این آر او زدگان کی سٹی گم؟

سپریم کورٹ کی جانب سے قومی مصالحتی آرڈیننس کے متعلق عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی حکومتی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ صدر اور حکومت کے مستقبل پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس صورت حال میں ایوان صدر اور حکومت پر بھی دباﺅ بڑھ گیا ہے۔ایسے میں این آر او زدہ وزراءاور حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے لیڈر بے سروپا بیانات دے کر ریاستی اداروں میں محاذ آرائی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی فضا میں کشیدگی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نظر ثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اب حکومت کے پاس سوئس حکام کو صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے سے متعلق خط لکھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) 5 اکتوبر 2007ءکو جاری کیا جس میں 8041 سیاست دانوں اور بیوروکریٹس پر یکم جنوری 1986ءسے 12 اکتوبر 1999ءکے درمیان بدعنوانی، غبن اور دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت قائم ہونے والے مقدمات میں انہیں معافی دی گئی اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے بعد وہ پاک صاف ہوگئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے اس آرڈیننس کو 12 اکتوبر 2007ءکو معطل کردیا لیکن پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ءکو آئین منسوخ کرکے ایمرجنسی نافذ کردی۔ اس کے بعد ججوں کی بحالی کی زبردست تحریک چلی جس کے نتیجے میں سابق صدر مشرف کو منہ کی کھانی پڑی اور وہ پسپا ہوتے چلے گئے۔ جبکہ صدر زرداری بھی این آر او کے خوف کے باعث ججوں کی بحالی میں ٹال مٹول سے کام لیتے رہے پھر لانگ مارچ کے نتیجے میں موجودہ عدلیہ کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ نے این آر او کیس کی سماعت دوبارہ شروع کی اور 16 دسمبر 2009ءکو این آر او معطل کردیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ این آر او آئین سے متصادم ہے لہٰذا تمام مقدمات 5 اکتوبر 2007ءسے قبل کی پوزیشن پر بحال کیے جائیں۔ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کو مسلسل نظر انداز کرتی رہی، اس کے بعد مزید قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے نظر ثانی کی اپیل دائر کردی جسے اعلیٰ عدلیہ نے 25 نومبر 2011ءکو مسترد کردیا۔

صدر زرداری نے فیصلے پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ فیصلے کا بغور جائزہ لے کر آیندہ کا فیصلہ کریں گے، این آر او کے ذریعے پارٹی کی شہید قیادت کی قبروں کے ٹرائل سے کارکنوں کے جذبات مجروح ہوئے جبکہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے حکومت کے خاتمے کا خواب دیکھنے والے یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ اُدھر پیپلزپارٹی سندھ نے بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو اور دیگر کی قبروں کے ٹرائل کا مائنڈ سیٹ تیار ہورہا ہے۔ سندھ کی وزیر اطلاعات شازیہ مری، ایاز سومرو دیگر نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عدلیہ سے بہت تکلیف دہ فیصلے ملے ہیں، اب کوئی عدالتی قتل نہیں ہونے دیں گے۔

عدلیہ کے خلاف میدانِ کار زار سجانے والے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو طعن و تنقید کا نشانہ بنانے والے یہ کیوں بھول گئے کہ اسی عدلیہ نے این آر او کے حوالے سے عوام کے منتخب نمایندوں کو موقع دیا تھا کہ وہ خود پارلیمنٹ میں اس کا فیصلہ کریں مگر حکومت نے عوامی نمایندوں کا موڈ دیکھتے ہوئے، اپنی ناکامی کے خدشے کے پیش نظر بدنام زمانہ آرڈیننس کو دوبارہ عدالت کے سپرد کرکے گیند عدلیہ کے کورٹ میں پھینک دی۔ اب اگر سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے آئین و قانون کی روشنی میں اس قضیے کوحل کیا ہے تو اعلیٰ عدلیہ کی مثالی شہرت اور نیک نامی کو داغ دار بنانے کی مہم کیوں چلائی جارہی ہے؟ جہاں تک عدالتی قتل کی بات ہے تو اس حوالے سے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزا سنائی تھی جس پر عمل درآمد بھی ہوا۔ تب سے اب تک پیپلزپارٹی کہتی آرہی ہے کہ یہ عدالتی کارروائی نہیں تھی، عدالتی قتل تھا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ آج تک پیپلزپارٹی نے اس بارے میں بھٹو کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوئی جوابی قانونی اقدام نہیں کیا۔ اس وجہ سے یہ سوال اب تک جواب طلب ہے اور اس حوالے سے پیپلزپارٹی کو اپنے موقف کا دفاع کرنے کے لیے جواب دینا بھی چاہیے۔

پی پی قیادت بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی اب تک سنجیدگی سے تحقیقات ہی نہیں کروائی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صدر زرداری ”قاتلوں“ کو جانتے بھی ہیں۔ اگر اپنی ہی حکومت میں قاتلوں کو بے نقاب نہیں کرسکتے تو پھر کب کریں گے؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو عدالتی قتل کہنا خود اعلیٰ عدلیہ کی اعلانیہ توہین نہیں تو اور کیا ہے؟مارچ 2011ءمیں چیئرمین نیب جسٹس(ر) دیدار حسین شاہ کے خلاف جب فیصلہ آیاتو اپنی ہی حکومت کے ہوتے ہوئے ہڑتال کرنا پی پی کی تاریخ کا حصہ بن چکا۔ تمام پتے کھیل چکنے کے بعد اب ایک مرتبہ پھر عاقبت اندیش سندھ کارڈ کھیل کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومتی ذمہ داران عدالتی فیصلوں کے الفاظ و روح کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے مضحکہ خیز اور مایوس کن اقدامات اٹھارہے ہیں۔ عدلیہ کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔این آراوزددہ وزراءکی سٹی گم ہوگئی ہے اسی لیے ہمارے سیاست دان اپنی محاذ آرائی میں عدلیہ کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں کو اس ملک، اس کے عوام اور اس کے مستقبل کا احساس ہی نہیں ہے۔ پورے ملک میں اضطراب کی کیفیت طاری ہے اور حکمران اب بھی آنکھیں بند کرکے بیٹھے اور سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اگر ہماری قیادت اور حکومت ہی ایوانِ عدل کے فیصلوں کی دھجیاں اڑاتی رہی تو پھر اس ملک کا کیا بنے گا؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ این آر او زدہ وزراءکو فوری طور پر ان کے مقدمات کا فیصلہ ہونے تک موجودہ عہدوں سے فارغ کردیں، اگر وہ کلیرنس سرٹیفکیٹ حاصل کرلیں تو دوبارہ اپنی وزارتوں کا چارج سنبھال سکتے ہیں۔ حکمرانوں سمیت ملک کے تمام طبقات کو عدالتی فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کرنا ہوگاکیونکہ ریاستی اداروں میں ٹکراؤ کی فضا برقرار رہی اور رہنمایان قوم نے سمجھ داری سے کام نہ لیا تو حکومت ہی نہیں پورے نظام کی بساط لپیٹی جاسکتی ہے۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.