کیا ’اینگری ینگ لیڈر‘کی یو پی میں دھونس جم سکے گی؟

مرکزمیں متعدد محاذوں پر ناکامی کامنہ دیکھنے کے بعد یوپی میں کانگریس کی انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے۔اس دوران پارٹی کے جنرل سکریٹری ولی عہد راہل گاندھی معروف فلمی شخصیت ’اینگری مین‘امیتابھ بچن کے سے انداز میں ’اینگری ینگ لیڈر‘ کے طور پر اپنی شبیہ قائم کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ خاص پر یوپی مشن کو کامیاب بنانے کے فراق میں وہ نوجوانوں کے دلوں میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کررہے ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے ان کے والدراجیو گاندھی کے دیرینہ رفیق امیتابھ بچن نے 3دہائی قبل بالی ووڈ میں عوام کا استحصال کرنے والوں کے خلاف اپنے ڈرامائی کردار سے فلم شائقین کو تالیاں پیٹنے پر مجبور کردیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ’اینگری ینگ مین‘کے خطاب سے سرفراز ہوگئے تھے۔خواہ مسئلہ قلی کے رول کا ہو یا سڑک چھاپ غنڈوں کا ‘گلیمر کے اس ہیرو نے اپنی ’مشتعل طبیعت‘ کے ذریعے جھنڈے گاڑدئے۔اسی لب ولہجے کو اختیارکرتے ہوئے راہل گاندھی نے سیاسی دنگل میںبطور ’اینگری ینگ لیڈر‘ اینٹری کردی ہے۔اس کردار میں اپنا خصوصی تاثر ثبت کرنے کیلئے راہل پر جوش نظر آرہے ہیں۔

الہ آباد کے پھولپور پارلیمانی حلقہ سے انہوں نے اپنے انتخابی مشن کا اعلان جنگ کردیاگیا ہے۔نقارے پر پہلی ضرب کے ساتھ جھانسی کے میدان میں کانگریس نے ایک بڑی ریلی کاانعقاد کیا تھا۔بھاری بھرکم تام جھام سے لیس اس پروگرام کی تیاری بہت اہتمام سے کی گئی تھی۔راہل نے تقریباً 25منٹ کی تقریرمیں جس طرح کے جذباتی تیور اختیار کئے اس سے یہی محسوس ہوتاہے کہ اب ولی عہدموصوف انتخابی سیاست کے ہنر پر عبور حاصل کرچکے ہیں جبکہ عام طور پر سکون مزاج کے سمجھے جانے والے راہل نے یہاں اپنی تقریر سے لوگوں کو موجودہ بی ایس پی حکومت کے خلاف جم کر مشتعل کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ریاست کی اتنی بدحالی کے باوجود یہاں کے نوجوان طبقہ کو غصہ کیوں نہیں آتا؟

انہوں نے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ یوپی کے دوروں کے بعد حالات دیکھ کرانہیں بھی غصہ آنے لگا ہے کیونکہ اس ریاست میں ایک بھی منصوبہ درست طورپر نہیں چل رہاہے جبکہ گزشتہ 22برسوں سے ریاست میں غیر کانگریسی حکومتوں پرمرکزی توجہ ہے۔اسی وجہ سے یرغمالی کا شکار اترپردیش پسماندگی کامثال بناہواہے۔انہوں نے اس بات پراستعجاب ظاہر کیا کہ اتنی بدنظمی کے باوجود یہاں کے نوجوانوں کو غصہ کیوں نہیں آتا؟انہوں نے ڈرامائی لہجے میں سوال بھی اچھا لاکر آپ لوگوں کو ایسی سڑی گلی انتظامیہ کے خلاف غصہ کیوں نہیں آتا؟کیا آپ کا دل نہیں چاہتا کہ ناکارہ تاج و تخت کو بدلنے کی ضرروت ہے؟

اس طرح ایک خصوصی حکمت عملی کے تحت راہل نے یوپی کے لوگوں کی خودداری کو بھی بیدار کرنے کی کوشش کرڈالی ہے۔انہوں نے نشتر چبھویا کہ کب تک یوپی کے لوگ مہاراشٹر میں بھیک مانگنے کیلئے مجبور ہوتے رہیں گے؟کب تک دہلی اور پنجاب میں مزدوری کرنے کی لعنت میں مبتلارہیں گے؟ آخر وہ وقت کب آئے گا جب یہاں کے باشندے اپنی سرزمین پر ہی رہ کر پھلیں پھولیں گے؟پھول پور کے اس عوامی اجلاس میں جس طرح سے ولی عہد موصوف نے ماہرانہ انداز میں جارحانہ لب ولہجہ اختیار کیا ہے اس سے پارٹی کے تمام قائدین ششدر دکھائی دئے۔ریا ستی کا نگریس کے لیڈر پر مودتیواری کہتے ہیں کہ راہل گاندھی نے زور دار انداز میں یوپی مشن کی شروعات کی ہے۔پھولپور کے بعد دسمبر کے پہلے ہفتہ تک بڑی ریلیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا۔اس کیلئے 10علاقوں میں پروگرام منعقد کرنے کیلئے الگ الگ ذمہ داریاں سپر د کردی گئی ہیں۔جھانسی کی ریلی میں ولی عہد نے اپنے نشانے پر سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو ہی بطور خاص رکھاہے جبکہ ریاست میں بی ایس پی کی سرکار بر سراقتدار ہے۔کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل نے مسلسل طور پر یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے حکومت میں لوٹ مار کا’ کلچر‘ رائج ہے۔ایسی صورتحال میں کوئی یہ توقع نہ کرے کہ ریاستی انتظامیہ علاقہ میں کوئی بہتری کا کام کرسکے گی۔انہوں نے اس بات پر استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ مرکز سے ریاستی حکومت کو ہزاروں کروڑ روپے آئے پھر بھی زمین پر کہیں ترقی نظر نہیں آتی۔

انہوں نے سوال کیا کہ آخر دہلی سے ملی ہوئی رقم کہاں چلی جاتی ہے؟ بندیل کھنڈسے لے کر پروانچل کی خراب حالت کا انہوں نے نقشہ کھینچ ڈلا۔تفصیل بتانے کے بعد ان کا سوال ہوتا تھاکہ آخر یہاں کے لوگ تبدیلی لانے کیلئے کب کھڑے ہوں گے؟ کانگریس کے اس پروگرام سے قبل ہی وزیر اعلی مایاوتی لکھنو میں ولی عہد کی خبر اچھی طر ح سے لے چکی ہیں۔ہفتہ کو ایک پروگرام کے دوران مایانے راہل کے سیاسی تیوروں کو ڈرامائی قرار دیاتھا۔انہوں نے یہ سوال بھی داغا تھا کہ مرکز میں ان کی حکومت کے اقتدار کے دوران مہنگائی میں اضافہ ہواہے۔اس سے پورے ملک میں واویلا مچی ہوئی ہے پھر بھی ولی عہد کو اپنی حکومت پر غصہ کیوں نہیں آتا ہے؟ جبکہ انہیں یوپی میں کچھ بھی ٹھیک نہیں دکھائی دیتا۔سماجوادی سپریمو ملائم سنگھ یادو نے بھی کانگریس کے یوپی مشن کے قائد راہل گاندھی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس نے اقلیتوں کے مفاد کی فکر نہیں کی۔انتخاب کے وقت ہی کانگریس کے لوگ ان طبقوں کو اپنا بناتے ہیں۔یہ چالاکی اب یوپی میں کام نہیں آئے گی۔یہاں کے لوگ اب کانگریس کی لفاظی میں نہیں آنے والے۔کانگریس نے جس طرح بی ایس پی کے ساتھ ان کی پارٹی کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اس سے سماجوادی کے تیور سخت ہوگئے ہیں۔

بات مہاراشٹر کی ہوتوشیوسیناکیسے چپ رہے؟اس نے کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی کے مذکورہ بیان پر زبردست اعتراض کیا ہے جس میں انہوںنے اتر پردیش کے لوگوں کو ’بھکاری‘تک کہہ دیا تھا ۔ شیوسینا کے ترجمان ’سامنا‘ میں شائع لیڈ اسٹوری کا عنوان دیاگیا ہے ’ یوپی والے بھک منگے ‘ ۔اس خبرکے ساتھ ایک کارٹون شائع کیا گیا ہے جس میں اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ کو مہارانی کی طرح کرسی پر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ راہل کو کسی بھکاری کی طرح پیش کیا گیاہے ۔ خبر میں راہل کو’ بدتمیز‘ تک کہہ دیا گیا ہے ۔خبر کی شروعات کچھ اس طرح ہوتی ہے ’ گذشتہ روز یوم اطفال کے روز اپنی ’بدتمیزی‘ کا ثبوت دیتے ہوئے کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے یوپی والوں کو بھک منگا تک کہہ دیا ۔‘ راہل پر یوپی میں ریاستی اسمبلی انتخاب قریب آتے دیکھ’ زہر اگلنے‘ اور’ اناپ شناپ ‘بیان بازی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ۔شیوسینا کے کار گذار صد ر ادھوٹھاکرے نے راہل گاندھی پر ملک کوغیر مستحکم کرنے اورجھگڑ الو ہونے کا الزام لگایا ہے ۔ ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ’ راہل کو ایسا لگتا ہے تو وہ یوپی بہار والوں کو اپنے گھر لے جائیں ۔شیوسینا نے مراٹھی لوگوں کے مفاد کے ایک دو معاملے اٹھائے تو فوراً علاقائی عصبیت کا راگ الاپنے لگتے ہیں‘ ایسے میں راہل کے اس بیان کو کیا کہا جاسکتا ہے ۔

راہل پر تنقیدوں کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔2003 کے دوران راہل گاندھی کے متحرک قومی سیاست میں بڑے پیمانے پر میڈیا کی اٹکلیںجاری تھیں جس کی انہوں نے تصدیق نہیں کی۔ وہ عوامی تقریبات اور کانگریس کی میٹنگوں میں اپنی ماں کے ساتھ دکھائی دیئے۔ ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ سیریز دیکھنے کیلئے ایک خیر سگالی دورے پروہ اپنی بہن پرینکا گاندھی کے ساتھ پاکستان بھی گئے۔جنوری 2004 میں سیاست ان کے اور ان کی بہن کے ممکنہ داخل کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھیں۔ جب انہوں نے اپنے والد کے سابق الیکشن علاقے امیٹھی کا دورہ کیا جو اس وقت ان کی ماں کی قیادت میں تھا۔ انہوں نے ایک خصوصی ردعمل دینے سے انکار کر دیا تھا ، یہ کہہ کر کہ میں سیاست کے خلاف نہیں ہوں۔ میں نے یہ طے نہیں کیا ہے کی میں سیاست میں کب داخل ہوں گا اور حقیقت میں ، ہوں گا بھی کہ نہیں۔جب 2006 کے آخر میں نیوز ویک نے ان الزام لگایا کہ انہوں نے ہارورڈ اور ہےبرج میں اپنی ڈگری مکمل نہیں کی تھی یا مانیٹر گروپ میں کام نہیں کیا تھا تو راہل گاندھی کے قانونی معاملات کی ٹیم نے جواب میں ایک قانونی نوٹس بھیجا جس کے بعد وہ فورابیان سے مکر گئے یا پہلے کے بیانات کا تقابل کیا۔ راہل گاندھی نے 1971 میں پاکستان کے ٹوٹنے کو اپنے خاندان کی ’کامیابیوں‘ میں شمار کیا۔ اس بیان نے ہندوستان میں کئی سیاسی جماعتوں سے ساتھ ہی دفتر خارجہ کے ترجمان سمیت پاکستان کی نمایاںشخصیات کو تنقید کی دعوت دی۔ مشہور مورخ عرفان حبیب نے کہا کہ یہ تبصرہ ’.... بنگلہ دیش کی تحریک کی توہین تھا۔2007 میں اتر پردیش کے انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا کہ’اگر کوئی گاندھی - نہرو خاندان کا فرد سیاست میں سرگرم ہوتا تو بابری مسجد نہیں گری ہوتی۔میڈیا میں اس بیان کو پی وی نرسمہا راؤ پر حملے کے طور پر تشریح کیا گیا تھا جو 1992 میں مسجد کے انہدام کے دوران وزیر اعظم تھے۔ گاندھی کے بیان نے بی جے پی ‘ سماج وادی پارٹی اور بائیں بازو کے چند ارکان کے ساتھ تنازع شروع کر دیا ، دونوں ’ہندو مخالف‘ اور ’مسلم مخالف‘ کے طور پر انہیں ڈگری دے کر ۔ مجاہدین آزادی اور نہرو- گاندھی خاندان پر ان تبصروں کی بی جے پی کے لیڈر ویکیا نائیڈو کی طرف سے تنقید کی گئی ہے جنہوں نے پوچھا کہ کیا گاندھی خاندان ایمرجنسی کے نفاذ کی ذمہ داری لے گا؟2008 کے آخر میں راہل گاندھی کے لئے ایک واضح روک سے ان کی طاقت کا پتہ چلا۔ گاندھی کو چندر شیکھر آزاد زرعی یونیورسٹی میں طلباءسے خطاب کرنے کیلئے ہال کا استعمال کرنے سے روکا گیا‘وزیر اعلٰی مایاوتی کی سیاسی چالبازیوں کے نتیجے میں۔ بعد میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر وی کے سوری کو گورنر مسٹر ٹی وی راجےشور ‘جو چانسلر بھی تھے‘ ان کے ذریعہ باہر کیا گیا جو گاندھی خاندان کے حامی اور مسٹر سوری کے آجر تھے۔54 اس واقعہ کو تعلیم کی سیاست کے ثبوت کے طور پر حوالہ دیا گیا اور اجےت ننن کے ذریعہ ٹائمز آف انڈیا میں ایک کارٹون میں لکھا گیا کہ اولادسے متعلق سوال کا جواب راہل جی کے پیدل فوجیوں کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔سینٹ اسٹیفن کالج میں ان کا داخلہ متنازع تھا کیونکہ انھیں ایک مقابلہ جاتی پستول نشانے بازی کی صلاحیتوں کی بنیاد پرانھیں کالج میں داخلہ دیا گیا تھا جو متنازع تھا۔ انہوں نے تعلیم کے ایک سال کے بعد 1990 میں اس کالج کو چھوڑ دیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ اپنے کالج سینٹ اسٹیفن میں ان کے ایک سال کے قیام کے دوران کلاس میں سوال پوچھنے والے طلبہ کوچھوٹا سمجھا جاتا تھا ، اس بیان نے ان کیلئے کالج کی طرف سے ایک سخت ردعمل کو جنم دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ سینٹ اسٹیفن کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو سوال پوچھنا ہماری کلاس میں اچھا نہیں مانا جاتا تھا اور مزید سوال پوچھنا نیچا سمجھا جاتا تھا۔ کالجوں کے اساتذہ نے کہا کہ گاندھی کا بیان زیادہ سے زیادہ ’ان کا ذاتی تجربہ‘ ہو سکتا ہے ۔جنوری 2009 میں برطانیہ کے خارجہ سیکرٹری ڈیوڈ ملی بینڈ کے ساتھ ، اتر پردیش میں ان کے پارلیمانی الیکشن کے علاقے میں امیٹھی کے قریب ایک گاؤں میں ان کے ’غریبی سیاحتی سفر‘کے لئے شدید تنقید کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ملی بینڈ کے ذریعہ دہشت گردی اور پاکستان پر دئے گئے مشورہ اور مسٹر مکھرجی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ نجی ملاقاتوں میں ان کے ذریعہ کئے گئے طرز عمل کی وجہ سے اسے ’سب سے بڑی سفارتی بھول ‘کے طور پر مانا گیا ۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116447 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More