کے ساتھ کسی خاص ملکی یا سیاسی مصلحت کی بناءپر نہ تھا بلکہ محض تفریح اور عیش و نشاط کے سلسلے میں تھا۔ مامون، معتصم اور واثق کے زمانہ میں خواجہ سراؤں کو کوئی اقتدار حاصل نہیں ہوا۔جب متوکل کے زمانہ میں اور اس کے بعد ترکوں یعنی ترک غلاموں کو عروج حاصل ہوا اور خلفاءکی موت و زیست ترکوں کے ہاتھ میں آ گئی تو خواجہ سراؤں اور غلاموں کے ساتھ خلفاءکی خصوصیت بڑھنے لگی کیونکہ قصر کے اندر انہی سے ہر وقت واسطہ رہتا تھا، اور انہی کی امداد کا انہیں سہارا تھا۔یہ لوگ اپنے آقا کے ساتھ بہت وفاداری کرتے تھے اور سیاسی اور ملکی مصالح سے کوئی واسطہ نہ رکھتے تھے۔ چنانچہ رفتہ رفتہ خلفاءکا یہ دستور ہو گیا کہ وہ غلاموں کی تعداد بڑھانے لگے اور انہی سے تمام معاملات میں مشورہ لینے لگے، اور رفتہ رفتہ ان کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انہی کو فوج کی سیادت اور صوبوں کی گورنری بھی ملنے لگی۔۔۔۔ان کا اقتدار رفتہ رفتہ اس قدر بڑھ گیا کہ خلیفہ کی ہستی بے کار ہو گئی۔ یہ جو چاہتے خلیفہ کو مجبور کر کے کرا لیتے ورنہ اسے مقید کر دیتے۔ (نیاز فتح پوری، تاریخ دولتین)آخرمسلم مصلحین نے امراءکے حرم اور خواجہ سرا پولیس کے اداروں کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کی؟دراصل مسلم مصلحین، علماءاور صوفیاءخلافت راشدہ کے بعد، حکمرانوں کی بدعنوانی اور ظلم کے باعث ان سے دوری اختیار کرتے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے ساتھ زیادہ تر وہی لوگ رہ گئے جو اگرچہ عالم کہلاتے تھے مگر درحقیقت مفاد پرست تھے۔ ایسے مخلص مصلحین جو حکومت کے نظام میں کسی نہ کسی درجے میں شریک ہو جایا کرتے تھے نے حکومتوں کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی۔ اسی طرح جو علماءحکومت سے دور تھے، انہوں نے بھی حکومتوں کی اصلاح کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنے کی کوشش کی۔ ان میں عمر بن عبدالعزیز، جاحظ، ابو یعلی الفرائ، ابو الحسن الماوردی، غزالی، ابن جوزی، عبدالرحمٰن بن نصر الشیرزی، ابن الاخوہ، حافظ ذہبی، ابن تیمیہ اور ابن قیم شامل ہیں۔ یہ کاوشیں انہی بڑے اہل علم تک محدود نہ رہی تھیں بلکہ مختلف درجے کے علماءکا ایک بہت بڑا طبقہ تھا جو اصلاحات کے لئے سرگرم عمل تھا۔ ان جلیل القدر اہل علم کی کاوشوں کے باوجود بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دور صحابہ کے بعد سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے سوا باقی حضرات کے ہاں غلامی کے مکمل خاتمے کا کوئی وژن موجود نہ تھا۔ ان کی کاوشوں کا محور و مرکز غلاموں کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلم دنیا میں غلاموں کی حالت باقی دنیا کے مقابلے میں بہت بہتر تھی اور ان پر کم از کم مسلم سلطنت کے علاقے میں ایسا ظلم بھی بالعموم نہ کیا جاتا تھا کہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں اس کے خلاف کوئی تحریک پیدا ہوتی۔

حقائق بتاتے ہیں کہ ماضی میںجب جنسی نقص کے ساتھ کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا جس کی جنسی ساخت میں شبہ ہو تو یاتو اس کے گھر والے اسے سرے سے قبول کرنے سے ہی انکار کر دیتے تھے یا پھر اس کے ساتھ ایک خاص قسم کا برتاو کیا جاتا جس میں وہ مسلسل ذہنی اور نفسیاتی ہیجان کا شکار رہتا ہے۔ مسلسل نظراندازی سے اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجاتی جس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتا اور رفتہ رفتہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کر لیتا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاموجودہ دور میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے؟ آخر لاکھوں کی تعداد میں یہ صنف کہاں سے وجود میں آرہی ہے جو اپنا گھر چھوڑ کر ان لوگوں میں جا کر رہنا پسند کرتی ہے جہاں اسی جیسے دنیا کے ’ستائے ہوئے لوگ‘ رہتے ہیں۔ بظاہریہ لوگ مل جل کر ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ممبئی کے ہیجڑے اگر ننھیال والے کہائے جاتے ہیں تو دہلی والے ددہیال شمار کئے جاتے ہیں۔صبح سے شام تک شہر کی سڑکوں پر تالیاں بجا بجا کر ایک خاص انداز میں لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالوانے کے مناظر عام طور پر پیش آتے ہیں لیکن معاشرے کے کسی شعبے کو تحقیق احوال کی فرصت نہیں۔حد تو یہ ہے کہ ان میںجو زیادہ پرکشش اور قدرے زیادہ نسوانی نظر آئے گا‘ اس کی ’مانگ‘ زیادہ ہوگی۔صرف یہی نہیں اس پیشے کو اپنانے کے بعد یہ ’بےچارے‘ اخلاق کی اس پستی تک بھی گر جانے سے گریز نہیں کرتا جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ماضی میں جس قوم نے بھی یہ کام کیا ‘اللہ کے عذاب نے اسے نیست و نابودہی نہیں کردیابلکہ آج وہاں بحر مردادر ہے۔جب مہذب معاشرے کے اچھے یا برے ہونے کی بات کی جاتی ہے تو وہاں کے بسنے والوں کے آپس میں میل جول اور مساوات کو دیکھا جاتا ہے کہ آیا وہاں کسی کی حق تلفی تو نہیں ہورہی اور عدل و انصاف کے ترازو میں تولا جائے تو سب برابر ہوں۔ خواجہ سراووں کی موجودہ حالت کے ذمہ دارکون ہیں؟ کم از کم اس مسئلے پر اتنا توکہا جاسکتاہے کہ ان لوگوں کے مسائل کوحل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کون ہے ’شرم کا مارا‘ جو ان کو کچرے میں پھینکتا ہے؟ حقارت اور ذلت کی نظر سے کون دیکھتا ہے؟ راہ چلتے ان پر فقرے کون کستا ہے؟ انہیں اسکول کالج کوئی کیوں نہیں بھیجا جاتا ؟ کوئی باعزت نوکری کیوں نہیں دی جاتی؟ بچوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ بھی ہم ہی جیسے انسا ن ہیں، ان کا بھی دل ہے اور یہ بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟جب تک خواجہ سراووں کے ساتھ معاشرے میں ایک عام انسان جیسا سلوک نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کو اس دلدل سے نکالناکیسے ممکن ہے؟
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116497 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More