پتنگ اڑانے، کاٹنے اور لوٹنے کا صحیح طریقہ

ویسے تو پتنگ بازی کا موسم، موسمِ بہار سے شروع ہوتا ہے ۔تاہم پورے سال بھی ملک بھر میں پتنگ بازی جا ری رہتی ہے۔ویسے آجکل ملک میں سیاسی پتنگ بازی کا سیزن عروج پر ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے مابین بھی بو کاٹا اور پتنگ کی کاٹ ماری اور لوٹ کھسوٹ جاری ہے، دیکھیے کہ کس کا مانجھا کس کی ڈور کاٹتا ہے۔ کچھ لوگوں کی پتنگ تو بڑے بڑے پیر صاحبان اڑا رہے ہیں اور نہ کٹنے کے لیے باقاعدہ چلے کاٹے جارہے ہیں، بکرے دیے جارہے ہیں، جبکہ کچھ بیچارے اصلی پری کے کچے دھاگے سے پتنگ اڑا رہے ہیں جس کا اڑنا اور پیچ لڑانا تو دور کی بات کہ وہ اڑ ہی نہیں پاتی ۔ کچھ لوگوں کی پتنگ کو دیارِ غیر سے کنی اور ٹھگی ملتی ہے ۔ انکے مانجھے اور ڈور میں شریش ، دھاگہ اور سیسہ بھی غیر ملکی ملا ہوتا ہے۔ یوں انکی پتنگ بجائے کٹنے کے صرف کاٹتی ہی رہتی ہے ۔ کچھ لوگ پتنگ اڑاکر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ انکی پتنگ کون اڑا رہا ہے۔ ؟؟کچھ لوگ اکیلے پتنگ اڑاتے ڈرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ مل کر پتنگ بازی کرتے اور روٹی شوٹی کھاتے ہیں۔ ایک صاحب بڑے ذوق و شوق سے سیاست میں اصول پرستی کی پتنگ لیکر آئے، ہر کوئی انکی پتنگ کاٹتا رہا ا ور وہ اکیلے رو گئے۔ آ خر کار اب وہ بچی کھچی ڈور کی گرڑی ہاتھ میں لیے اپنے پرانے رفقاﺅں کے ساتھ پتنگ بازی کی تیاری میں مصروف ہیں۔آجکل ہمارے کچھ بڑے صاحبان ایک سالوں پرانی کٹی پتنگ کو زبردستی ناجائز پیچے قرار دلوانے کے لیے عدلیہ پر دباﺅ ڈال رہے ہیں، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔جبکہ کچھ صاحبان اقتدار کی پتنگ کچھ عرصہ سانجھے میں اڑاکر، ناراض سے ہو کر آجکل چھٹیوں پر ہیں۔

پتنگ بازی کی تاریخ بڑی پرانی ہے اور اسکا ذکر خیر ہمیں ولندیزیوں، چینیوں، ہندوستانیوں، پرتگالیوں اور دنیا کی اور بہت سی اقوام کی تواریخ میں ملتا ہے۔ ویسے تو ہر بندے کی زندگی ہی ایک کٹی پتنگ کی مانند ہے کہ ایک روز اس پتنگ کے کسی سے پیچ لڑتے ہیں (عورت) ، کبھی بندہ اپنی پتنگ کٹواتا ہے (عورت کی سنتا ہے) تو کبھی دوسرے کی کاٹ دیتا ہے (عورت کو جھاڑ دیتا ہے) ، اور یوں کٹنے پھٹنے میں اور پیچے لڑنے میں (لڑائی جھگڑے) یہ پتنگ (زندگی) کسی کے ہاتھوں لٹ پِٹ کر، کرچی کرچی ہو کر ایک دن یونہی ختم ہو جاتی ہے۔ (عورت کے ہاتھوں)۔افغانستان کے ایک صحافی نے بھی ایک کتاب پتنگ باز سجناں کے نام سے لکھی تھی لیکن ہمیں شاید اسمیں کہیں پتنگ کا ذکر تواتر سے نہیں ملا؟؟ تا ہم ہمارا یہ آ رٹیکل آپکو پتنگ پتنگ کے ذکر سے لبریز ملیگا۔

ہماری پرانے زمانے کی فلموں میں بھی پتنگوں کے بہت سے سین پائے جاتے ہیں ۔ جب کالے بالوں میں سرسوں کا تیل چپڑے ، آنکھ میں سرما لگائے محبوب اپنی سانولی سلونی ، اونچی قمیض پہنے ، کاجل کے ڈورے آنکھوں میں کھینچے، آنکھیں مٹکاتی اپنی محبوبہ کو نامہ بر اپنے لال خون سے لکھ کر پہنچانے کے لیے نامہ بر پتنگ کی لنگر میں باندھ کر پتنگ محبوبہ کے گھر کی چھت پر ڈھا کر ساتھ میں سیٹی بجاکر اطلاع بھی کر دیتا تھا۔ جواب میں محبوبہ اپنی چوٹی کو پتنگ کی لنگر بنا کر ، اپنا خط چھپا کر ، گھر والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر واپس ٹھگی یا کنی دیکر پتنگ کو اڑادیتی تھی۔ یوں منٹوں میں خطوط کا تباد لہ بذریعہ پتنگ ہو جاتا تھا۔ یا پھر کوئی محبوب پتنگ کی ڈور محبوبہ کے پاﺅں میں الجھا کر پہلے اسے گرا کر، پھر اٹھا کر ہیرو یا زیرو بننے کی کوشش میں رہتا تھا۔تا ہم اکثر لوگ سرِ بازار تماشہ ہی دیکھتے تھے۔ (ٹھکائی کی صورت میں)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتنگ کی شکلیں بھی ایڈوانس ہو گئی ہیں۔ چوکور کے ساتھ ساتھ اب پتنگیں کئی قسم کی شکل اور سائز میں دستیاب ہیں۔ اب انکے اڑانے والے انہیں مختلف ناموں سے اڑاتے ہیں۔ مثلا: مادھوری پتنگ کے پیچے سلمان خان کے ساتھ، ایشوریا پتنگ کے پیچے عامر خان یا ابھیشک کے ساتھ، (ابیھشک کے ساتھ پیچے کا رزلٹ تو آ بھی چکا)، ریما پتنگ کے پیچے شان یا سعود کے ساتھ (اب تو بیچاری امریکی ڈاکٹر سے پیچا لڑا کر اس کی ہوچکی) وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ پتنگ بازی اتنی ایڈوانس ہو گئی ہے کہ لوگ پتنگ پارٹیوں کے باقاعدہ کارڈ چھپواکر، کھانا شانا ، ڈانس گانا کر ا کر، بڑے بڑے لوگوں کو بلا کر، پیلے سوٹ پا کر ڈے اینڈ نائٹ پتنگ پارٹی کا اہتمام کر تے ہیں۔ ایک طرف پتنگ کے پیچے چل رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف اکھ مٹکے چل رہے ہوتے ہیں۔ جونہی کوئی پتنگ کٹتی ہے سب ترنگ میں آکر ایک دوسرے پر جھولے کی طرح جھول جاتے ہیں، اور رات کے آخری پہر تو ایک دوسرے کا ہوش ہی نہیں رہتا کہ پتنگ کٹی کہ ناک کٹی۔

پتنگوں کے موسم میں ہر بندہ پتنگ بازی میں ایسا مصروف نظر آتا ہے کہ دوسر ے ہر کھیل کود اور کام سے بیگانہ سا ہوجاتا ہے ۔ بڑوں کے ساتھ ساتھ اسکول کے بچے بھی ، پتنگ اڑانی آئے یا نہ آئے، پتنگیں کاٹنے میں ایسے مگن ہوتے ہیں کہ ہوم ورک بھی بھول جاتے ہیں اور پھر اسکول میں انہیں بوکاٹا کے ساتھ کاٹا بٹا کاٹا ملتا ہے۔پتنگیں اڑاتے ہوئے ماں باپ کے بار ہا بلانے پر انکا بس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ بس ایک پتنگ اور کاٹ لوں ، وہ لال پری، ابھی آیا۔ بلکہ کسی بچے سے پتنگ نہ اڑے تو ماں سے شکا یت کر دیتا ہے کہ گھر کی چھت بہت چھوٹی ہے، بڑا گھر لیں،تا کہ پتنگ آسانی سے اڑائی جا سکے۔ یعنی ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ بلکہ ایک بار تو غصے میں ایک بچے نے ماں سے یہ بھی کہ دیا کہ ہم پتنگ اڑائیں، کبوتر اڑائیں، مکھیاں اڑائیں، افواہیں اڑائیں، پیچے لڑائیں آپ ہمیں نہ روکا کریں ۔ ماں نے لاکھ سمجھایا کہ بیٹا ہم نے بھی پیچے لڑائے تھے اور آج تک بھگت رہے ہیں، ان جوانی کے پیچوں کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے۔ مگر وہ کیا کہ جوانی میں یہ سب باتیں کم کم سمجھ میں آتی ہیں۔ لہذا بچے بڑے سب پتنگیں لوٹنے اور کاٹنے میں عبادت کی طرح مصروف نظر آتے ہیں۔

پتنگ بازی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ چھت پر چڑھکر پتنگ اڑانے کے دوران تانک جھانک سے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ پڑوسیوں کے ہاں کیا پک رہا ہے ؟؟ اگر گھر کی مرغی دال برابر، یعنی اپنا سالن پسند نہ آئے تو برابر والوں کے ہاں سے بھی کچھ نہ کچھ منگا کر ڈکارا جا سکتا ہے ۔ پتنگ لوٹتے ہوئے کسی غیر متعلقہ شخص سے ٹکر ہو جانا یا کر لینا بھی معمول کی بات ہے۔ تاہم اس ٹکر کا انجا م کھوپڑی پر جوتے کے صورت میں نکلے یا مسکراہٹ کی صور ت میں (کبھی کبھار) ، یہ آپکی قسمت پر منحصر ہوتا ہے۔ ویسے زیادہ تر انجام ناقابلِ بیان ہی ہوتا ہے۔اسی طرح جھانویں سے پتنگ لوٹنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کو اس کام میں خاص مہارت حاصل ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ پتنگ پانچ روپے کہ ہوتی ہے، اصل شوق اس کو لوٹنے اور جمع کرنے کا ہوتا ہے، جو زیادہ پتنگیں جمع کرے وہ پتنگ پہلوان کہلاتا ہے۔پتنگ کو بیری اور جامن کے درخت میں الجھا کر پھر کھینچ کھینچ کر بہت سے سیانے بیر اور جامن گرا گرا کر خود بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔

اس پتنگ کو گڈا اور گڈی کے نام سے بھی یا د کیا جاتا ہے۔ چھوٹی پتنگ کو گڈی اور بہت بڑی سی پتنگ کو گڈا کہا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سی لڑکیوں کے نام گڈی اور لڑکوں کا نام گڈا یا گڈو بھی ہوتا ہے ۔ ایک صاحب غلط فہمی میں ما ر کھا گئے کہ انہوں نے گڈی کے ابا کے سامنے کہہ دیا کہ میں نے گڈی کاٹ دی، گڈی کے ابا ڈنڈا لیکر پیچھے دوڑ پڑے۔ ا سی طرح ایک اور غلط فہمی میں ایک صاحب گڈے کے ابا کے سامنے کہ بیٹھے کہ میں نے آج ایک گڈا کاٹا ہے، ابا نے سمجھا بیٹے کو کاٹ دیا، پھڈا شروع، پھر لوگوں نے سمجھا بجھا کر دونوں کو ٹھنڈا کیا۔

ایک صاحب کو پتنگوں پر مختلف جملے لکھنے اور پتنگیں کٹوانے کی عادت تھی: مثلا: ایک پتنگ پر انہوں نے لکھا کہ : لوٹنے والے تیرا ککھ نہ روے ۔ دوسری پر لکھا: شرم نہیں آتی اتنے بڑے ہو کر پتنگیں لوٹتے ہو۔ تیسری پر لکھا: ہمیشہ لوٹ کر اڑاتے ہو، کبھی پیسے بھی خرچ کر لیا کرو۔ چوتھی پر لکھا: لگتا ہے آپکو مفتے کی عادت پڑگئی ہے اسی طرح ایک پتنگ پر لکھ دیا کہ جو اس پتنگ کو لوٹے اسکی بیوی گونگی ہو جاوے یا مر جاوے ، سارا دن شادی شدہ لوگ اس پتنگ کو کاٹ کاٹ کر بار بار لوٹتے اور چومتے چاٹتے رہے۔ایک بار لکھ دیا کہ انعامی نمبر کے لیے فلاں نمبر پر رابطہ قائم کریں اور نمبر محبوبہ کے ابا کا لکھ دیا، اسکے بعد آپ خود سمجھدار ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ایک صاحب کو صرف پتنگ کی ڈور لوٹنے کی عادت تھی، لوگ پتنگ لوٹ رہے ہوتے تھے اور وہ ڈور لپیٹ رہے ہوتے تھے اور اسکی و جہ یہ بتاتے تھے کہ یہ ڈور بیگم کی رضائیوں میں ڈورے ڈالنے اور منے کی بچھونیاں سینے میں کام آتے ہیں۔ اور کبھی کبھا یہ ڈور وہ موچی کو جوتے سینے کے لیے بھی بیچ دیتے تھے۔ ایک صاحب نے واہگہ بارڈر کے نزدیک ایک پتنگ پر لکھا کہ : ست سری اکال، آ پ سب کے سر میں جویں ہیں: اور پتنگ انڈین پنچاب کی طرف چھوڑدی۔ پتنگ ایک سردار جی کے ہاتھ لگ گئی ۔ پھر کیا تھا جناب کہ گاﺅں کا ہر سردار جی اپنی پگ کھول کر کھول کر اپنی جورو سے جویں نکلوا رہا تھا۔

اسی طرح مختلف کمپنیاں اپنی مشہوری کے لیے مختلف پیغامات کی پتنگیں تقسیم کر تی ہیں اور آسمان پر اڑتی مختلف پتنگیں آگے پیچھے ہونے سے پیغام کچھ اسطرح گڈ مڈ ہو جاتا ہے کہ: سیل ۔ سیل۔ سیل۔لوٹ سیل۔ عر صہ پچاس سال سے آپکا اپنا با اعتماد ادارہ پیش کرتا ہے، خواتین کی اعلیٰ ورائٹی، مضرِ صحت اجزا سے پاک، خالص امپورٹیڈ مٹیریل سے تیار شدہ، خراب نہ ہونے کی پانچ سالہ گارنٹی، مختلف کلر اور ڈیزائن کی وسیع رینج ، ارزاں نرخوں پر ِ ، ایک کی قیمت میں دو ، حاضر اسٹاک فری ہوم ڈیلیوری کے ساتھ، پانچ سال کی گارنٹی میں دستیاب ہیں۔ یہ آفر صرف آج اور کل پتنگیں اڑانے والوں کے لیے ہے۔ اپنے آرڈر کی تیز ترین بکنگ ، مزید معلومات اور ہوم ڈیلیوری کے لیے فورا فری رابطہ قائم کریں ۔ ہمار وعدہ منافع کم سیل زیادہ۔

چھت پر پتنگ بازی کرتے ہوئے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑ تا ہے ، مثلا آپ کی نگاہ کسی غیر محرم پر نہ پڑے اگر پڑے بھی تو انکے بڑوں سے بچ بچا کر ، ورنہ ہمسایے سے پھڈا بھی ہو سکتا ہے۔ پتنگ اڑاتے اڑاتے آپ چھت کے کنارے پر پہنچ کر جان بوجھ کر اپنے آپ کو سلپ کر کے نیچے گرا کر اپنی ، ہمسایوں یا گھر والوں کی ٹانگ یا بازو بھی تڑا سکتے ہیں۔جسکے نتیجہ میں بستر سے آپکا رشتہ کچھ عرصے کے لیے لمبا بھی ہو سکتا ہے ۔اسکے علاوہ خیا ل رہے کہ پیچے صرف پتنگوں کے لڑیں آنکھوں کے پیچے ہمیشہ نقصاندہ ثا بت ہوئے ہیں۔اسکے علاوہ پتنگ کی ڈور سے مخالفین کو قتل کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔

ویسے یار اگر چہ پتنگ بازی تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ہے، مگر جسطرح اس پتنگ بازی کے غلط استعمال سے آجکل لوگوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں، بہتر یہی ہے پتنگ اڑانے، کاٹنے اور لوٹنے کی بجائے بندہ اپنی تفریح کا کوئی اور ذریعہ تلاش کر لے!!کیاخیال ہے آپکا؟؟
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234440 views self motivated, self made persons.. View More