جنرل ضیاء کی قبر کا ماتم

۔۔۔مشرف کی حماقت پر تبرّے۔۔۔یا پھر کوئی ٹھو س حکمت عملی؟

کیا قوم جنرل ضیاءالحق کی قبر سے سوال کرے گی کہ یہ امریکی ہمارے متھے کیوںلگائے گئے تھے۔وہ الجہاد الجہاد کے نعرے لگواتے اور ہم لبیک لبیک کہتے رہے ۔کام پورا ہوا امریکی بھاگ گئے اور مڑ کے پیچھے دیکھا تک نہیں۔ملک کلاشنکوف کلچر کے فروغ کے باعث جہنم زار بن گیا ۔اگر بات یہی پہ ختم ہو جاتی تو صبر کرلیتے۔۔۔مگر کل کے پالے ہوئے” مجاہد“ اب دہشت گرد بن چکے ہیں۔پھر ایک جنرل آگیا ارشاد ہوا اب ان ”مجاہدوں“کے خلاف جہاد کرو۔اور جہاد کی حقیقی روح کو اپنی لغت اور سلیبس سے ہی نکال دو۔افغانستان پر امریکی حملہ ہوا ۔۔۔ہم سے پہلے ترکی سے ائیر بیس مانگا گیا مگر انکار ہوگیا۔۔۔معلوم رہے کہ ترکی اس وقت معاشی طور پر بر باد اور بد ترین سیاسی عدم استحکام کا شکا ر تھا۔ایک نہایت کمزور مخلوط حکومت برسراقتدار تھی۔ اس کے باوجود نیٹو ممبر کی حیثیت سے فوج تو ضرور بھیج دی مگر اپنی سرزمین کو امریکی افواج کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔اِدھر ہمارا جنرل” بش شرف“ امریکی احکامات کی بجا آوری کے لئے پوری عاجزی اور تابعداری کے ساتھ تیار بیٹھا تھا۔خود امریکی توقع کر رہے تھے کہ ہماری 7 تجاویز میں سے 2 بھی مان لی گئیں تو ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔وہ تو خود بھی حیرت زدہ رہ گئے جب جنرل ”بش شرف“ نے ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر بلا سوچے سمجھے تمام تجاویز کو بصورت احکامات مان لیا۔تھوڑی دیر کے لئے بھی یہ نہ سوچا کہ ابھی تو ہم پرانی دلدل سے بھی نہیں نکل پائے ہیں اور اس نئی مصیبت میں آخر کس حد تک جانا ہوگا۔2001ءمیں خود کو بذعم خویش بہت بہادر سمجھنے والے جنرل”بش شرف“نے شمسی ائیر بیس اور جیکب آبادائیر بیس امریکی فوج کے حوالے کر دئیے ۔نیٹو افواج کو تیل اور دیگر سامان کی سپلائی کے لئے غیر مشروط اجازت بھی دے دی ۔ڈرون حملوں کی بھی اجازت مل گئی امریکی سی آئی اے کے جاسوس دھڑا دھڑ بلا روک و ٹوک اس پاک سرزمین پر ایک دفعہ پھر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے پہنچنا شروع ہو گئے ۔معلوم نہیں یہ جنرل اس وقت ہوش وہواس میں تھا یا حد سے زیادہ ”خمار اور سرور“ کی حالت میں۔۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خود کش اور ڈرون حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔پوری فوج کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا ہے جہاں سے آسانی سے نکلنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

گزشتہ تین برس میں نیٹو کے ساتھ آٹھ حملوں میں افسران سمیت 72فوجی جوان شہید ہو چکے ہیں۔فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے ان حملوں کے دوران 250سے زیادہ جوان زخمی بھی ہوئے۔ہزاروں بے گناہ ڈرون حملوں کی نذر ہوگئے۔25اور26نومبر کی درمیانی شب کو نیٹو ہیلی کاپٹروں نے مہمند ایجنسی میں پاکستان کی دو چوکیوں پر وحشیانہ حملہ کر کے 26فوجیوں کو شہید اور 13کو زخمی کر دیا۔ اور جوابا ً نیٹو چیف کی طرف سے بڑی تاخیر کے بعد محض اظہار افسوس ۔۔۔اُدھر کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے نیٹو سپلائی فوری طور پر بند اور شمسی ائیر بیس امریکہ سے 15دن کے اندر خالی کرانے کا اعلان کیا ہے۔مگر 13مئی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ شمسی ائیر بیس امریکہ نہیں بلکہ عرب امارات کے کنٹرول میں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ مذکورہ ائیر بیس آپریشنل نہیں ہے۔

اگر دلدل سے نکلنا ہے تو قوم کو سچ بتائیں۔ایک لاکھ فوج اس جنگ میں جھونک دی گئی ہے ہزاروں فوجی شہید ،زخمی اور معذور ہوئے۔ہزاروں بے گناہ عام شہری زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔امن تباہ ہو چکا ۔۔۔معیشت برباد ہو گئی۔۔۔بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے۔۔۔کراچی جل رہا ہے۔۔۔افغانستان کا بارڈر ہمارے لیے مصیبت کا ایک پہاڑ بن کے سامنے کھڑا ہے۔۔۔اور قوم ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے۔۔۔اگر ایک انا پرست جنرل اس ملک کو جہنم میں دھکیل گیا تو کیا موجودہ فوجی اور سیاسی قیادت ملکر ان پالیسیوں سے جان چھڑانے کی حکمت عملی وضع کرنے سے قاصر ہیں؟نیٹو کے رکن ممالک میں بیٹھے ہمارے سفراءکیا کر رہے ہیں؟ کیا وہ بین الاقوامی میڈیا ۔انسانی حقوق کی تنظیموں اورپاکستانی کمیونٹی کو بھی ساتھ رکھ کر ان ممالک میں اس کھلی وحشیانہ اور سفاکانہ درندگی پر احتجاج ریکارڈ نہیں کروا سکتے تھے۔میں یہاں پہ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی طرف سے ایک نہایت اچھی تجویز سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے رنگ برنگے جھنڈے ایک طرف رکھ کر اپنی قیادتوں سمیت صرف پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر باہر نکلیں ۔کراچی ،لاہور ،راولپنڈی ،پشاور ،کوئٹہ میں قومی یکجہتی کے اظہار کے لئے اکھٹے ہوں۔تاکہ دنیا کو یہ خبر ہو جائے کہ ہم اپنے تمام تر جماعتی اور اندرونی اختلافات کے باوجود ملکی کی سلامتی کے لئے ایک ہیں۔اگر قومی سیاسی قیادت اس طرح کی یکجہتی اور اتحاد کا اظہار کرے تو دنیا کو پاکستان کی طرف سے ایک اچھا پیغام جائے گا۔
Syed Abid Gillani
About the Author: Syed Abid Gillani Read More Articles by Syed Abid Gillani: 24 Articles with 18649 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.