کلام بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ

 شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۱)
فریدا ،، جے توں عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
اپنے گریوان میں سر نیواں کر ویکھ
منظوم ترجمہ،
فریدا،، جے توں ہو سیان کم نہ بھیڑے کر
اپنے اندر جھاتی پاءتے رب دے کولوں ڈر
اردو تشریح،
اس شعر میں بابا صاحب نے ایک بہت بڑے معاشرتی مسئلے پر روشنی ڈالی ہے آپ فرماتے ہیں کہ اے انسان، تجھے اللہ نے بہترین عقل دے کر پیدا فرمایا ہے اس لیے تیرا فرض ہے تو اسے استعمال کراور گناہ کے کاموں میں نہ پڑ تاکہ شکر گزار بنے اور اپنے آپ میں دھیان کر اور اپنے رب سے ڈرتا رہ تاکہ اپنے گناہوں کی طرف نگاہ پڑے تو تیرے اندر عاجزی پیدا ہو

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۲)
فریدا،، جن لوئن جگ موہیا سے لوئن میں ڈٹھ
کجل ریکھ نہ سیندھیاں سے پنکھی سوئے بٹھ
منظوم ترجمہ
فریدا ،، جن اکھیاں جگ موہ لیا کدھر گئیاں اوہ
کجل رڑک نہ سیندھیاں قبریں گئیاں سو
اردو تشریح
اس شعر میں بابا صاحب نے زندگی کے فانی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ یہ حسن و جمال عارضی ہے آپ نے فرمایا ، لوگ اپنی زندگیوں میں کیسے کیسے حسین ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے دیوانے ہو ہو جاتے ہیں اور وہ اتنے نفیس ہوتے ہیں کہ زرا سی تکلیف بھی ان سے برداشت نہیں ہوتی لیکن جب موت آتی ہے تو انہی نرم و نازک لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ پرندے ان کی قبروں پر بیٹ کر رہے ہیں اور وہ اتنے بے بس ہیں کہ کچھ کر نہیں سکتے اس لیے انسان کو چا ہیے کہ اپنے ابدی گھر یعنی قبر کو یاد رکھے تاکہ سیدھی راہ چل سکے

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۳)
فریدا،، خاک نہ نندیئے خاکو جیڈ نہ کوئ
جیوندیاں پیراں تھلے مویاں اوپر ہوئ
منظوم ترجمہ
فریدا،، مٹی بہت بھلی ایس جیہا نہ کوئی
جیون ویلے پیراں تھلے مویاں اوپر ہوئی
اردو تشریح
اس شعر میں بابا صاحب نے مٹی کی تعریف کی ہے اور اس کے احترام کی طرف توجہ دلائی ہے آپ نے فرمایا کہ مٹی کا احترام کرو اس لیے کہ یہ تمہیں زندگی کہ وقت زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے اور مرنے کہ بعد تمہیں اپنے اندر چھپا لیتی ہے یہاں تک کوئی گنہگار ہو یا نیک ہو کسی کا احوال باہر کہ لوگوں کو نہیں پہنچتا اسی لیے بابا صاحب نے مٹی کی تعظیم کی ہدائت کی کیو نکہ یہی مٹی ہے جس سے انسان کا خمیربھی ہے اور اسی میں ہم نے جانا ہے

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۴)
برہا برہا آکھیے برہا توں سلطان
فریدا،، جس تن برہا نہااپجے سوتن جان مسان
منظوم ترجمہ
جس تن اند ر روگ ہجر دا اوہو تن سلطان
فریدا،، جس اے دولت نیﺅں اوہ دل قبرستان
اردو تشریح
اس شعر میں بابا صاحب نے محبت میں ہجر کی کیفیات پر روشنی ڈالی ہے آپ فرماتے ہیں محبوب کی یاد کو ہر وقت اپنے دل میں رکھنا ہی بادشاہت ہے اور جس دل میں محبوب سے دوری کا درد ہے وہ ہی سلطان ہے لیکن جس دل میں یہ دولت نہیں وہ دل زندہ نہیں بلکہ قبرستان سے بھی برا ہے اس لیے ہر وقت محبوب کی یاد سے اپنے دلوں کو آباد رکھنا چاہیے

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۵)
اٹھ فریدا،، وضو ساج صبح نماز گزار
جو سر سائیں نہ نیویں سو سر کپ اتار
منظوم ترجمہ
اٹھ فریدا ،، وضو کر صبح نماز گزار
جو اس اگے نہ جھکے اوہ سر جا اتار
اردو تشریح
اس شعر میں بابا صاحب نے عبادت کی فضیلت کہ متعلق فرمایا ہے صبح کا وقت جو تمام اوقات کا سردار ہے اس وقت میں خدا کو پکارنا بڑی فضیلت کا باعث ہے اس لیے اس وقت کو ضائع نہ کرناچاہیے خدا کے برگزیدہ بندے اسی وقت اس کی حضوری میں حاضر ہو کر مراتب پا جاتے ہیںاور اس کے بعد بابا صاحب نے ان لوگوں کیلئے سخت نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ وہ سر جو اس کے حضور نہیں جھکتا اس کو تن سے اتار دوں

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۶)
بڈھا ہویا شیح فرید کنبن لگی دیہہ
جے سو ورھیا جیونا بھی تن ہوسی کھیہہ
منظوم ترجمہ
بڈھا ہویا شیخ فرید کنبن لگا بدن
جے سو ورھیاں وی جی لیے تد خاک ای ہونا تن
اردو تشریح
اس شعر میں بابا صاحب نے انسان کے بڑھاپے کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جب انسان بوڑھا ہو جائے تو اس کے بدن میں وہ جوانی جیسی طاقت ختم ہو جاتی ہے پھر وہ ایسا ہو جاتا ہے کے اس کا بدن ہر وقت کانپنے لگتا ہے ایسے جیسے رعشہ کے مریض کا بدن کانپتا ہے یہاں بابا جی ایک بڑی بات فرماتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ سدا جوان ہی رہے گا لیکن ایسا ہوتا نہیں بابا جی فرماتے ہیں کہ سو برس بھی یا اس سے بھی زیادہ جی لیا جائے تو موت پھر بھی آ جائے گی کیونکہ اس کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا اس لیئے ہر وقت خدا کو یاد رکھ کے اپنے روزمرہ کے کاموں کو سر انجام دینا چاہیئے تاکہ عاجزی پیدہ ہو

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۷)
فریدا ،، میں جانیادکھ مجھ کودکھ سبھا ایہہ جگ
اچے چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ
منظوم ترجمہ
فریدا،، کلا میں نہ دکھی دکھی سب سنسار
اچا ہو کے ویکھیاتاں گھر گھر ایہو وار
اردو تشریح
بابا صاحب فرماتے ہیں اس دنیامیں ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ دکھی ہے یہ چیز نا شکری کی طرف لیجاتی ہے اس لیے بابا جی نے اپنی مثال دے کے سمجھایا ہے کہ انسان کو صرف اپنی طرف ہی نہیں دوسروں کی طرف بھی دھیان کرنا چاہیے کی وہ کتنے دکھی ہیں اس سے ایک تو دوسروں کے دکھوں کو سمجھنے کا موقع ملے گا دوسرا اللہ کا شکرگزار بندہ بننے میں بھی آسانی ہو گی

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۸)
فریدا،، رت پھری ون کنبیاپت جھڑیں جھڑپائیں
چارے کنڈاں ڈھونڈیاں رہن کتھاون ناہیں
منظوم ترجمہ
فریدا،، ویلے پھر گئے آئی رت خزاں
چارے پاسے ویکھیا رہن نوں کتے نا ں تھاں
اردو تشریح
بابا صاحب فرماتے ہیں جب انسان بڑھاپے کی طرف جاتا ہے تو ہر چیز میں سے ذائقہ ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بہار گئی اور خزاں آ گئی یعنی وقت پھر گیا اب زندگی میں وہ چیزیں باقی نہیں رہیں جو کبھی لطف کا باعث تھیں اب تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ چاروں طرف دیکھنے پر بھی رہنے کو کوئی جگہ نظر نہیں آتی یعنی کوچ کا وقت آ گیا اب دنیا چھوڑ دینا ٹھہر گیا

شعر بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ (۹)
فریدا،، ہاتھی سوہن انباریاںپچھے کٹک ہزار
جاں سر آوے اپنے تاںکو میت نہ پار
منظوم ترجمہ
فریدا،، بھاویں میر کبیر فوجاں ہون ہزار
جد مصیبت آپوے کوئی نہ پچھدا سار
اردو تشریح
بابا صاحب فرماتے ہیں اس دنیا میں اگر کسی کے بہت سا مال ہے یا وہ بہت فوج وغیرہ رکھتا ہے تو اسے اس پہ نازاں نہیں ہونا چاہیے بلکہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس دنیا کا اصول ہے کہ جب مصیبت آ جائے تو یہ کسی کہ قریب نہیں آتی چاہے کوئی اپنے وقت کا کیسا بھی صاحب اقتدار ہو یہ دنیا ہر ایک سے یہی سلوک کرتی آئی ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ ہر حال میں اپنے مالک کا شکر گزار رہے تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو
Hafiz Zaheer Ahmed
About the Author: Hafiz Zaheer AhmedI am a young and soft attitude muslim.. View More