روحانی باپ

تعلیمی ادارے کسی بھی معا شرے میں انسان کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت ہی اہم ہوتے ہیں اور یہی تعلیمی ادارے انسان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے معاشرے میں جائز مقام دلانے میں اپنا بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے جو بچوں کو تعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی معاشرتی و اخلاقی تر بیت بھی کرتے ہیں تا کہ وہ مستقبل میں معاشرے کا ایک اچھا فرد ثابت ہو سکیں۔ شاید اسی لئے اسلام نے اساتذہ کو روحانی باپ اور آقا کا درجہ دیا ہے۔

مگر جب اساتذہ اپنی فرائض میں ذرا سے غفلت کا مظاہرہ کر تے ہیں تو بچے تعلیم کی طرف مائل ہونے کے بجائے باغی بن جاتے ہیں اور تعلیم کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے خیرباد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایف جی بوائز ہائی سکول علی آباد ہنزہ میںجماعت ہفتم میں زیر تعلیم طالب علم مہتاب عالم وولد نیک عالم پر استاد سلطان کے وحشیانہ تشدد کے بعد طالب علم کو سکول سے فارغ کرنے کی خبر اخبارات کی زینت بنی اس واقعہ کی اصل وجہ در اصل یہ تھی کہ ڈائریکٹر ایجوکیشن راجہ ناصر کے ہنزہ نگر کے اسکولوں کے دورے کے دوران جب علی آباد بوائز ہائی سکول کے طالب علم مہتاب سے آزمائش کے طور پر اردو ریڈنگ(reading) کرنے کو کہا گیا تو طالب علم نے صاف کہہ دیا کہ اسے اردو پڑھنا ہی نہیں آتا ہے جس کے بعد ڈائریکڑ ایجوکیشن نے سکول کے اساتذہ کو بچوں کی تعلیم و تربیت پر سخت توجہ دینے پر زور دیا تھا۔

جس کے بعد استاد سلطان نے اسی بے عزتی کا بدلہ طالب علم مہتاب سے وحشیانہ تشدد کے ذریعے لیا۔ اس واقعہ کے بعد طالب علم مہتاب کے پانچ چچا زاد بھائیوں نے بھی اسی استاد کے خوف سے سکول جانا ہی چھوڑ دیا تھا جو کہ تشویش ناک صورت حال ہے۔

یقینا یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے اور یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا سکول میں ہونے والی تشدد کے حوالے سے طالب علم کے ذہن پر اثر انداز ہونے والی منفی اثرات ختم ہونگی؟ اور کیا وہ طالب علم مستقبل میں سکول اور تعلیم کے نظا م کے حوالے سے ذہن میں ایک اچھا تاثر رکھے گا؟یقینا کبھی نہیں کیونکہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے اور اس پر جو بھی سبط کیا جائے تا حیات وہی تحریر باقی رہتی ہے۔ اگر اساتذہ بچوں کے ذہنوں پر مثبت اثرات ڈالیں گے تو یقینا وہ مستقبل میں معاشرے کا ایک اچھا فرد ثابت ہونگے اور اگر اساتذہ بچوں کے ذہنوں پر تشدد اور منفی اثرات ڈالیں گے تو یقینا وہ مستقبل میں تشدد اور معاشرے کی منفی رویوں کی طرف راغب ہونگے اور مستقبل میں معاشرے کیلیے ایک ناسور بن کر ابھریں گے۔

پاکستان کی شرح خواندگی57%ہے اور اسی طرح گلگت بلتستان کی شرح خواندگی37.85%ہے۔ گلگت بلتستان میں شرح خواندگی میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سکولوں میں اساتذہ بچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور کسی محنت مزدوری میں لگ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں بچوں پر وحشیانہ تشدد کو روکنے کیلئے حکومت پاکستان نے"مار نہیں پیار"کے نام سے ایک مہم بھی شروع کی تھی جو صرف کاغذوں کی حد تک ہی نذر ہوگئی اور اب بھی سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں بچوں پر اساتذہ کی تشدد کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ کی تقرریوں میں میرٹ کی پامالی ہے۔ جس کی وجہ سے اس مقدس پیشے میں ایسے افراد بھی گھس جاتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے ایک روحانی باپ کہلانے کے اہل نہیں ہوتے ہیں اور یہی میرٹ کو پامال کر کے بھرتی ہونےوالے اساتذہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی پریشانیوںکا ازالہ بھی بچوں پر تشدد کے ذریعے کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے تعلیمی ادارے بچوں کیلئے ایک ایسا تعلیمی و اخلاقی ماحول مہیا کرے جس کی وجہ سے بچے خود تعلیم کی طرف راغب ہو جائیں اور ان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی و معاشرتی خوبیاں اجاگر ہوںتا کہ وہ مستقبل میں معاشرے کا ایک اچھا فرد ثابت ہو کر معاشرے کی اصلاح کر سکیں۔
Tehzeeb Hussain Barcha
About the Author: Tehzeeb Hussain Barcha Read More Articles by Tehzeeb Hussain Barcha: 14 Articles with 12097 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.