امتحان

ایک جانب زندگی خدا کی نعمت ہے تو دوسری طرف بہت بڑی آزمائش بھی ۔ انسان دنیا میں آیا تو تنہا تھا لیکن حضر ت حوا علیہ السلام کی پیدائش کے بعد تخلیق انسانی کاایک لامتناہی سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ انسانی رشتوں کی ایک زنجیر خود بخود بنتی چلی گئی ۔والدین تو ہر انسان کی پیدائش سے پہلے ہی دنیا میں موجود ہوتے ہیں جن کی محبت انسانی خون میں رچی بسی ہوتی ہے لیکن کچھ رشتے شادی کے بعد زندگی میں اولاد کی صورت میں بنتے ہیں جو اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک تمام تر توجہ کامرکز بن جاتے ہیں ۔ہر انسان اپنے بچوںکی بہترین پرورش ٬ تعلیم و تربیت اور حفاظت و نگہداشت کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ بچوں کو پڑھانا لکھانا صحیح تربیت دینی سردی گرمی سے بچانا اور ان پر خرچ کرکے انہیں معاشی اور جسمانی تحفظ فراہم کرکے انسان بہت خوش ہوتا ہے ۔

اللہ تعالی نے مجھے بھی دو چاند سے بیٹے عطا فرمائے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ دونوں الگ الگ خوبیوں اور خامیوں کے حامل انسان ہیں لیکن دونوں میرے جگر کا ٹکڑا ہیں۔زمین پر پاﺅں رکھ کر چلنے پہلے دن سکول جانے ٬ پھر کالج میں حصول تعلیم کے لیے جانے کے لمحات آج بھی مجھے یاد ہیں انسان کس کرب اور مشکلات سے نبرد آزماہوکر اولاد کو زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں زندہ رہنا سکھاتا ہے ۔اب ماشااللہ دو نوں بڑے ہوچکے ہیں اور اپنے پاﺅں پر خود چل کرنہ صرف دفتر جاتے ہیں بلکہ میری مشکلات کو آسان کرنا بھی اب انہیں کے فرائض میں شامل ہے ۔ نماز میں سستی کی وجہ سے کبھی کبھار مجھے غصہ آتا ہے لیکن جب میں دوسروں کی اولاد کے ساتھ ان کا تقابل کرتا ہوں تو مجھے اپنے بیٹے سب سے اچھے اور وفاشعار دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چند لمحوں بعد ہی شفقت پدری کا بیکراں سمندر موجزن ہوجاتا ہے ۔مجھے اس بات پر فخر ہے کہ دونوں بیٹے ( محمد شاہد اور محمد زاہد ) دور حاضر میں معاشرے کی قباحتوں سے بڑی حد تک محفوظ ہیں ۔حسن اتفاق سے یہ دونوں گلستان گروپ میں ملازمت کرتے ہیں ہر صبح ملازمتوں پر جانے کے لیے جب گھر سے نکلتے ہیں تو ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مجھے خدا حافظ کہنے کے لیے اپنی ماں کے ساتھ وہ بھی موجود ہوں ۔

زندگی کا سفر یونہی جار ی و ساری تھا کہ لاہور میں ڈینگی مچھروں کی یلغار نے طوفان برپا کر دیا ۔ہر طرف ہاہاکار مچ گئی ۔ڈاکٹروں کے کلینک اور سرکاری ہسپتال ڈینگی بخار کے مریضوں سے بھر گئے ۔دیکھا دیکھی نیم حکیم بھی اس مرض کے علاج کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر میدان میں کود پڑے۔ گلیوں بازار میں ڈینگی بخار کے موثر علاج کی عبارت والے بینرآویزاں دکھائی دینے لگے ۔ لیبارٹریوں نے بھی خوب کمایا ۔ بے شک دیر سے سہی لیکن وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے جب میاں محمد شہباز شریف نے ڈینگی وبا کے خلاف جہاد شروع کیا تو میٹھی نیند سوئے ہوئے نااہل سرکاری ادارے بھی حرکت میں آگئے ۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ جس تیل کا مچھرمارنے کے لیے سپرے کیا گیا وہ تیل ہی اصلی نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ مچھر مرنے کی بجائے پہلے زیادہ خونخوار ہوکر انسانوں پر حملہ کرنے لگے ۔دوسری جانب ہر دوسرے تیسرے دن ہونے والی بارش کا پانی باغات ٬ پارکوں اور شہر کے نشیبی علاقوں میں کئی ہفتوں سے نہ صرف کھڑا تھا بلکہ وہ ڈینگی مچھروں کی افزائش کا باعث بھی بن رہا تھا ۔واسا اور پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔ میاں شہباز شریف سارے کام چھوڑکر ڈینگی وبا پر قابو پانے کے لیے ایسے متحرک ہوئے کہ کہیں معلوماتی بروشر تقسیم کرتے نظر آرہے ہیں تو کہیں ہاتھوں میں پمپ لیے سپرے کررہے ہیں ٬ کہیں کسی ٹائروں والی دکانوں میں ڈینگی مچھروں کی افزائش گاہیں تلاش کررہے ہیں ۔ پارکوں ٬ باغات اور نشیبی علاقوں میں بارش کا جو پانی صرف دھوپ سے ہی خشک ہوتا تھا وزیر اعلی کے حکم پر محکمہ واسا نے بھی انگڑائی لی اورنشیبی علاقوں میں جمع پانی بڑی حد تک خشک کردیا۔

اس کے علاوہ یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ بطور خاص لاہور میں ڈینگی مچھروں کی یلغار کااہتمام کرنے میں امریکہ کی خفیہ اور خونخوار ایجنسی " سی آئی اے " کا ہاتھ ہے ۔کیونکہ سی آئی اے ماضی میں بھی ڈینگی مچھر وںکو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ 1997 میں کیوبا نے اقوام متحدہ میں ایک درخواست دائر کی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سی آئی اے نے ڈینگی مچھروںکو بطورہتھیار استعمال کرکے پوری قوم کو دہشت زدہ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میںدائر کی جانے والی اس درخواست کے ساتھ ناقابل تردید شواہد بھی پیش کیے گئے تھے جبکہ گزشتہ تین برسوں میں بھی کم ازکم تین ممالک ایسے ہیں جن کی حکومتوں نے باقاعدہ طور پراقوام متحدہ میں یہ شکایت کی کہ "سی آئی اے " بطور ہتھیار ڈینگی مچھر کو ان کے ملکوں میں پھیلا کر افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ ان ممالک میں کیوبا ٬ افغانستان اور فلپائن شامل ہیں۔یہ بات قابل تردید نہیں کہ لاہور ہی میں امریکی سفارت کار کے روپ میں ریمنڈ ڈیوس جیسا دہشت گرد دو پاکستانیوں کے قتل کے الزام میں پکڑا گیا تھاجس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ سی آئی اے اور بلیک واٹر تنظیم کا لاہور میں سربراہ تھا اور اس کو کئی مہینے تک کوٹ لکھپت جیل میں بند رہنا پڑا جو امریکہ اور سی آئی اے کی توہین کے مترادف تھا۔پھر پنجاب حکومت نے امریکی امداد سے انکار کرکے بھی بہت بڑا جرم کیا تھا جو امریکہ کی توہین کے مترادف تھا ۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکہ صرف ناپسندیدہ ملکوں کو سزا دینے کے لیے فوجی یلغار ہی نہیں کرتا بلکہ بائیولوجیکل حملے سے بھی گریز نہیں کرتا افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس نے کئی ایسے میزائل برسائے ہیں جو انسانی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں گویا امریکہ الزام تو کسی اور پر لگانے کا عادی ہے لیکن انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم وہ خود کرتا ہے اس کے تمام جرائم اس لیے پردے میں رہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور ذیلی ادارے اس کے فنڈ پر چلتے ہیں ۔گزشتہ سال عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکہ کے ایک انتہائی خفیہ دفاعی پروگرام کا چرچا رہا اور پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے بعد قومی سطح پر بھی اس منصوبے کے بارے میں بحث شروع ہوئی کہ امریکہ موسم کو اپنے قابو میں کرتے ہوئے اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے ۔ روس اور چین امریکہ کے اس خطرناک منصوبے پر شدید تحفظات کا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں۔ یورپی یونین بھی قرارداد منظور کرتے ہوئے اس بارے میں حقائق منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرچکی ہے لیکن امریکہ کو کسی کے احتجاج اور تحفظات کی کوئی پروا نہیں ہے ۔ گزشتہ سال جن دنوں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں عروج پر تھیں ٬برطانیہ کے معروف روزنامے " ڈیلی میل " میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں برطانوی سائنس دانوں کے حوالے سے یہ دعوی کیا گیا تھا کہ روس اور پاکستان کے موسمی حالات میں جو غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ سطح زمین سے میلوں اوپر ہواﺅں کے جو تیز جھکڑ (Jetstrams) چلتے ہیں انہیں کسی نامعلوم قوت نے ایک جگہ ساکت کردیاہے ۔ جولائی 2010کے وسط سے ان تیز ہواﺅں کو معمول کے مطابق مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرنا چاہیئے تھا لیکن اس سال یہ متحرک نظر نہیں آئیں اور محسوس یہ ہوا کہ جیسے کسی نادیدہ قوت نے انہیں ایک جگہ قید کردیا ہے جب یہ جیٹ اسٹریم کسی ایک جگہ ٹھہر جائیں تو اس کے نیچے کے زمینی خطوں کا موسمی نظام عجیب وغریب طریقے سے تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ یونیورسٹی آف ریڈنگ ٬برکشائر کے پروفیسر مائیک بلیک برن نے بہت وثوق سے کہا کہ اس سال غیر معمولی موسمی تغیر و تبدل کی بنا پر جاپان میں خلاف معمول بہت زیادہ گرمی پڑی اور 60 افراد لو لگنے سے ہلاک ہوگئے جبکہ برطانیہ میں گرم موسم اچانک ختم ہوگیا جس وقت زمین سے اوپر جیٹ اسٹریم کو روکاگیا تھااس وقت پاکستان میںمون سون کا موسم شروع ہوچکا تھا ۔ پروفیسر بلیک برن کے مطابق نامعلوم قوت کی جانب سے موسم کے ساتھ اس چھیڑ خانی کے انتہائی خوفناک نتائج پاکستان میںدیکھے گئے ۔غیر معمولی بارشوں کے بعد سیلابوں کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا جس سے ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں اور پاکستان کو موسم سے اس چھیڑخانی کا اربوں ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا۔دوسری جانب جیٹ اسٹریم کے غیر متحرک ہونے سے افریقہ سے آنے والی گرم ہواﺅں نے روس میںبھی زبردست تباہی پھیلائی ٬ وہاں کاموسم اچانک شدیدگرم ہوگیا اور جنگلوں میں اچانک آگ لگنے کے اچانک چار سو سے زائد واقعات منظر عام پر آئے ۔روس میں گرم ترین موسم کا گزشتہ ایک ہزار سال کا ریکارڈ اس وقت ٹوٹ گیا جب وہاں یومیہ 8 سو انسانی اموات ہونے لگیں ۔ آس پاس جنگلوں میں لگی آگ کی وجہ سے ماسکو کی فضا بھی کثیف دھوئیں سے اٹ گئی ۔یہ پراسرار نامعلوم قوت جو مختلف ملکوں کے موسمی حالات کو حیران کن پر تبدیل کرنے میں ملوث بتائی جاتی ہے ۔ عالمی ماہرین کے مطابق امریکہ محکمہ دفاع کا ایک خفیہ ادارہ ہارپ (HAARP) ہے ۔ ہارپ کا پورا نام (HIGH FREQUENCY ACTIVE AURORAL RESEARCH PROGRAMME) ہے ۔ عالمی سطح پر موسموں کو کنٹرول کرنے والا یہ مرکز امریکی ریاست الاسکا میں گاکونا کے ویران مقام پر25 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تقریبا 20 سال کے عرصے میں مکمل کیاگیا ہے ۔14 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہارپ مرکز 360 ریڈیو ٹرانسمیٹرز اور 180انٹینا پر مشتمل ہے۔ 22 میٹر تک بلند یہ انٹینا انسانی حیات کی تباہی کے ہتھیار ہیں جہاں سے کئی ارب والس قوت کی برقی توانائی ہائی فریکوئنسی ریڈیائی لہروں کے ذریعے زمین سے فضا سے اوپر موجود برقائی ہوئی حفاظتی تہہ کی جانب پھینکی جاتی ہے جسے Ionosphere کہا جاتا ہے ۔ کرہ ارض کے چاروں طرف 40 سے 600 میل اوپر تک یہ وہی حفاظتی تہہ ہے جو روئے زمین پر زندگی کو سورج کی بالائے بنفشی خطر ناک تابکاری شعاعو ں سے محفوظ رکھتی ہے۔ الیکٹرو میگنیٹک شعاعوں کے ذریعہ اس کمزور اور نازک حفاظتی تہہ کو انتہائی گرم کردیاجاتا ہے ۔ اس کی حدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان شعاعوں میں آسمانی بجلی سے بھی سینکڑوں گنا زیادہ گرمی ہوتی ہے جس سے بالائی فضا خولنے لگتی ہے ۔ پھر ان برقی لہروں کو Extremely Low Frequency یا ELF ریڈیائی لہروں کی صورت میں زمین کی طرف واپس لایاجاتا ہے ۔یہ ELF تابکار لہریں دراصل تباہی کا سامان ہوتی ہیں جو سطح زمین پر واپس آکر ہمارے جسم میں زمین کے اندر اور سمندر کی تہوں میں گھس سکتی ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ ہارپ بالائی فضا کو گرم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ہیٹر ہے دنیا کے جس شمالی خطے سے اسے بنایا گیا ہے وہ اس لحاظ سے آئیڈیل ہے کہ سائنسدان وہاں سے بالائی فضا کی جانب برقی توانائی پھینکنے اور اسے زمین پر واپس لانے میں اپنی خواہش کے مطابق کامیاب رہتے ہیں ۔اس منصوبے کا سب سے اہم اور خفیہ مقصد یہی تھا کہ Ionosphere کو کیسے اور کہا ں شعاعوں کے ذریعے نشانہ بنایاجائے کہ تابکار لہریں واپس ٹھیک اسی مقام پر زمین سے ٹکرائیں جہاں سائنس دان چاہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مطلوبہ قسم کی تباہی یاموسم کی تبدیلی کا ہدف حاصل کیاجاسکے ۔مختصر الفاظ میںکہاجاسکتا ہے کہ ہارپ موسم پر کنٹرول حاصل کرنے کا جدید ترین آرٹ ہے جس کے ذریعہ بالائی فضا کے ایک مخصوص حصے کی نپی تلی مقدار میں برقی توانائی سے نشانہ بنا کر ہر قسم کے سمندری طوفان Hurricane)) ¾ گھن گرج کے ساتھ طوفانی بارشیں ¾ سیلاب اور بگولوں والے طوفان (Tornadoes) کے علاوہ خشک سالی سے بھی اہل زمین کو دوچار کیاجاسکتا ہے۔ہارپ کی تشویشناک سرگرمیوں پر ریسرچ کرنے والے اوٹاوا یونیورسٹی کے ڈاکٹر مائیکل چوسو ڈووسکی اور الاسکا کے ڈاکٹر نک بیکچ جو خود ایک امریکی رکن کانگریس کے صاحبزادے ہیں ¾ نے کہا کہ بالائی فضا میں اس قسم کی خلل اندازیوں سے زمین پر سونامی اور زلزلے بھی برپا کئے جاسکتے ہیں ۔ انرجی سے بالائی فضا کے مخصوص حصے کو نشانہ بنا کر موسم سے جنگی ہتھیار کاکام لیا جاسکتا ہے۔ اس طاقتور ٹیکنالوجی کی مدد سے سیلاب کے ذریعہ کسی بھی شہر کو تباہ کیاجاسکتا ہے۔ صحرا میں بڑھتی ہوئی دشمن کی فوج کو بگولے والی آندھی بھیج کر پسپائی پر مجبور کیاجاسکتا ہے ۔ الیکٹرو میگنیٹک ہتھیاروں سے دشمن کے میزائل فضامیں تباہ کئے جاسکتے ہیں میدان جنگ میں دشمن فوجیوں کو اندھا کیاجاسکتا ہے۔ اسی قسم کے کسی اور ہتھیار سے مشتعل اور بپھرے ہوئے ہجوم کی کھال جلاکر انہیں منتشر کیاجاسکتا ہے یہاں تک کہ الیکٹرو میگنیٹک لہر کسی شہر پر چھوڑ کر وہاں موجود الیکٹرانکس کے تمام آلات مستقل تباہ کئے جاسکتے ہیں۔امریکہ کے اس خفیہ موسمیاتی جنگی منصوبے ہارپ سے متعلق متعدد دستاویزی کتابیںلکھی جاچکی ہیںبلکہ فلمیں بھی بن چکی ہیں۔بہر کیف ڈینگی مچھر کو شہر لاہور پر مسلط کرنے کا کارنامہ سی آئی اے کا یہ ہے یا قدرت کی طرف سے یہ آفت ہم پر نازل ہوئی لیکن ایک کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں رہنے والا ہر شخص نہ صرف پریشان ہوا بلکہ اس موذی بیماری کی زد میں وہ خو د یا اس کا کوئی نہ کوئی عزیز واقارب ضرور شکار ہوا ۔

عید کے دن میں ایک عزیز کے گھر تعزیت کے لیے گیا تو وہاں ایک نوجوان ڈینگی بخار میں مبتلا نظرآیا وہاں چند منٹ ہی بیٹھاہوں گا کہ مجھے بھی چند مچھروں نے کاٹ لیا خارش کے ساتھ ساتھ جسم میں توڑ پھوڑ کاعمل شروع ہوگیا ۔ میں نے اپنی یہ کیفیت کسی پر ظاہر نہیں کی اور گھر آکر سب سے پہلے مچھروں کے زہر سے بچاﺅ کی گولی Resochine نگل لی پھر کچھ دیر بعد قرشی انڈسٹریز کی دو گولیاں مصفحین بھی کھائیں تو قدرے بہتر محسوس کرنے لگا ۔گویا ڈینگی بخار کا مجھ پر حملہ ہوتے ہوتے رہ گیا ۔معا لجین کے مطابق متاثر ہ شخص کو کاٹنے کے بعد کوئی عام مچھر بھی اگر کسی صحت مند انسان کو کاٹ لیتا ہے تو وائرس صحت مند انسان کو بھی بیمار کردیتا ہے مجھے لگتا تھا کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس موذی بیماری سے محفوظ رکھا ۔

ہفتے میں ایک دو مرتبہ میں نہ صرف خودبلکہ اپنے بیوی بچوں کو Resochine گولیاں حفظ ما تقدم کے طور پر کھلاتا رہا تاکہ کم ازکم اس موذی وبا سے محفوظ رہا جاسکے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر نماز کے بعد اللہ رب العزت سے دعا بھی کرتا رہا۔لیکن کوئی دن ایسا نہیں گیا جب اخبارات میں اس موذی مرض کے شکار لوگوںکے مرنے کی خبریں نہ چھپتی ہوں بلکہ الیکٹرونکس میڈیا میں تو کرکٹ میچ کی طرح دن میں کئی مرتبہ مرنے والوں کی تعداد بتا کر شہریوں کو خوفزدہ کیا جاتا رہا ۔گھر میں مچھر اتنی مقدار میں تھے کہ ان سے بچنا ناممکن تھا۔ بے شک میاں محمد شہباز شریف کی کاوشیں ہر اعتبار سے لائق تحسین تھیں لیکن ان تک جب خبر پہنچی اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی بلکہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ہی ڈینگی وبا کے مریض بڑی تعداد میں ہسپتالوں میں آنے اور موت کی وادی میں اترنے لگے تھے ۔اس کے باوجود کہ تمام پاکستانی حکمرانوں کی نسبت میاں محمد شہباز شریف بہت متحرک اور عوام دوست ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن یوں محسوس ہوتاہے کہ جس مسئلے کی جانب ان کی توجہ مرکوز نہیں ہوتی اخبارات میں شور مچنے کے باوجود وہ سرزد خانے میں ہی پڑا رہتا ہے اور سرکاری افسر خود کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ لیکن جو مسئلہ میاں شہباز شریف کے علم میں آکر انہیں متاثر کردیتا ہے تو وہ اس کے حل کے لیے کشتیا ں جلاکر ایسے کمربستہ ہوتے ہیں کہ باقی تمام مسائل نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت جبکہ میں یہ مضمون لکھ رہاہوں تو صرف ڈینگی مرض کا شکار ہوکر لاہور میں مرنے والوں کی تعداد 250 سے اوپر پہنچ چکی ہے ۔وزیر اعلی کی کاوشوں کی بدولت سرکاری اورپرائیویٹ ہسپتال کچھ متحرک تو ہوئے اور انسانی خدمت کا کچھ جذبہ بھی ان میں پیدا ہوالیکن پھر بھی سرکاری ہسپتالوں میں وہی لوگ جاتے رہے جو کسی اور جگہ جانے کے متحمل نہیں تھے اور لاپرواہی ¾ عدم توجہی کے باعث اموات کاسلسلہ بھی جاری رہا۔

سری لنکا اور انڈونیشیا کی ٹیمیں بھی وبا پر قابو پانے کے لیے لاہور آئیں اور وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت پر انہوں نے تمام سرکاری ہسپتالوں ¾ پارکوں اور عوامی اجتماع کے مقامات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ تیار کی جس میں بتایاگیا تھا کہ گنگا رام ہسپتال سمیت کئی سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی مچھروں کے انڈے دیکھے گئے ہیں ۔جبکہ پارکوں میں بارش کا پانی اور باغات میں تالابوں اور جھیلوں کا پانی ڈینگی مچھروں کی افزائش کا باعث بن رہا ہے ۔چونکہ صرف لاہور ہی نہیں پورے پاکستان کی انتظامی مشینری انتہائی زنگ آلود ہے نہ تو تحقیق کرنے والے کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی عوامی مفادات کا تحفظ کرنے والے سرکاری افسران اپنے عہدے اور فرائض سے انصاف کرتے ہیں ۔اس لیے یہ وبا تیزی سے پھیلتی ہی چلی گئی ۔

بہرکیف ہر قسم کے حفاظتی اقدامات کرنے کے باوجود 2 اکتوبر2011 اتوار کی شام پہلے بڑے بیٹے (شاہد) کو بخار ہوا ہے پھرچھوٹا بیٹا (زاہد) بھی بخار سے تپنے لگا ۔ شاہد اور زاہد دونوں بیٹوں کو مقامی ڈاکٹر ذکااللہ گھمن سے دوائی دلوائی گئی لیکن جو ں جوں وقت گزر رہا تھا شاہد میں وہ تمام علامتیں ظاہر ہونے لگیں جو ڈینگی بخار کے بارے میں معالجین بتایا کرتے تھے ۔بخار کی وجہ سے اس کی ہڈیوں ¾پٹھوں ¾ آنکھوں کے پیچھے شدید درد ہونے لگا رفتار قلب میں کمی کے ساتھ ساتھ چہرے پر سرخ دانے نمودار ہونے لگے ۔جسم اتنا گرم تھا کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ٹھنڈے پانی کی پٹیاں مسلسل لگائی جارہی تھیں پھر بھی بخار کی شدت میں کمی واقع نہ ہوئی ۔ دوسری جانب بیٹے زاہد کا بخار بھی بہت ہوتا جارہا تھا ۔ یہ دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا کہ آسمان میرے سر پر گر گیا ہے اے خدایا مہربانی فرما ۔ میں توخود گھٹنوں کے درد اور قوت سماعت میں کمی کی وجہ سے کہیں آنے جانے کے قابل نہیں رہا۔میں اپنے بیمار بیٹوں کو اٹھاکر کہاں جاﺅں گا ۔ساری رات سخت بے چینی میں گزری ۔ برف کی پٹیاں لگاکر بخار اترنے کی جستجو کی جاتی رہیں ۔بچوں کو تکلیف اور کرب میں تڑپتا دیکھ کر مجھے کہاں سکون میسر آسکتا تھا۔ خدا خدا کرے اگلی صبح کا سورج طلوع ہوا ۔ تو میں نے سرکاری ہسپتالوں میں جانے کی بجائے خالد مسجد کیولری گراﺅنڈ لاہور کینٹ میں آرمی میڈیکل کیمپ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے سول اداروں کی نسبت آرمی پر زیادہ بھروسہ اور اعتماد ہے لیکن جب بھی ڈینگی بخار کے کسی مریض کی موت کی خبر ٹی وی پر چلتی یا اخبار میں دیکھتا تو دل میں خوف کی ایک لہر سی اٹھتی اور میں خدا کی بارگاہ میں التجا کرنے لگتا خدایا ; اس عمر میں مجھے کسی بھی صدمے سے محفوظ رکھنا ۔ یہ دونوں بیٹے میری وہ آنکھیں ہیں جن سے میں دنیا کو دیکھتا ہوں اگر ان کو کچھ ہوگیا تو میں کیسے زندہ رہ سکوں گا۔دراصل جسم کے جس حصے میں تکلیف ہوتی ہے وہ جسم کے باقی حصوں سے زیادہ اہمیت اختیارکرجاتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ شاید یہی حصہ سب سے زیادہ قیمتی اور انمول ہے ۔میری تمام تر توجہ کا مرکز صرف بیمار بیٹے تھے ۔

جونہی میں دونوں بیٹوں کو لے کر آرمی کیمپ پہنچا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہاں موجود آرمی کاہر افسر اور جوان انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی طرح اذیت اور کوفت کہیں دکھائی نہیں دی ۔ کرنل اعجاز جو سنئیر میڈیکل آفیسر اور آرمی کیمپ کے انچارج تھے انہوں نے مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ گھر میں سپرے کریں رات کو کوائل جلاکر سوئیں گھر کے اندر یا باہر کہیں فالتو پانی کھڑانہ ہونے دیں پانی کے برتن ڈھانپ کر رکھیں کھلے بازووں والا لباس پہننے کی بجائے پورے بازو اورپائنچوں والے کپڑے پہنیں کھلی چپل کی بجائے جرابیں اور جوتے پہنیں اگر ہوسکے تومچھر دانی لگائیں ۔ ان ہدایات پر عمل کریں اللہ نے چاہا تو آپ کے بیٹے بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے ۔پھر چیک کرنے کے بعد بتایا کہ علامتیں ڈینگی بخار کی ہی لگتی ہیں ۔ان کے حکم پر صرف پانچ منٹ میں خون ٹیسٹ کی رپورٹ آگئی تو بڑے بیٹے شاہد کے خون کے سیل 174 نظر آئے جبکہ زاہد کے 224 تھے ۔کرنل صاحب نے دوائی دے کر تین دن بعد دوبارہ آنے کے لیے کہا ۔گھر آنے کے بعد شاہد کو تو صرف بخار نے مسلسل پریشان کیے رکھا لیکن زاہد کو الٹیاں اور پیچش نے بھی پریشان کردیا ۔ اب کیا کیا جائے سمجھ نہیں آرہی تھی درحقیقت میں کسی بھی سرکاری ہسپتال نہیں جانا چاہتا تھا جہاں ابتدائی پرچی بنانے ¾ لیبارٹری ٹیسٹ کروانے ¾ ڈاکٹرکو چیک کروانے پھر تشخیص کرنے کے لیے انتہائی تھکا دینے والا مرحلہ مجھ سے طے نہ ہو پاتا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیںتھی کہ میں یہ سب کچھ کر سکوں گا ۔ زاہد کی حالت جب زیادہ تشویش ناک ہوئی توایک بار پھر ڈاکٹر ذکااللہ گھمن کے پاس لے گیا ۔ دوائی کے ساتھ ساتھ ڈریپ بھی لگانے سے حالت کچھ بہتر ہوئی لیکن کچھ نہ کھانے اور بخار کی شدت کی وجہ سے زاہد بہت کمزور ہوچکا تھا شاہدکی طبیعت کچھ سنبھلنے سے اس کی جانب سے تشویش کچھ کم ہوئی لیکن زاہد کی تیزی سے بگڑتی حالت میری پریشانی میں حد درجہ اضافہ کررہی تھی ۔نفلی ¾ فرضی نمازوں کے ساتھ نماز حاجات پڑھ کر بھی رب العزت سے بچوںکی تندرستی کی دعا مانگی اور ساتھ ساتھ دونوں بیٹوں کو بھی کہتا رہا کہ خاموش لیٹنے کی بجائے آیت کریمہ کا ورد کرتے رہو ۔ کیونکہ یہی وہ دعا ہے جو حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں پڑھی تھی اور اللہ نے ان کو بیک وقت چار اندھیروں سے نجات عطا فرمائی تھی ۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ اسم اعظم بھی ہے جو شخص اس آیت کو پڑھ کر اپنے رب سے دعا کرتا ہے وہ حکمت خداوندی سے رد نہیں ہوتی ۔جس رات میں بہت پریشان تھا پیرو مرشد حضرت مولانا محمد عنایت احمد ؒ خواب میں تشریف لائے اور اپنے ہاتھوںسے شاہد بیٹے کو پیار کیا جس کے بعد شاہد کی حالت بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی ۔

بہرکیف انار ¾ سیب کے جوس دونوں کو باقاعدگی سے پلائے جاتے رہے ۔ جس سے ماشااللہ شاہد تو قدرے بہتر ہوگیا لیکن زاہد کی حالت اب بھی تشویش ناک تھی۔جب دو دن بعد آرمی کیمپ پہنچا تو کرنل اعجاز نے پھر خون ٹیسٹ کروانے کے لیے کہا ۔رپورٹ کے مطابق شاہد کے سیل 138 اور زاہد کے 124 تک نیچے گر چکے تھے بے شک کرنل اعجاز مجھے تسلی دے رہے تھے کہ بیماری کی شدت جونہی کم ہوئی سیل خود بخود بڑھنا شروع ہوجائیں گے لیکن میرے لاشعور میں ایک ہوک سی اٹھتی جو میرے دل و دماغ کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ۔میں نے کئی دوست احباب کو اس مرض کا شکار ہوکر اسی طرح مرتے دیکھا تھا اسی لیے میں اپنے بچوں کو بچانے کے لیے ہر وہ عبادت اور ہر وہ کاوش کرنے کے لیے تیار تھا جس سے وہ صحت مند ہوجائیں ۔ پھر صبح کا وہ ماحول مجھے یاد آنے لگا جب ہم تینوں موٹرسائیکلوں پر اپنے اپنے دفتروں میں جانے کے لیے گھر سے نکلتے تو نیند سے بیدار ہونے سے گھر سے رخصتی تک ایک ہنگامہ خیزی دکھائی دیتی کوئی نہا رہا ہے تو کوئی شیو بنا رہا ہے کوئی ناشتہ کررہا ہے تو کوئی کپڑے پہن کر تیار ہورہا ہے ۔ان بچوں کی ماں ناشتہ بنانے دوپہر کا کھانا ساتھ باندھنے اور دونوں بچوں کے لیے بطور خاص انڈہ بنانے میں مصروف نظر آتی ہے جبکہ شاہد کی بیگم اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ میرے کپڑوں کو استری کرنے ¾ ترتیب سے سجانے اور جوتوں کو پالش کرنے کا فریضہ انتہائی ذمہ داری سے انجام دیتی ۔ جب ہم تینوں دفترجانے کے لیے گھر سے روانہ ہونے لگتے تو بچوں کی ماں اور میری بیگم فرد ا فرد ا ہم سب کوگھر سے باہر آکر خدا حافظ کہتی اس لمحے شاہد کی بیٹی اور میری پوتی شرمین فاطمہ بھی اس کی آغوش میں ہوتی جو گھر کی رونق اور ہم سب کے پیار کا مرکز بن چکی ہے ¾ بچوں کی بیماری نے یہ سب کچھ خواب بنا کر رکھ دیا۔

جب میںبنک جانے کے لیے گھر سے نکلتا تو انہیں نیم بے ہوشی کے عالم میں بے سدھ لیٹا ہوا دیکھ کر کلیجہ مونہہ کو آتا یہ دیکھ کر دل سے دعا نکلتی اے پروردگار میرے بچوں کو جلد صحت مند کردے ۔ میں اس قابل نہیں ہوں کہ ان کی تکلیف دیکھ سکوں میں تو ہر لمحے ان کی خوشیاں دیکھنے کا آرزو مند ہوں تو دلوں کے راز کو جانتا ہے مجھے اس غم اور پریشانی سے نجات عطا فرما اور میرے بچوں کو ایک بار پھر ویسے ہی صحت مند اور توانا کردے جیسے یہ بیماری سے پہلے تھے۔ تکلیف اور اذیت کے دن کسی نہ کسی طرح گزرتے رہے حتی کہ جمعہ کادن آگیا ۔ کمزوری اس قدر زیادہ ہوچکی تھی کہ میرے مضبوط اور توانا بیٹے بغیر سہارے کے باتھ روم تک جانے سے بھی قاصر تھے ۔نماز جمعہ اہتمام سے ادا کرنا وہ اپنا فرض اولین تصور کرتے تھے گھر ہوں یا دفتر نماز جمعہ وہ کبھی مس نہ کرتے تھے لیکن نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب میں بنک واپس پہنچا تو میں نے گھر فون کرکے پوچھا کہ شاہداور زاہد نماز جمعہ پڑھ آئے ہیں ۔
تو بتایا گیا کہ کمزوری کی وجہ سے وہ نماز جمعہ پڑھنے نہیں جاسکے ۔یہ سن کر میرے ضبط کے تمام بندھ ٹوٹ گئے اور میں زار و قطار رونے لگا خدایا یہ سب کیاہوگیا میرے بچے اتنے لاغر ہوگئے کہ مسجد میں بھی نماز کے لیے نہیں جاسکے ۔جوں جوں مجھے بچوں کی یاد آرہی تھی سوز گداز بڑھتا جارہا تھا۔ اس لمحے مجھے یاد آیا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بھی تو اپنے پیارے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں بارہ سال روتے رہے حتی کہ آنکھوں کی بینائی بھی جاتی رہی پھر جب حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتہ لے کر برادران یوسف مصرسے واپس لوٹے تو آپ علیہ السلام کو بہت دور سے ہی بیٹے کے کرتے کی خوشبو آنے لگی ۔ جب وہ کرتہ آپ علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر ڈالا گیا تو نہ صرف قلبی سکون ملا بلکہ آپ آنکھوں کی کھوئی ہوئی بینائی بھی واپس لوٹ آئی ۔

اس کے باوجود کہ بیٹے مجھ سے دور نہیں تھے اور میں انہیں دیکھ کر جی بھر کے پیار بھی کرسکتا تھالیکن ان کی بیماری نے مجھے اس قدر بے حال کردیا تھاکہ الفاظ میں اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔اولاد کی محبت انسان کے جس طرح خون میں رچ بس جاتی ہے کہ اس کی شدت سے محفوظ نہیں رہا جاسکتا ۔ ہندوستان کے شہنشاہ بابر نے جس طرح اپنے بیمار بیٹے ہمایوں کے گرد چکر لگاکر دعا کی تھی اے اللہ بیٹے میری زندگی لے لے لیکن میرے بیٹے کو صحت مند کردے ۔یہ دعا اللہ کے ہاں مقبول ہوئی بیٹا ہمایوں صحت مند اور باپ موت کی وادی میں جاسویا۔ میں بھی شہنشاہ بابر کی طرح زندگی کو اپنے بیٹوںپر قربان کرنے کا عزم رکھتا تھا لمحہ بہ لمحہ تڑپتا ہوا دیکھنے کی مجھ میں طاقت نہ تھی۔ بار بار یہ سوچ ذہن میں پیدا ہورہی تھی کہ میری یہ زندگی کس کام کی اگر میں اپنے بچوں کو نہ بچا سکا پھر اچانک یا د آیا کہ ایک مرتبہ حضرت موسی علیہ السلام نے پروردگار سے مخاطب ہوکر پوچھا تھااے باری تعالی اگر میں کسی مشکل یا بیماری میں مبتلا ہوجاﺅں تو مجھے وہ کلمہ عطا فرما دے۔ جسے پڑھ کر میری دعا تیری بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرسکے۔ اللہ تعالی نے فرمایا اے موسی علیہ السلام اپنی اس زبان سے دعا مانگ لیا کرو جس سے تم نے گناہ نہ کیا ہو۔ یہ سن کر حضرت موسی علیہ السلام نے التجا بھر ے لہجے میں کہا ۔ اے میرے رب میں وہ زبان کہاں سے لاﺅں جس سے میں نے کوئی گناہ نہ کیا ہو ۔رب العزت نے فرمایا تو کسی اور سے اپنے لیے دعا کروا لیا کرو کیونکہ تم نے اس کی زبان سے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا ۔

اللہ تعالی اور حضرت موسی علیہ السلام کے مابین ہونے والی یہ گفتگو مجھے یاد آئی ۔( یقینا یہ خیال اللہ تعالی نے ہی بچوں کی شفا کے لیے میرے دل میں پیدا فرمایا تھا کیونکہ ہر اچھے خیال اور توفیق کا وہی مالک ہے) تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے میں نے موبائل پر ایک پیغام لکھا جس میں بچوں کے صحت یابی کے لیے دعا کی التجا کی گئی تھی یہ میسج میں نے اپنے کئی قابل ذکر دوستوں کو کیا یہ SMS کر تے ہوئے میں رو بھی رہا تھا اور زبان سے آیت کریمہ کا ورد کررہا تھا ۔ اس لمحے جن دوستوں نے دعا کے ساتھ ساتھ جوابی میسج کرکے مجھے بے پناہ حوصلہ دیا ان میں سید علی رضا ¾ رانا خرم ( خانپور ) ¾ نبیلہ ڈائریکٹر پبلک ریلشنز ¾ عبدالوھاب ( گوجرانوالہ )عبدالغفور ¾ ڈاکٹر فیض چشتی ¾ حکیم رضوان ارشد ¾ راحت ملک ¾ حبیب عالم ¾ اطہر علی خاں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز ٹو چیف منسٹر پنجاب ¾ حافظ شفیق الرحمان ¾ پروفیسر صابر لودھی ¾ محمد بوٹا جوائنٹ ڈائریکٹر سٹیٹ بنک ( سیالکوٹ ) ڈاکٹر سعید الہی ایم پی اے ¾ افتخار مجاز ہیڈ کرنٹ آفیئر پاکستان ٹیلی ویژن ¾ نوائے وقت کی کالم رائٹر عارفہ صبح خان اور ایٹمی سرنگیں تعمیرکرنے والے پاکستان کے نمبر ون اور دنیا کے ممتاز ماہر ارضیات محمد حسین چغتائی شامل تھے ۔میں ان کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں ۔ جناب محمد حسین چغتائی صاحب نے دعا کے ساتھ ساتھ مجھے ایک اورقرآنی آیت بھی SMS کی جس کے بارے میں ان کاکہنا تھا کہ جب وہ بلوچستان کے دور دراز علاقے چاغی میں ایٹمی سرنگیں کھود رہے تھے وہاں سانپ اور بچھواتنی بڑی تعداد میں رینگتے نظر آتے تھے جیسے شہروں میں مکھیاں اور مچھر ۔ ہم ڈیڑھ سو افراد دو اڑھائی سال وہاں رہے اور نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی یہ دعاپڑھتے رہے لیکن اس دوران کسی ایک شخص کو بھی سانپ یا بچھو نے نہیں کاٹا ۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو التجا کی کہ اسے بچھو نے ڈس لیا جس کی وجہ سے بہت تکلیف ہورہی ہے ۔ آپ ﷺنے فرمایا اگر تم یہ دعا پڑھتے لیتے تو بچھو سمیت کائنات کا کوئی بھی موذی جانور تمہیں نہ ڈستا ۔دعا درج ذیل ہے ۔
اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق
ترجمہ ۔ میں ان کلمات کے وسیلے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس کی ہر موذی مخلوق کے شر سے ۔

بعض روایات میں ہے کہ صرف رات کے وقت سونے سے پہلے تین مرتبہ یہ دعا پڑھنے سے سانپ بچھو سمیت تمام زہریلے اور موذی جانوروں کے شر سے اللہ محفوظ کردیتا ہے ۔ اس کرم فرمائی پر میں محمد حسین چغتائی کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں کہ انہوں نے نہ صرف میرے بچوں کی صحت کے لیے مسلسل دعا کی بلکہ ہمیشہ کے لیے مجھے دعا کی صورت میں ایک نعمت غیر مترقبہ عطا فرما دی ۔ جسے میں خود بھی پڑھتا اور پڑھ کر اپنے بچوںکو بھی دم کرتا ۔کیونکہ یہی بیٹے میری کل کائنات تھے ۔

میں سمجھتاہوں یہ بھی اللہ کا مجھ پر خاص کرم تھا کہ اس نے مجھ پر سوز گداز کی کیفیت طاری کی اور میری دعا اس کی بارگاہ میں مقبول ہوئی ۔ انسان کی یہ حالت اللہ تعالی کو بہت پسند ہے کیونکہ وہ تو فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں عطا کروں گالیکن مانگنے کا طریقہ ہمیں نہیں آتا ۔ جب آگ اپنے دامن میں لگتی ہے تو دعا بھی دل سے نکلتی ہے اور اثر بھی رکھتی ہے ۔ جب شام ڈھلے گھر میں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دونوں بیٹے پہلے سے بہت بہتر ہیں ۔یہ معجزہ صرف وہی ذات دکھا سکتی ہے جو اس پر قادر ہے ۔جمعہ کی رات اور ہفتے کا دن گزرا توچھوٹے بیٹے زاہد کی حالت ایک بار پھر خراب ہوگئی ۔ ڈریپ لگوانے سے حالت قدرے بہترہوگئی بلکہ دوسرے دن جب خون ٹیسٹ کیاگیا تو سیل میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ حالت اب خطرے سے باہر اور مرض کی شدت میں بھی کمی واقع ہورہی ہے ۔دس دنوں کے بعد دو نوں بیٹے پہلے کی نسبت صحت منداور بہتر دکھائی دیئے بلکہ بدھ کے روز دونوں نے ایک بار پھر اپنی گھریلو اور دفتری ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔ جس پر میں خدائے بزرگ و برتر کا د ل کی گہرائیوں سے شکرگزار ہوں جس نے میری اور دوستوں کی دعاﺅں کو قبول کرتے ہوئے میرے بچوں کو شفائے کاملہ عطا فرمائی ۔ لیکن ان دس دنوں میں جو کیفیت مجھ پر طاری رہی اس کی شدت اور تکلیف میں ہی جانتا ہوں ۔بڑھاپے میں جوان اولاد کا ہونا نہ صرف قدرت کا انعام ہے بلکہ ایک نعمت غیر مترقبہ کے مترادف ہے کیونکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں دقت محسوس کرتا ہے ۔جوان بیٹے تمام ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دے کر باپ کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور یہی آسانیاں لیے ہر باپ اپنی زندگی کے آخری ایام گزارتے گزارتے قبروں میں اترنا پسند کرتا ہے ۔اللہ نہ کرے کسی بوڑھے باپ کو جوان بیٹوں کی بیماری کا بوجھ اٹھانا پڑے بلکہ جوان بیٹے ہی باپ کا بوجھ اٹھاتے ہوئے اچھے لگتے ہیں ۔جس طرح بچپن میں بچے اپنے باپ کے ساتھ چلتے ہوئے فخر اور تحفظ کااحساس رکھتے ہیں اسی طرح بڑھاپے میں باپ جوان بیٹوں کے ساتھ چلتاہوا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے نہ صرف فخر محسوس کرتا ہے بلکہ بیٹوں کی رفاقت اس کے لیے تحفظ کاگمان بھی پیدا کرتی ہے ۔

اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے میرے بچوں کو اس موذی بیماری سے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے نجات دی لیکن ان والدین پر کیا گزری ہوگی جن کے بچے اس موذی مرض کا شکار ہوکر انہیں داغ مفارقت دے گئے ہیں یا ان بچوں پر کیا گزری ہوگی جن کے سروں سے ماں یا باپ کا سایہ چھن گیا ۔اس کے باوجود کہ وزیراعلی پنجاب نے ایک احسن قدم اٹھاتے ہوئے ڈینگی مرض کا شکار ہوکر مرنے والوں کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے فی کس دینے کا اعلان کیا ہے جو معاشی پریشانیوں کا کسی حد تک مداوا بن سکتا ہے لیکن اپنوں کی جدائی سے دلوں پر لگنے والے زخم عمر بھر نہیں بھرتے ۔اللہ سب کو ایسی موذی بیماری سے محفوظ رکھے اور کسی کو ایسے امتحان میں نہ ڈالے ۔ آمین

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 113741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.