زرداری شہباز اور بڑھتے طوفان

میں اپنے آپ کو سیاست کے" میدان "کا آدمی ہر گز نہیں سمجھتا لیکن ایک پنجابی محاورے کے مطابق" کہ ہم بھلے دولہا کبھی نہ بنے ہوں پر بہت سوں کو دولہا بنتے دیکھا ہے"۔پاکستان میں سیاست کوئلوں کی دلالی ہے۔اس میں سیاست کا نہیں دلالوں کا زیادہ قصور ہے جنہوں نے اپنے کالے کرتوتوں سے کوئلے کو بھی شرما دیا ہے۔قائد علیہ الرحمہ کے بعد آنے والے سیاستدان بھی کچھ ایسے دودھ کے دھلے نہ تھے۔لیکن اگر آج کے نابغوں سے ان کا تقابل کیا جائے تو وہ لوگ مقرب فرشتوں کے منصب پہ فائز نظر آتے ہیں۔بھٹو نے پاکستان میں ایک نئی طرز سیاست کا آغاز کیا۔قتل ،اغواء،سیاسی مقدمے،جیالا نوازی،یہ سب پاکستانی سیاست میں بھٹو صاحب کی دین ہیں۔ان کے بعدجو بھی آیاوہ سوا سیر ہی نکلا۔کس کس کا نام لوں اور کس کس کے کن کن کارناموں کا ذکر کروں۔آپ سب جانتے ہیں۔بے نظیر کی نا گہانی موت کے بعد جب آصف علی زرداری نے بھٹوز کی پارٹی کو اپنے حرم میں ڈالا۔انہوں نے اپنی شاطرانہ طرز سیاست سے ملک کے ہر ٹھگ کو عوام کے سامنے ننگا کر کے رکھ دیا۔زرداری صاحب نے ایسی گھمن گیریاں ڈالیں کہ بے حساب مقدمات میں عدالت کو مطلوب ہوتے ہوئے بھی ایک سخت گیر فوج اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں ایک ایسی جگہ جا براجمان ہوئے جہاں اب آئینِ پاکستان ان کا محافظ ہے۔

آج وہی این آر او جس کی آڑ لے کے زرداری صاحب ایوان صدر براجمان ہو گئے تھے ۔اب وہی قانون دوبارہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے۔بابر اعوان عدالت سے فرار ہو چکے اور اس قانون پہ نظر ثانی کی اپیل سپریم کورٹ نے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی ہے۔اب وہ ملزم جو اس قانون کی وجہ سے باعزت شہری ہو گئے تھے ا ور ملک کے بڑے بڑے عہدوں پہ براجمان ہو گئے تھے۔ دوبارہ الزامات کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔اب اللہ جانے قانون اس کے بارے کیا کہتا ہے کہ ایک پاگل،ایک ملزم اگر کسی ڈیل کی بناءپہ کسی ایسے عہدے پہ براجمان ہو جائے جہاں اسے ہر فوجداری اور دیوانی مقدمے سے استثناءحاصل ہوتو کیا اس ڈیل کے ٹوٹ جانے پہ بھی کیا وہ اس عہدے کے استثناءکا استحقاق رکھتا ہے۔مجھے تو اس کاجواب نفی میں ہی لگتا ہے۔اس کی ایک مثال یوں لیجیئے کہ ایک غیر مسلم اگر کسی طرح مسجد کی امامت حاصل کر لے اور بعد میں اس کے اسلام کا بھانڈا پھوٹ جائے تو کیا صرف اس لئے کہ اس نے کچھ عرصہ مسجد کی امامت کی ہے کیا اسے مسجد کی امامت پہ بر قرار رکھا جاسکتا ہے؟

مروجہ شیطانی سیاست میں زرداری صاحب کا کوئی جوڑ نہیں۔میں طنز نہیں کر رہا۔یہ میری ایماندارانہ رائے ہے۔کاش انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو مثبت طور پہ آزمایا ہوتا۔زرداری صاحب! این آر او ایک پھندا ہے اور دوسرا پھندا پاکستانی عوام کی نفرت۔یہ دونوں پھندے آہستہ آہستہ آپ کی گردن کے گرد تنگ ہونے کو ہیں۔یاد رکھیئے ! پاکستان میں قانون اب بھی موم کی ناک ہے۔اگر اس کاسقم ایک با قاعدہ ملزم کو ایوان صدر میں براجمان ہونے سے نہیں روک سکا تو ایک ملزم کو وہاں سے نکالنے میں اس کی راہ میں کون رکاوٹ ڈال سکتا ہے؟اللہ ہی اب آپ کا حامی و ناصر ہو۔توبہ کی البتہ آخری سانس سے پہلے تک گنجائش ہے۔ہر ولی کا ایک ماضی اور ہر گناہ گار کا ایک مستقبل ہوتا ہے۔ابھی شاید آپ کے لئے توبہ کا در بند نہیں ہوا۔اگر ایوان صدر میں سجدہ ریزی کی اجازت نہیں تو ایک دن مارگلہ کی پہاڑیوں کی طرف نکل جائیے اور گڑگڑا کے مالک سے معافی مانگیں شاید بچت کی کوئی صورت نکل آئے۔

ویسے اگر آپ ابھی بھی یہ کھیل جاری رکھنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ ۔اس میں بھی آپ اکیلے نہیں آپ کے پنجاب میں کاﺅنٹر پارٹ میاں شہباز بھی اسی راستے پہ گامزن ہیں۔قوم کی بیٹیوں پہ ان کے نام نہاد تاجر غنڈوں نے جس طرح انڈے اور پولیس نے ڈنڈے برسائے۔اسے اپنی اپنی ٹی وی سکرین نے اس تماش بین قوم نے مزے لے لے کے دیکھااور ان مناظر سے لطف اٹھایا۔یہ بچیاں تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ تو کر رہی تھیں لیکن ان کی باتیں سن کے یوں لگتا تھا کہ وہ تنخواہ میں اضافے سے زیادہ ایک حرف تسلی اور ایک وعدہ فردا کی متمنی ہیں۔انہیں نام نہاد تاجروں کے ہاتھوں ذلیل کروایا گیا۔ان پہ مقدمات درج کروائے گئے۔جس وقت قوم کی بیٹیوں کو سڑکوں پہ ذلیل کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف خادم اعلی ٰ اور نادم اعلیٰ دونوں ٹی وی سکرینوں پہ دنیا کو چٹکلے سنا رہے تھے۔یہ بچیاں جو جنوبی پنجاب سے لاہور اس نیت سے آئیں تھیںکہ اہل لاہور غیرت والے ہیں ،عزت والے ہیں۔وہ ہمارے سروں پہ ہاتھ رکھیں گے اور ہمارے سر پہ چادر ڈالیں گے لیکن وہ لاہور جسے ہم پاکستان کا دل کہتے تھے۔جس کے سیاسی شعور پہ پورا پاکستان فخر کرتاتھا۔جسے ہم اب بھی داتا کی نگری کہتے نہیں تھکتے۔جو علم و حکمت کا گہوارہ اور سماجی اور معاشرتی روایات میں ایک نام تھا۔وہاں کے باسی تماشہ دیکھتے رہے ۔ انہوں نے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کے یہ ثابت کیا کہ لاہوریوں کی اوپر بیان کی گئی صفات رکھنے والے اب سب میانی صاحب میں جا براجمان ہوئے ہیں اور باقی تماش بینوں کی ایک فوج ہے جس نے لاہور پہ قبضہ کر لیا ہے۔جس لمحے ان مظلوموں کو لاہور کی سڑکوں پہ گھسیٹا جا رہا تھا عین اسی لمحے تخت لاہور کا بے بال و پر گورنر کرکٹ کے مزے لے رہا تھا۔اللہ نے اسے ساری دنیا کے سامنے رسوا کیا اوروہ اپنے ہی پاﺅں پہ گر کے زمین کی خاک چاٹنے پہ مجبور ہوا۔جلد ہی یہ حال نادم اعلیٰ کا بھی ہو گا اور خادم اعلیٰ کا بھی۔اب تو ان مظلوموں کی صفوں میں عائشہ احد کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔جو خادم ِ اعلیٰ کے عین انہی کے نقش قدم پہ چلنے والے عاشق اعلیٰ صاحبزادے کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہے۔نون غنوں کے لئے بھی شاید توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا۔ان کے لئے بھی موقع ہے کہ وہ ان مظلوموں کے سر پہ ہاتھ رکھیں اور اپنی عاقبت سنوار لیں۔

آخر میں مجھے لاہور کے باسیوں کو مبارک باد دینی ہے کہ انہوں نے کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔یہ صبر تو آپ نے اس وقت بھی کیا جب سر عام آپ ہی کے ایک لاہوری رکشہ ڈرائیور کی بیٹی کو تاوان کے لئے اغوا کیا گیا ۔ اغواءکاروں نے پچاس ہزار وصول کر لئے اور بچی کو بھی ذبح کر دیا۔آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنا یہ باکمال صبر اس وقت بھی جاری رکھئیے گا جب آپ کی بسمہ، نادیہ ،ثانیہ یا سمیعہ کو بھی کوئی غنڈہ اغواءکر کے ذبح کر دے۔تھوڑی سی مبارکباد انصاف کے اس بلند و بالا ایوان کی خدمت میں بھی جولاہور کی سمت چلنے والی گرم ہواﺅں کا بھی سو موٹو ایکشن لے لیتا ہے لیکن قوم کی ان بیٹیوں پہ انڈے پھینکنے اور پھنکوانے والوں کے خلاف "زمین جنبد نہ جنبد گل محمد" کی تصویر بن جاتا ہے۔انصاف زندہ باد
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.