امریکی مسئلہ کا واحداصل حل

ڈرون حملوں کی تو باقاعدہ اجازت سابق فوجی آمر مشرف اور موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت نے دے ہی رکھی ہے اور شمسی ائیر بیس بھی سامراج کے حوالے کر رکھا ہے کہ اب اس میں ذرا برابر بھی شک نہ ہے ایسا کیوں کیا گیا اور پاکستان کی کیا مجبوریاں ہیں یہ راز کبھی پریس اور میڈیا نے افشاءنہیں کیا حالانکہ یہ تو ایسی تحریر ہے جو کہ صاف سامنے دیوار پر لکھی ہوئی پڑھی جا سکتی ہے اس بات پر کوئی دو رائے نہ ہیں کہ جس کا کھاﺅ گے اسی کا گن گاﺅ گے ۔ جب سامراجی ممالک ، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک و دیگر یہود و نصاریٰ کے کنٹرولڈ اداروں سے ہم قرض لینے کے لئے بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلاتے ہیں گھٹنے ٹیکتے ہیں ۔تو وہ اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے اور اپنی مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد اتنا ہی دیتے ہیں جس سے ہم صرف زندہ رہنے کے لئے ہی کھا پی سکیں ۔ جس طرح سے جا گیر داراپنے نوکروں کو کبھی دو روٹی سے زائد نہیں دیتے کہ وہ کہیں طاقت ور ہو کر ان کے منہ نہ آن لگیں اسی طرح ان نوکروں یا ان کے بچوں کو کبھی تعلیم کے لئے سکولوں میں نہیں بھیجنے دیا جاتا تاکہ کہیں پڑھ لکھ کر ہمارے ہی سامنے نہ آن کھڑے ہوں بلکہ اصل جاگیر دار تو اپنے علاقوں میں سکول تک نہیں بننے دیتے اسی طرح امریکہ ہو یا کوئی دوسرا سامراجی ملک وہ کب اتنی رقوم خواہ وہ سودی قرض کی ہی غلیظ صورت میں کیوں نہ ہو دے سکتا ہے کہ ہم اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں یہ تو پاکستانی سائنس دانوں کی محنت شاقہ ہی تھی جنہوں نے ہمیں ایٹمی پاکستان بنا ڈالا اور سامراج ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا مگر چونکہ ہم قرضوں کے تلے د ن بدن دبے چلے جاتے ہیں اس لئے ان کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کر پا رہے کہ اس طرح سے ہمارے سامراجی آقا ناراض ہو سکتے ہیں اور ہم بھکاریوں کو قرض دینا بند کر سکتے ہیں جس سے ہمارے اللے تللوں کے لئے رقوم دستیاب نہ ہو سکیں گی۔ڈرون حملے اسی طرح ہیں جیسے جاگیردار جب نوکروں کو قرضوں کے نیچے دبا لیتا ہے تو پھر وہ ان کے تمام بچوں حتی کہ سارے خاندان سے کام کرواتا ہے اور غلام خاندان کا سربراہ چوں بھی نہیں کر سکتا حتی کہ نوجوان بچیاں بھی انہی کی طرح ہر قسم کی خدمت اور "ہمہ قسم حکم "بجا لانے ٹانگیں اور پیر دبانے پر مجبور ہوتی ہیں اور مزارع ابو جان کسی قسم کا انکار نہیں کر سکتے ۔اگر کوئی ملازم کسی ناجائز مشقت سے انکار کر بیٹھتا ہے ۔تو جاگیر دار حکم دیتا ہے کہ اتنے سال میں تمہیں اتنا قرضہ دیا ہے وہ ابھی نکالو اور ہمارے احاطے سے نکل کر بھاگ جاﺅ نہ وہ غریب رقم ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی کمر پر پورا بھار اٹھا سکتا ہے تو اسی طرح سسک کر مرتا رہتا ہے اور ساری زندگی ہمہ قسم کی غلامی میں گزارنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ ہمارے پیارے ملک کا بھی 65سالوں سے یہی حال ہے وہ فوجی امروں کا دور ہو یا نام نہاد جمہوری چیمپینوں کا غلیظ قرضوں کی سود در سود رقوم بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور حکمرانوں ، وزیروں ، سفیروں اور بیوروکریٹوں کی عیاشیوں کی نظر ہوتی جا رہی ہیں اب سامراجی "مالک "جو بھی رویہ اختیار کرتا رہے ہم سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ امریکی جنگ ہم کرایہ کے قاتلوں کی طرح لڑ رہے ہیں ۔فوجی شہید ہو رہے ہیں سرحدی بارڈر کی تمام ایجنسیوں میں مہلک اسلحہ کی آگ برس رہی ہے اور ہمارے حکمران بمعہ افواج کے ٹک ٹک دیدم بنے ہوئے ہیں اور اف تک بھی نہیں کرسکتے دوسری طرف اسلامی ممالک ہیں کہ ہر سال دو سال بعد ایک ملک کو سامراج ہڑپ کر رہا ہے وہ کسی نہ کسی بہانہ سے قبضہ کر لیتا ہے افغانستان عراق مصر اور لیبیا حتی کہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی سامراجی بھیڑئے ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں اب اسلامی ممالک کے عوام بالخصوص اور سربراہوں کی با لعموم سوچ میں یکسانیت پیدا ہو چکی ہے کہ سامراج کا مقابلہ صرف آپس کے اسلامی اتحاد سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اوراس کا صرف اور صرف حل یہ ہے کہ ایٹمی پاکستان کو اپنا رہنما تسلیم کیا جائے کہ اس کی افواج دنیا کی چھٹی بڑی منظم تنظیم ہیں ۔ مگر پاکستان تو اس وقت سامراجیوں کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا نظر آتا ہے اور گیڈر اور چوہے سے بھی زیادہ ڈرا ہوا ڈرپوک محسوس ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ذرا سر اٹھا یا تو قرضے بند ہو جائیں گے ۔ اب یہ بات طے ہے کہ سارا مسئلہ "سرمایہ "کا ہے اسلامک ورلڈ نے اب طے ہی کر لیا ہے کہ پاکستان کے تمام قرضے اس کو قرض حسنہ دے کر اتار دئے جائیں اور پھر پاکستان کو ان سامراجی ملکوں اور ان کی تنظیموں سے سودی قرض لینے سے مکمل منع کر دیا جائے اور پاکستان کے تمام مسائل بمعہ غربت و بے روز گاری کا حل بذریعہ قرض حسنہ کیا جائے۔ اللہ اکبر تحریک جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 15جون2011کو بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ کر لیا تھا اس مسئلہ کو احسن طریقہ سے حل کرنے کی دعوے دار ہے عالم اسلام سے قرض حسنہ حاصل کر کے ملک کے قرضے اتارنے اور جہاں جہاں اس کے ممبر منتخب ہوں گے وہاں عالم اسلام سے امداد حاصل کر کے تمام مسائل کا حل ڈھونڈے گی اور بجلی ، گیس ، ہر سطح کی تعلیم ہمہ قسم علاج اورصاف پانی دیہاتوں اور گو ٹھوں تک بذریعہ سبسڈی مفت مہیا کرے گی اور بے روز گاروں کو قرض حسنہ بلا سود دے کر انہیں اپنے پاﺅںپر کھڑا کرے گی اور ہر ملازم و مزدور تک کو ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر ماہانہ تنخواہ ادا کرے گی کہ کم از کم گزارہ الاﺅنس یہی ہے کھانے پینے کی تمام چیزیں 1/5قیمت پر مہیا ہوں گی سی این جی اور تمام ٹرانسپورٹ کے تیل 1/3قیمت پر ملیں گے اور بار برداری اور سفر کا کرایہ 1/3رہ جائے گا ۔اللہ اکبر تحریک دو ہی سال میں تمام مسائل کوحل کرے گی اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کر کے عالم اسلام کو رہنمائی دے گی اور ٹاسک فورس کے ذریعے تمام سونا چاندی تانبا کوئلہ تیل نکال کر بین الاقوامی مارکیٹ میں بیچ کر ملک کو مکمل خوش حال کرے گی اور عالم اسلام کے تمام قرض حسنہ ایک ہزار دنوں کے اندر اندر ادا کر ڈالے گی اور غربت و نا انصافی جیسے مسائل کا خاتمہ کرے گی ۔ تمام موجودہ سیاسی جماعتیں بالکل اس کی اہل نہ ہیں کہ ان کے جسموں پر کرپشن کی غلاظتیںکچھ اس طرح سے چمٹ گئی ہیںکہ وہ دریا کے اشنان سے بھی نہیں دھل سکتیں ۔نئے دعویدار خان صاحب جو ٹیکسوں کی بھرمار کرنا چاہتے ہیں تو لا محالہ ہر چیز مہنگی ہوکر عوام کا مہنگائی کے پہاڑ تلے کچومر نکال ڈالے گی ۔مزدور اور بے روز گار افراد جن کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں گھروں میں ہمہ قسم بیماریوں نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے تو پھر یہ لوگ جیب تراشی ، موبائل اور موٹر سائیکل نہ چھینیں تو کیا کریں ؟ہمارے سنہری دور خلافت راشدہ میں بھی تو حضرت عمر فاروقؒ نے قحط پڑنے پر چوری کی اسلامی سزا ہاتھ کاٹنے کو معطل کر دیا تھا کہ مثلاً ایک زمیندار کے پاس غلہ کی پانچ ہزار بوریاں موجود ہوں اور ہزاروں افراد پر مشتمل پورے قصبے ، چک یا گوٹھ والے دانے دانے سے محروم ہوںتو پھر لوگ کیا کریں گے یا تو ذخیرہ اندوز کی منت سماجت کر کے یا پھر چوری سینہ زوری اور ڈکیتی کے ذریع غلہ حاصل کریں گے۔اب ہزاروں کی آبادی کا ہاتھ تو نہیں کاٹا جا سکتا اس لئے مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ لوگوں کو خوش حال کیا جائے چونکہ صرف عالم اسلام جو کہ تیل کی دولت سے مالامال ہے اور ان کا سرمایہ کھربوں ڈالروں کی صورت میں سوئٹزر لینڈو دیگر بیرونی بینکوں میں جمع ہے پاکستان کو قرض حسنہ دے کر اسے مکمل فلاحی مملکت بنا ڈالے، پھر مشترکہ فوج کے ذریعے دفاع مضبوط کرے مشترکہ کرنسی اور مشترکہ کاروبار ہو۔ مگر عالم اسلام ان نام نہاد بڑی چھوٹی دعویدار پارٹیوں کو سرمایہ کبھی نہ دے گا کہ یہ تو اب بین الاقوامی ٹھگوں کا روپ دھار چکے ہیں اور اپنے ہی پیٹوں اور موٹی موٹی توندوں کو بھرنے سے باز نہیں رہ سکتے ۔ اس کے علاوہ بھی ایک حل ہے کہ عوام خود اٹھیں گے اور خونی انقلاب کے ذریعے ان زرداروں سرمایہ پرستوں ، جاگیرداروں اور نام نہاد سیاسی رہنماﺅں کے گلوں میں نوکیلے لوہے کے رسے ڈال کر کھینچتے ہوئے چوکوں پر لے جا کر الٹا ٹانگ دیں گے اور لاشوں کو وہیں لٹکتا رہنے دیں گے تاکہ کوے چیلیں اور گدھ ان کا بد بو دار گوشت نوچ نوچ کر کھا جائیں کہ پاکستان جو کہ لاالہ الا اللہ کے پاک نعرے پر بنا تھا شاید ان حرام سے پلی ہوئی لاشوں کو اپنے اندر دفن کئے جانے سے انکار کر دے جیسا کہ حال ہی میں شہنشاہ ایران کے ساتھ ہو چکا ہے ۔ پاکستان کو "تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبھیڑ تو "کے مصداق اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائے اور ادھر ادھر جو ٹانگیںخامخواہ پھنسا رکھی ہیں ان کو سمیٹے امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات رکھے غیرت مند اور بہادر قبائلیوں سے اپنے پرانے تعلقات مضبوط بنائے تاکہ سابقہ ادوار کی طرح اس کا مغربی بارڈر تو محفوظ ہو سکے اور سامراج وہندو بنیا ان کی طرف ٹیٹرھی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
Dr Mian Ahsan Bari
About the Author: Dr Mian Ahsan Bari Read More Articles by Dr Mian Ahsan Bari: 22 Articles with 16224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.