محرم اورشہادت حسین

اسلامی تقویم کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے جو کہ اسی فطری نظام کائنات کے تحت جیسا کہ خالق کائنات نے مقرر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے! یقینا مہینوں کی تعداد تو اللہ کے نزدیک بارہ ہے اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں جس دن کہ پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں یہی سیدھا درست دین ہے۔ عیسوی شمسی سال کے برعکس اسلامی قمری سال کا آغاز ولادت النبی کے بجائے ہجرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے میں زبردست حکمت ومصلحت ہے جب امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے اسلامی تقویم کا معاملہ آیا اور اسلامی سال شروع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے ہجرت کو معیار بنایا،کیوں کہ اس سے اسلامی عظمت کاآغاز ہوتاہے اسلامی اتحاد کی ابتدا ہوتی ہے اور اسلامی اخوت ومساوات کی شروعات ہوتی ہے۔

ماہ محرم کی اہمیت وفضیلت:ماہ محرم الحرام کی تاریخی اہمیت مسلم ہے احادیث وروایات اور آثار سے اس کے فضائل و برکات ثابت ہیں روایات کی روشنی میں اسی محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی۔ یوم عاشوراء ہی کو جنت پیدا فرمائی۔ یوم عاشوراء ہی کو سفینہ نوح جودی پہاڑ پر ٹھہرا۔ یوم عاشوراء ہی کو حضرت موسیٰ اور ان کی قوم نے فرعون سے نجات حاصل کی اور اللہ نے فرعون اوراس کے لشکر کو غرق کیا۔

یوم عاشوراء کا روزہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد بہترین روزہ محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد بہترین نماز تہجد کی نماز ہے۔ (مسلم شریف، ریاض الصالحین)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محرم کی دسویں تاریخ کو خود بھی روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے(بخاری ومسلم)

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دلدوز واقعہ بروز جمعہ دس محرم الحرام سن 61 ہجری کو پیش آیا۔س وقت آپ کی عمر 58 سال کے قریب تھی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بارش کے فرشتہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ی کی اجازت چاہی آپ نے اسے شرف باریابی کا موقع دیا ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ دروازے کی طرف دھیان دینا کوئی اندر نہ آنے پائے،لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کودتے پھاندتے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک پر کودنے لگے۔۔ فرشتے نے فرمایا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں۔۔۔۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کی امت اسے قتل کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو وہ مٹی لاکر آپ کو دکھلا دوں جہاں اسے قتل کیا جائے گا۔۔پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور لال رنگ کی ایک مٹھی مٹی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رکھ دی (مسند احمد ،ج:3، ص:242ـ265 )

مسند احمدہی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ٹھیک دوپہر کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال اور چہرہ مبارک غبار آلود ہے اور آپ کے ساتھ ایک شیشی ہے جس میں خون ہے۔۔۔ ہم نے عرض کیا۔۔۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں یہ کیا چیز ہے آپ نے فرمایا کہ یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے۔اس معنی میں ایک روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنن الترمذی :3771 میں موجود ہے ۔اس حدیث کے راوی عمار بیان فرماتے ہیں کہ جب اس کا حساب لگایا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاواقعہ دن پیش آیا تھا۔

طبقات ابن سعد میں ہے: ہم لوگ حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے کہ باہر سے ایک لونڈی کے چیخنے کی آواز سنائی دی اور اسی حالت میں وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچ کر کہنے لگی کی حضرت حسین کو شہید کردیا گیا۔ام المومنین نے فرمایا: بدبختوں نے ایسا کردیا۔ اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھردے یہ کہہ کر وہ بیہوش ہوکر گرگئیں۔۔ یہ دیکھ کر ہم لوگ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔

تاریخ بغداد میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی کہ ہم نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کے بدلے ستر ہزار بنو اسرائیل کو قتل کیا تھا اور حسین کے بدلے ستر ہزار اور ستر ہزار قتل ہوں گے۔

شہادت ایک نعمت: کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ان خرافات کو جائز سمجھے، جیسے چیخ وپکار اور رونا چلانا اور شاید یہ سب ریا و نمود ہے کیونکہ ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ جو ان سے افضل و بہتر تھے انہیں شہید کیا گیا لیکن ان کے شہادت کے دن کو یوم ماتم نہیں منایا گیا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت جمعہ سترہ رمضان المبارک سن 40 ہجری ہے جب کہ آپ صبح کی نماز کے لئے جارہے تھے۔اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جو اہل سنت و الجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہیں بدبختوں نے انہیں اپنے ہی گھر میں محصور کرکے ایام تشریق کے موقعہ پر ان کا کھانا پانی بند کرکے بھیڑ بکری کی طرح ذبح کر ڈالا لیکن لوگوں نے ان کے یوم شہادت کو یوم ماتم نہیں ٹھہرایا ،اس سے بھی آگے دیکھیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو ان تمام سے افضل تھے نماز کی حالت میں قرآن پڑھتے ہوئے انہیں شہید کیا گیا لیکن ان کے بھی یوم شہادت کو یوم ماتم نہیں بنایا گیا ،ا سی طرح اس امت کے صدیق جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی افضل تھے لیکن لوگوں نے ان کے یوم وفات کو رونے اور سینہ کوبی کا دن نہ سمجھا ،حتٰی کہ اگلے پچھلے مخلوقات کے سردار کو بھی اللہ تعالٰی نے دوسرے انبیاء کی طرح اس دنیا سے اٹھا لیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات کو بھی کسی نے یوم ماتم نہ قرار دیا جیسا کہ ان جاہلوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت کو بنایا ہے اور نہ ہی کسی نے ان خرافات مثلا سورج کا گہن میں آجانا وغیرہ کا تذکرہ کسی کی شہادت یا وفات کے موقعہ پر کیا ہے۔( البدایہ و النھایہ :8/203 )
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 285109 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More